کشتی میں بیٹھ کر تو میں ڈرتا رہا مگر کشتی الٹ گئی تو سمندر نہیں رہا ڈاکٹر خورشید رضوی نے کمال کی بات سنائی کہ ایک روز جب وہ منیر نیازی سے ملنے گئے تو نیازی صاحب نے رابرٹ فرسٹ کے کچھ اشعار سنائے۔ خورشیدرضوی صاحب بہت متاثر ہوئے اور نیازی صاحب سے پوچھا کہ انہوں نے کون سے انگریز شاعر پڑھے ہیں۔ نیازی صاحب نے کہا’’کوئی ایک بھی نہیں پڑھا‘‘ پھر خود ہی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا’’ایسا ان پڑھ شاعر آپ کو اور کوئی نہیں ملے گا‘‘ خورشید رضوی نے کہا واقعتاً ایسا ہی نظر آتا ہے کہ منیر نیازی تمام شعرا سے اس قدر منفرد ہیں کہ ان پر کسی بھی شاعر کی کوئی چھاپ نہیں۔ اس کے بعد انہوں نے نیازی صاحب کا ایک ایسا شعر سنایا کہ جس کی مثال پورے اردو ادب میں نہیں ملتی: نکلا جو چاند آئی مہک تیز سی منیرؔ میرے سوا بھی باغ میں کوئی ضرور تھا اس بات پر مجھے شہزاد احمد بے طرح یاد آئے کہ کچھ ایسی بات انہوں نے بھی مجھے بتائی تھی جب ہم سیر کر رہے تھے۔ کہنے لگے ’’شاہ نیازی نے ایک ایسا شعر کہہ دیا ہے جس کی مثال پوری اردو شاعری میں کہیں نظر نہیں آتی۔ پھر انہوں نے شعر پڑھا: گھٹا دیکھ کر خوش ہوئیں لڑکیاں چھتوں پر کھلے پھول برسات کے اصل میں، میں اس تقریب کا ذکر کر رہاہوں جو الحمرا آرٹس کونسل والوں نے منیر نیازی کی یاد میں منعقد کی تھی اور ساتھ ہی ایک عدد مشاعرہ بھی۔ صدارت جناب خورشید رضوی نے کی تھی جبکہ مہمانان گرامی میں مسز ناہید منیر نیازی ‘ نجیب احمد‘ نذیر احمد قیصر اورکنول فیروز تھے۔ نظامت میرے سپرد تھی کہ پچھلے برس بھی یہ سعادت مجھے سونپی گئی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ نیازی صاحب کی یادیں ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک مرتبہ پھر میں ڈاکٹر خورشید رضوی کی بات کروں گا کہ انہوں نے ایک بہت پیاری بات کی کہ محبوب کے بھول جانے کو یا نظر انداز کرنے کا مضمون ہر کسی نے باندھا اور پھر یہ کلیشے ہو گیا مثال حفیظ جالندھری کا شعر ہے: ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آسکے تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے اس مضمون میں پہلی مرتبہ منیر نیازی نے سب سے ہٹ کر شعر کہا غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں تونے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں مجھے تو اس غزل کا مقطع بھی بڑا لطف دیتا ہے: جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی روتا نہیں اس مضمون میں نیازی صاحب نے ایک کمال کا شعر سنایا تھا‘ تب ثمینہ راجہ بھی وہاں موجود تھیں: رنج فراق یار میں رسوا نہیں ہوا اتنا میں چپ ہوا کہ تماشہ نہیں ہوا یادیں ہیں کہ امڈی چلی آتی ہیں۔ متذکرہ پروگرام محترم نیاز حسین لکھویرا نے بڑی کاوش سے ترتیب دیا تھا بے شمار شاعر آ گئے۔ سب کے مراتب کا لحاظ رکھنا ایک الگ سائنس ہے۔ بعض ایسے ہوتے ہیں جنہیں جانے کی جلدی ہوتی ہے ارو بعض ایسے کہ انہیں صاحب صدر کے بعد پڑھانے میں خیر ہوتی ہے۔ بہرحال ہم نے مشاہرہ آغاز کیا پہلے تو میں منیر نیازی کے دو شعر لکھ دوں کہ ایسے منفرد اور لاجواب اشعار آپ کو سرشار کر دیں گے: دشتِ تجد یاس میں ہو ہر طرف دیوانگی ہر طرف محمل کا شک اور کہیں محمل نہ ہو وہ کھڑا ہے ایک باب علم کی دہلیز پر میں اسے کہتا ہوں دیکھ اس خوف میں داخل نہ ہو نیازی صاحب کی نظموں میں بھی جدا سا رنگ ہے۔ یاد آیا کہ ان کی نظم کی دو آخری لائنیں میں نے ایک دفعہ یوں پڑھیں کہ ’’مجھے‘‘ کی جگہ منیر لگا دیا۔ کسی نے نیازی صاحب سے کہا کہ یہ کیا؟ کہنے لگے سعدؔ کو اس بات کی اجازت ہے۔ چنانچہ یہ ہوا کہ وہ دو لائنیں آج تک شعر کے طور پر درج کی جاتی ہیں: حسن تو بس دو طرح کا خوب ہوتا ہے منیر آگ میں جلتا ہوا یا برف میں سویا ہوا مشاعرے کا تذکرہ کرتے ہیں مگر مسز نیازی کی بات ہی نہ رہ جائے کہ انہوں نے وزیر اعظم عمران خاں سے درخواست کی ہے کہ وہ جیل روڈ والے سگنل فری پل کا نام منیر نیازی کے نام رکھنے کی توثیق کریں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اس حوالے سے فیصلہ ہو چکا تھا ندیم حسن گیلانی نے اسکا تذکرہ بھی کیا۔ نہ جانے پھر یہ بات کھٹائی میں کیوں پڑ گئی۔ منیر نیازی جیسا بے بدل شاعر جو شاعری کا خان اعظم ہے اس پل کے لئے باعث فخر ہو گا۔ واقعتاً عمران خاں کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے۔ میں عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی سے کہوں گا کہ وہ خان کے گوش گزارکرے۔ مسز ناہید منیر نیازی نے سب لوگوں کا اور خاص طور پر نیاز حسین لکھویرا کا شکریہ ادا کیا۔ مشاعرے کے آغاز میں تلاوت اور نعت شریف کے بعد شعرا کا سلسلہ شروع ہوا۔ فراست بخاری نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا: دلبر دلگیر وی گل کریے آئو اج منیر دی گل کریے میرا خیال ہے کہ میں آخر میں چند شعرا کے اشعار لکھے دیتا ہوں کہ کالم اختتام کی طرف جا رہا ہے: شہر کو مل کر کھاتے ہیں شہر کے چیدہ چیدہ لوگ (انیس احمد) جہاں یار کو دیکھا کمال یار سے پہلے میں خوشبو کی طرح مہکوں خیال یار سے پہلے (نیلما ناہید درانی) شب کو ترا چراغ بجھانا کہاں گیا لکھا تھا رات بھر جو فسانہ کہاں گیا (نجمہ شاہین) دل پہ جو بیتی ہے سنانے سے فائدہ آنسو کسی کی آنکھ میں آنا تو ہے نہیں (اقبال راہی) وہ دھوپ بن کے مرے ساتھ ساتھ چلتی تھی میں شامیں جوڑ کے سایے بنایا کرتا تھا (نذیر قیصر) عجب اک معجزہ دیکھا ہے دنیا نے کہ پہلو سے یدِ بیضیٰ نکلنا تھا مگر کاسہ نکل آیا (نجیب احمد) بات وہ کہتا ہوں جو ہم رنگ خاموشی رہے درس وہ دیتا ہوں جو رہنِ فراموش رہے (ڈاکٹر خورشید رضوی)