کسی بڑے ہی استاد کا شعر ہے صنم کہتے ہیں تیری بھی کمر ہے کہاں ہے کس طرف کو ہے کدھر ہے ریل گاڑی اور اس کے سفر سے کس کا رومانس وابستہ نہیں ہوگا۔میرا بھی ریل گاڑی سے یاد ِماضی سے پھوٹتا رومانس ہے۔ شاعروں کا ریل گاڑی سے ایسا ہی رومانس وابستہ ہے۔پہلے منیر نیازی یاد آئے اور پھرپروین شاکر اک تیز تیر تھا کہ لگا اور نکل گیا ماری جو چیخ ریل نے جنگل دہل گیا …… ریل کی سیٹی میں کیسے ہجر کی تمہید تھی اس کو رخصت کرکے گھر لوٹے تو اندازہ ہوا چنانچہ ایک مدت کے بعد لاہور سے کراچی ٹرین سے سفر کا موقعہ ملا تو اس سفر کی خوشی پہلے سے شروع ہوگئی۔ لیکن پہلا مرحلہ تو بکنگ کا تھا۔طے شدہ قاعدے کے مطابق ایک ماہ پہلے آن لائن بکنگ کھلنی تھی ۔لوگ اس رات بارہ بجے سے پہلے نظریں جمائے بیٹھے تھے کہ اب بکنگ کھلے گی اور اب سیٹیں ریزرو کروائیں گے لیکن بارہ بجتے ہی مطلوبہ ٹرین کی نشستیں ایک اک کرکے سرخ ہونی شروع ہوئیں یعنی ریزرو ہوچکیں۔کسی ایک شخص کو بھی کوئی سیٹ ریزرو کروانے میں کامیابی نہیں ہوئی۔معاملہ صاف تھا کہ یہ سب نشستیں کچھ ہاتھوں میں ہیںاورمبینہ طور پراب ٹکٹ بلیک میں بکیں گے۔ آن لائن سے مایوس ہوکر لاہور ریلوے ہیڈ کوارٹر پہنچے۔لمبی قطاریں دیکھ کر یقین ہوگیا کہ اس شاخ تک ہمارا ہاتھ پہنچنا محال ہے۔اب آخری راستہ یہی تھا کہ کسی صاحب اختیار سے مدد لی جائے۔خیر خدا بھلا کرے ایک بہت مہربان دوست کا جن کی مہربانی سے اے سی سلیپر کی نشستیں بک ہوگئیں۔ 2018 ء کی آخری شام تھی ،جب ہم لاہور سٹیشن پہنچے۔پہلی اطلاع تو یہ ملی کہ ہماری ٹرین گھنٹوں کے حساب سے لیٹ ہے اور اب کم از کم 4 گھنٹے یہیں ٹرین کا انتظار کرنا ہے۔سامان کے ساتھ واپس جانا اور پھر آنا مشکل تھا چنانچہ فیملی کو واپس گھر بھیج کر وہیں رکنا پڑا ۔خواجہ سعد رفیق کے عہد وزارت میں ایک دو بار پلیٹ فارم پر آنا ہوا تھا اور پرانی صورت حال میں بہتری نظر آئی تھی اور اسٹیشن سے باہر گاڑیوں کی پارکنگ کا انتظام بھی بہتر ہوچکا تھا۔پارکنگ تو اب بھی ٹھیک تھی لیکن اپنے پلیٹ فارم نمبر 4 پر حالات بہت دگرگوں نظر آئے۔کوڑا کرکٹ ہر طرف بکھرا ہوا تھا اور کوئی سمیٹنے والا نہ تھا۔مجھے کم از کم اس پلیٹ فارم کے آباد حصے میں کوئی ایسا ڈسٹ بن دکھائی نہیں دیا جہاں مسافر کوڑا ڈال سکیں، چنانچہ مجبوری اور عادت کے شکار لوگ پٹڑیوں اور پلیٹ فارم پر خالی لفافے پھینک رہے تھے کہ اور کوئی راستہ تھا ہی نہیں۔پلیٹ فارم پر گنے چنے بنچ تھے جن پر چند لوگوں کے بیٹھ جانے کے بعد لوگوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے ہی سامان کے اوپر بیٹھ جائیں۔اپر کلاس کے ویٹنگ روم کا حال برا تھا۔اس میں اکانومی کلاس کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے کیوں کہ ان کے پاس بھی بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔خواتین کے ویٹنگ روم میں مرد بھی وقتا فوقتا بیٹھ جاتے تھے۔اس ویٹنگ روم کی انچارج خاتون اگرچہ دوسرے کلاس کے مسافروں کو روکنے کی کوشش کرتی تھی لیکن اس میں ناکام تھی۔کسی وجہ سے اس نے واش روم کو تالا بھی لگا رکھا تھا۔وہ مسافر جنہیں سردی میں 4/5 گھنٹے پلیٹ فارم پر گزارنے پڑ رہے تھے سخت دل برداشتہ تھے اور ان کی سب جلی کٹی باتوں کا رخ ریلوے اور موجودہ انتظامیہ کی طرف تھا۔انتظار کرنے والے مسافروں کے لیے کسی ٹی وی سکرین کا انتظام بھی نہیں تھا اور گاڑیوں کی آمد یا تاخیر سے آگاہ ہونے کا ذریعہ بھی صرف سپیکر کے اعلانات تھے۔لاہور اسٹیشن ایک بڑا بلکہ سب سے بڑا اسٹیشن ہے ۔ یہاں کی صورت حال سے دیگر شہروں کے حالات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ خدا خدا کرکے رات 7 بجے چلنے والی ٹرین رات 12 بجے سے کچھ پہلے روانہ ہوئی تو مسافروں کی جان میں جان آئی۔ٹرین کے اے سی سلیپر کوپے کمپارٹمنٹ صاف ستھرے اور ٹھیک حالت میں تھے، اگرچہ اسے بہت اعلیٰ قرار دینا مشکل تھا۔بچھانے کی جو چادریں فراہم کی گئیں وہ داغ دھبوں والی تھیں۔ٹی وی سکرین کی جگہ اور بٹن موجود تھے لیکن سکرین ندارد ۔اسی طرح بیڈ لائٹ بھی کچھ ٹھیک اور کچھ ناکارہ تھیں۔مجموعی طور پر کوئی بڑی شکایت دوران ِسفر پیش نہیں آئی لیکن یہ بہرحال اپر کلاس کمپارٹمنٹ کی بات ہے۔دوسرے ڈبوں کے مسافروں کو بہر حال شکایات تھیںلیکن ان کلفتوں کو سال ِ نو 2019 ء کی امیدوں نے بھلا دیا اور ٹرین میں لکھی جانے والی نئے سال کی پہلی نظم نے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ سال نو کی پہلی رات ، پہلے دن اور پہلی نظم کی اپنی خوشی ہوتی ہے اور اپنے لطف ہوتے ہیں ۔ سو ان میں آپ کو بھی شریک کرتا ہوں۔ 2019 ء کی پہلی نظم افق پہ دھند،فضا میں دھندلکا،کھیت میں دھوپ ہری زمین ،کٹی کھیتیاں،کھجوروں کے جھنڈ کہیں کہیں کسی تالاب پر سفید پرند ٹھہر ٹھہر کے یہ منظر گزرتا رہتا ہے ٹرالیوں میں لدے پورے کھیت گنے کے مٹھاس بیچتی ان تلخیوں کی لمبی قطار گھنیرے پیڑ تلے خاک زاد دیواریں اریبی راستہ،پگڈنڈی،نیم پختہ مکاں یہاں وہاں کسی تندور سے نکلتا دھواں یہ سب تھپے ہوئے اپلے،یہ سب لپے ہوئے گھر زمانہ کب سے انہی مسکنوں میں ٹھہرا ہوا حدودِ وقت سے باہر گزرتا رہتا ہے گزشتہ سال کے ملبے سے پھوٹتا نیا سال یہ سیلِ وقت ہے مجھ پر گزرتا رہتا ہے یہ انتظار فقط کربِ انتظار سعود ترس گئیں مری پوریں،جھلس گیا مرا رنگ وہ لمس جو مجھے چھو کر گزرتا رہتا ہے میں ایک تشنہ و بے آب و رنگ ویرانہ وہ دشت جس پہ سمندر گزرتا رہتا ہے یہ روداد سفر شاید شکایت نامہ لگے ،لیکن براہ کرم اس کا مقصد ٹھیک سمجھ لیں۔نہ مسافر کو اس بات کا گمان اور خوش فہمی ہے کہ ریلوے کا معیار یک دم عالمی سطح کو چھوسکتا ہے۔نہ اس بات کی توقع کہ ایسے معاشی حالات میں ریلوے اپنے مسافروں کے لیے بڑی سفری سہولیات فراہم کرسکتا ہے۔مجھے تو یہ بھی امید نہیں کہ اس تحریر کا کسی بھی درجے میں کوئی فائدہ ہوسکے گا۔لیکن یہ توقع تو بہرحال غلط نہیں ہے کہ جس وزارت کی کارکردگی کو موجودہ حکومت کے پہلے 100 دن میں بہت اطمینان بخش قرار دیا گیا تھا اور کیبنٹ میٹنگز میں اس کے لیے تالیاں پیٹی گئی تھیں، اس نے اپنے مسافروں کو مد نظر رکھتے ہوئے 100 دن میں کچھ بہتر سہولیات اور سروس کا انتظام کیا ہوگا۔یہ سوال تو پوچھنا جائز ہے نا کہ وہ بہتری کیا ہے؟ یہ بات تو ایک عام مسافر اپنے رشکِ قمر سے پوچھ سکتا ہے نا کہ کہاں ہے کس طرف کو ہے کدھر ہے ؟