وہ رات کبھی نہیں بھولے گی ۔

وہ را ت کیسے بھولی جاسکتی ہے جب ایک طوفانی موسم اپنی یخ بستہ ہواؤں کے ساتھ دل پر اترااور اس کی بلاخیزی میںہجرت کا وہ سفر میں نے بھی ایک بار کیا جو میرے دادا، دادی ، میرے والدین اور پورے گھرانے نے کیا تھا۔ اس سفر کے بہت سال بعدیہ سفر ایک بار میںنے بھی کیا۔میںنے ایک غزل لکھی ۔وہ غزلِ مسلسل جس سے میں ایک مسلسل سفر کی طرح گزرا ۔ایسا سفر جس میںخیال کے تیز جھکڑ مجھے رکنے نہیں دیتے تھے اورآنسو لگا تار بارش کی طرح عدسے دھندلائے رکھتے تھے۔میں نے یہ غزل لکھی اور وہ سب یاد کیا جو میں نے اپنے والد، والدہ، چچاؤں ، اورپھوپھیوں  سے بہت بار سنا تھا۔ان کے دکھ سکھ میرے دل پر پھر وارد ہوئے ۔ آبائی گھر، آبائی وطن ،تڑپتے رشتے داروں اور رشتے دار قبروں کو چھوڑنے کا دکھ ۔وطن چھوڑنے کا دکھ بڑا دکھ ہے ۔ ہجرت کی اتنی بے شمار فضیلتیں خوامخواہ نہیں ہیں ۔ جس پر گزری ہو وہی جانتا ہے۔تمام سرو سامان اسی طرح چھوڑ کر خالی ہاتھ کسی مقصد کے لیے اس طرح نکل پڑنا کہ صرف وہی مقصد زادِ راہ میں ساتھ رکھا گیا ہو،آسان کام نہیں ہے ۔ ہجرت کی صعوبت اورآبائی وطن  چھوڑ نے کا دکھ آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلّم جانتے تھے، جن کے سامنے ہجرت کے بعد کسی نے مکہ کی چاندنی راتوں کا ذکر کیا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا کہ ہاںوہ راتیں ایسی ہی تھیں جیسا تم نے شعر میں بیان کیا اور یہ بات تازہ کرلیجے کہ یہ وہ مکہ تھا جہاںاسلام لانے کے بعد غلامی کے دوران حضرت بلال پر مصائب کی انتہا کردی گئی تھی ۔لیکن اسی مکہ کو یاد کرکرکے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی کیفیت تو ذرا دیکھیے۔

الا لیت شعری ھل ابیتن لیلتہ

بفخ   و  حولی  اذخر و جلیل

(سنو! کاش مجھے علم ہوتا کہ میں مکہ کے مقام فخ میں اس حال میں رات بسر کروں گا کہ میرے ارد گرد اذخرکی خوشبودار گھاس اور جلیل نامی گھاس ہوگی)

وہل اردن یوما میاہ مجنتہ

وہل یبدون لی شامتہ و طفیل

(اور کیا ایک دن میں مکہ کے مجنہ میں واقع چشمے کا پانی پینے آؤں گا اور مجھے شامہ اور طفیل کے پہاڑ دکھائی دیں گے ؟)

 وہ دن بھی کبھی فراموش نہیں ہوگا۔ 

وہ دن جب زندگی میں پہلی بار قصبہ دیوبند ،ضلع سہارنپور، یوپی ، ہندوستان میں اپنے اس آبائی گھر کو دیکھنے اور اس فضا میں سانس لینے کا موقعہ ملا جو میرے دادامولانا مفتی محمد شفیع کا بنایا ہوا گھر تھا اور جہاں وہ اور میرے والدین رہا کرتے تھے۔ میرے داداکے نام کے ساتھ کتنے ہی سابقے اور لاحقے لگتے ہیں۔ مفتٔی اعظم پاکستان۔سینکڑوں کتابوں کے مصنف اورچوٹی کے فقیہ۔غیر متنازعہ اور قابلِ احترام شخصیت،عالم اسلام کے مایہ ناز محقق۔ تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنما،شدید مخالفتوں کے باجودقائد اعظم اور مسلم لیگ کی کھل کر حمایت کرنے والے مفتی۔متعدد وفود میں قائد اعظم کی دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے والے عالم۔قائد اعظم کی درخواست پراپنے استاد اور چچا زاد بھائی علّامہ شبیر احمد عثمانی کے ساتھ صوبہ سرحد میں مسلم لیگ کے لیے ریفرنڈم جیتنے والے رہنما اور مقرر۔قیام پاکستان کے بعد تعمیر پاکستان کے لیے مسلسل جد و جہد کرنے والے درویش ِ خدا مست۔یہ سابقوں اور لاحقوں کی فہرست اور خطابات کی تفصیل نامکمل ہے ۔اس میں بہت اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔ جاننے والے سب جانتے ہیں ۔ لیکن جو حلاوت، جو لطف اور جو مزا انہیں ’ ’ دادے ابا ـــ ‘ ‘ کہنے میں ہے وہ کسی خطاب، کسی سابقے لاحقے میں نہیں۔باقی نام تو سب لے سکتے ہیں ۔’ ’ دادا ـــ ‘ ‘ کہنے کا حق تو گنے چنے لوگوں کے پاس ہے۔جن میں سعود عثمانی بھی شامل ہے ۔ 

اس دن آبائی قصبے میں آبائی مکان دیکھتے ہوئے میں عجیب کیفیات سے گزرا۔مکان اس وقت دو ہندو گھرانوں کے پاس تھا۔ ایک حصہ پرانی تعمیر کے مطابق تھا جس میں میرے والدین کا کمرہ بھی شامل تھا۔دوسرا حصہ نیا بنایا گیا تھا اور میری خوش قسمتی کہ پرانے ملبے میں سے وہ چوکھٹ نکل آئی جس کا ذکر میں نے کئی بار اپنے والد زکی کیفی صاحب سے سنا تھا۔ اس چوکھٹ کی اندرونی طرف انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کا نام محمد رفیع (مفتیٔ اعظم پاکستان مولانا محمد رفیع عثمانی)چاقو سے لکھا تھا۔ میں نے اجازت لے کر اس چوکھٹ کا وہ حصہ کٹوایا اور واپس پاکستان آکر اپنے عم ّ  ِمکرم کی خدمت میں یہ تحفہ پیش کردیا۔

آبائی وطن میں آبائی گھر کو دیکھنا ایک عجیب اور منفرد تجربہ تھا ۔ اس گھر کو دیکھنا جس میں کبھی ایک دن ایک رات بھی میں نے نہیں گزاری تھی لیکن جس کے درودیوار سے میں مانوس تھا اور وہ مجھ سے محبت کرتے تھے۔یہ گھر میرے داد ا نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے قطرہ قطرہ ، ریزہ ریزہ جوڑ کر تعمیر کیا تھا۔اس کی پیشانی پر ان کا شعر لکھا تھا جو انہی کی آواز میںکانوں میں گونج رہا تھا۔

’’دنیا کا کچھ قیام نہ سمجھو، کرو خیال

اس گھر میں تم سے پہلے بھی کوئی مقیم تھا‘‘ 

شعر ہی نہیں دادا کا یہ جملہ بھی میرے اندر گونج رہا تھا۔

 ’ ’ جب میں نے گھر سے قدم نکالا تو گھر میرے دل سے نکل گیا ـــ ‘ ‘ ۔یہ حوصلہ ، ایک مقصد کے لیے یہ استقامت اور یہ بے نفسی ۔ اللہ اللہ ۔ ہیں ایسی کوئی مثالیں؟

 ّہندوستان کے ہر سفر کے بعد بلکہ ہر غیر ملکی سفر کے بعدان تمام لوگوں کی جد و جہد کی قدر اور بڑھ گئی ۔اس سفر کی مشکلات کا اندازہ زیادہ اور بہتر طور پر ہوا۔اس قربانی کی اہمیت کے سامنے سر اور جھک گیااور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے ایک نعمت ہونے کا احساس کئی گنا بڑھ گیا ۔میں نے اس دن اور اس رات کی کیفیات ایک غزل ِ مسلسل میں ضم کردیںکہ دراصل یہ ایک ہی چشمے سے پھوٹتی تھیں۔آج چودہ اگست کے موقع پر اس سے بہتر کوئی چیز میرے پاس نہیں ہے سو یہی آپ کی نذر کرتا ہوں۔

٭٭٭٭٭

ہچکیوں نے کسی دیوار میں در رکھا تھا

میرے آباء نے جب اِس خاک پہ سر رکھا تھا

گھر سے نکلے تھے تو اِک دشتِ فنا کی صورت

راہ میں صرف سفر،  صرف سفر رکھا تھا

دل تھے متروکہ مکانات کی صورت خالی

اور اسباب میں بچھڑا ہوا گھر رکھا تھا

جسم اجداد کی قبروں سے نکلتے ہی نہ تھے

نسل در نسل اِسی خاک میں زر رکھا تھا

روح پر نقش تھے وہ نقش ابھی تک ،جن میں

رنگ بچپن کی کسی یاد نے بھر رکھا تھا

دل میں سر سبز تھے اُس پیڑ کے پتّے جس پر

دستِ قدرت نے ابھی پہلا ثمر رکھا تھا

کٹتے دیکھے تھے وہ برگد بھی ،جنہوں نے خود کو

مدتوں دھوپ کی بستی میں شجر رکھا تھا

جلتے دیکھے تھے وہ خود سوز محلّے جن میں

جانے کب سے کوئی خوابیدہ شرر رکھا تھا

چوڑیاں ٹوٹ کے بکھری تھیں ہر اک آنگن میں

اک کنواں تھا کہ تمنّاؤں سے بھر رکھا تھا

راہ تھی سُرخ گلابوں کے لہو سے روشن

پاؤں رکھا نہیں جاتا تھا، مگر رکھا تھا

قافلے ایک ہی سرحد کی طرف جاتے تھے

خواب کے پار کوئی خواب ِدگر رکھا تھا

تیرگی چیر کے آتے ہوئے رستوں کے لئے

ایک مہتاب  سرِ راہ گزر  رکھا تھا

اک حسیں چاند تھا اک سبز زمیں پر روشن

اک ستارے کو بھی آغوش میں بھر رکھا تھا

یوں تو اظہار میں حائل تھیں فصیلیں لیکن

رکھنے والے نے خموشی میں اثر رکھا تھا

لب تک آتے ہی نہ تھے حرف مناجاتوں کے

ہچکیوں نے کسی دیوار میں در رکھا تھا

چشمِ بینا میں وہ منظر ابھی تازہ ہے سعودؔ

میرے آباء نے جب اس خاک پہ سر رکھا تھا