میر صاحب کہہ گئے ہیں۔ دنیا کی، نہ کر تْو خواستگاری اِس سے، کبھو بہرہ ور نہ ہو گا آ، خانہ خرابی اپنی، مت کر قحبہ ہے یہ، اس سے گھر نہ ہو گا لیکن دنیا میں رِہ کر، دنیوی آلائشوں سے دْور رہنا، کام ہے صرف ولیوں اور درویش صفتوں کا! دعوے، خواہ جتنے اور جیسے کیے جائیں، تعبیر، اکثر اْلٹی نکلتی ہے۔ مسافر، محاور ہی سہی، سات سمندر پار سے چلا تھا۔ زبان پر نعرہ یہ تھا کہ سب سے پہلے میرا وطن! لیکن حقیقت کیا یہی ہے؟ چارہ کار صرف دو تھے۔ ایک وطن واپسی، اور دوسری، مستقل مہاجرت۔ ترک ِوطن میں، دو مشکلیں درپیش تھیں۔ پہلی یہ کہ ہر وقت کے تام جھام اور آئو بھگت نے عادتیں، سدا سے بگاڑ رکھی تھیں۔ مہاجرت میں، یہ عیش کوشیاں، خواب و خیال ہو کر رہتیں۔ مگر جسے یہ چاٹ، ایک دفعہ لگ جائے، انسانی جْون میں اس کی واپسی، تقریبا محال ہے! دوسری مشکل، جس کا پہلے اندازہ نہیں تھا، تارکین ِوطن کا رد ِعمل تھی۔ ممکن ہے کہ ان میںسے بیشتر، کسی غرض کے مارے رہے ہوں۔ لیکن غیرت اور حمیت پر تازیانے لگانے کو، مجمع ضروری نہیں، صرف ایک آدھ گالی بھی کافی ہوا کرتی ہے۔ خصوصا، جس کے کان خوشامدی اور ملائم کلمے سننے کے، عادی ہو چکے ہوں۔ منہ در منہ، مغلظات کیسے ہضم کر جائے؟ غریب الوطنی اور اس پر بیسیوں ہم وطنوں اور ہم زبانوں کی ایسی طعن و تشنیع، جو گھر سے نکلنا دْشوار کر دے۔ ایسے میں، رخت ِسفر باندھ، واپسی کے سوا چارہ ہی کیا تھا؟ یہ واپسی اگر "جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا۔ الخ" کی صورت کرنا تھی، تو چند روز پہلے ہی کیوں نہ آ گئے؟ اپنی دنیا میں، ہر لیڈر، خود کو طیب اردوان سمجھتا رہے۔ حقیقت، بڑی تلخ، اور خود پسندوں کے لیے آئینہ شکن ثابت ہوتی ہے! اور کبھی نہ کبھی ع چہرہ، ٹْوٹا ہوا آئینہ نظر آنے لگا کی شکل دکھا کر رہتی ہے! ہو سکتا ہے کہ واپسی اس یقین کے ساتھ ہوئی ہو کہ اصل فیصلہ سازوں کے لیے، ایک بلائے بے درماں بن جائیں گے اور جھاڑ کی طرح ایسے لپٹیں گے کہ خلاصی نہ ہو۔ مگر ان تلوں سے تیل، خود برادر ِخورد نے نکال دیا! غضب خدا کا، طویل ترین اقتدار، اور دس ہزار "سرفروش" نہ پیدا کیے جا سکے؟ خود آنے والے کی شان، دیکھنے دکھانے کی چیز تھی! حالانکہ یہی آمد، اگر بغیر لائو لشکر کے اور سادگی کے ساتھ ہوئی ہوتی، تو ممکن ہے کہ اثر براہ ِراست، لوگوں کے دلوں پر ڈالتی۔ لیکن کھرے اور کھوٹے کا پردہ، ایسے ہی مواقع، چاک کر دیتے ہیں! کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ "یہ خود آے نہیں، لائے گئے ہیں"۔ اور لانے والے ان کے ساتھ، خدا نہ کرے، برے دن بھی لانا چاہتے ہیں۔ ورنہ آنے والا، پوری طرح آتا۔ زبان ِحال سے یہ نہ کہتا کہ گر جان طلبی، مضائقہ نیست زر می طلبی، سخن درین است! بہرحال، انصاف یہ ہے کہ انصاف کے تقاضے، پورے ہوتے ہوے، نظر بھی آئیں۔ اگر یہ صادق اور امین نہیں ہیں، تو ان جیسے دوسروں کا صدق اور امانت بھی کھْل چکا ہے ! سو ع کچھ علاج اس کا بھی، اے چارہ گراں! ہے کہ نہیں؟ ٭٭٭٭٭ لکھنؤ اور لکھنؤیت سرزمین ِاودھ، کبھی تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھی۔ شرفاء کا تو ذکر ہی کیا، یہاں کے اراذل بھی، کمال کے بانکے، طرح دار اور نْکیلے تھے! جوش صاحب نے کہیں لکھا ہے کہ یہاں کی پردہ دار خواتین کی، آوازیں اور وزن بھی پردہ نشین تھے! وزن سے ان کی مراد، یہ تھی کہ نالکی اور ہوا دار کا تو سوال ہی کیا، پالکی میں بٹھانے سے پہلے بھی، پوری گلی بند کرا کے، پردے تان دیے جاتے تھے۔ اور پھر، پہلے، پالکی میں بھاری پتھر رکھ دیے جاتے کہ اصل وزن بھی مستور رہے! دانا حکیموں اور حاذق طبیبوں کے سامنے بھی، سب سے بدنام طبقے کی طرف سے، اپنی کیفیت "اس ماہ نماز قضا نہیں ہوئی" کے پردے میں، بیان کی جاتی تھی! ابو الحسن صاحب نغمی، اصلا، اسی سرزمین ِلکھنئو کے رہنے والے ہیں۔ مجھ پر ان کی عنایتوں کا سلسلہ، خدا کرے کہ اسی طرح قائم رہے! نغمی صاحب کی عْمر اور خصوصا جوانی کا بڑا حصہ، لاہور میں گزرا ہے۔ چنانچہ، ان کی زبان پر سب سے زیادہ ذکر، لاہور اور اہل ِلاہور کا رہتا ہے۔ یہ بتاتے ہیں کہ ان کے اولین استاد، نواب جعفر علی خاں اثر تھے۔ لیکن سب سے زیادہ سیکھنے کا موقع ملا، مولانا حامد علی خاں سے! یہ مولانا ظفر علی خاں کے، مختلف البطن بھائی تھے۔ اور سچ یہ ہے کہ بہت ہی نفیس اور محبتی آدمی تھے۔ مجھ سے نغمی صاحب نے، ایک مضمون کا تقاضا کیا ہے، جس کا عنوان، انہی کا تجویز کردہ ہے "لاہور کے خاصان ِادب"۔ خیر، یہ مضمون پھر سہی، آج چند باتیں جعفر علی خاں اثر مرحوم کے بارے میں! اثر صاحب لکھنئو کے محلے، کٹرہ ابو تْراب کے رہنے والے تھے۔ اس محلے کی شان یہ تھی کہ شاہان ِاودھ کو بھی، جب زبان کا مسئلہ درپیش ہوتا تو گتھی سلجھانے کے لیے، "ثقات ِکٹرہ" سے رجوع کیا جاتا۔ اثر صاحب نے خود بھی کہا ہے کہ ع ثقات ِکٹرہ کہہ کر، لوگ ہم کو یاد کرتے تھے اثر صاحب اتنے بے تعصب اور منصف مزاج آدمی تھے کہ علامہ اقبال کی شاعری، اور خصوصا زبان پر، جب یوپی والے معترض ہوتے، تو ان کا دفاع، لکھنئو کا یہ مسلم الثبوت استاد کیا کرتا۔ اثر صاحب کا کہنا تھا کہ اقبال، اردو نظم کے، سب سے بڑے شاعر ہیں! ان کی یہ رائے، اس وقت سے قائم تھی، جب علامہ سے، ملاقات تو کجا، مراسلت تک نہ تھی! ایک روز اقبال کا یہ مصرع قمر اپنے لباس ِنو میں، بے گانہ سا لگتا تھا پڑھ کر کہنے لگے کہ مصرع زیادہ چست نہیں اور اس میں بڑا تکلف ہے۔ اس پر نغمی صاحب نے پوچھا کہ اگر آپ کہتے تو کیسے کہتے؟ اثر صاحب نے، ذرا تامل کے بعد کہا کہ بھائی، کسی سے کہیے گا نہیں! (اس "کہیے گا نہیں" میںبھی کمال وضع داری اور شرافت پہناں ہیں!) پھر مصرع یوں پڑھا قمر اپنے لباس ِنو میں تھا اک نقش ِحیرانی سچ ہے کہ دو تین لفظوں کے بدلنے سے، آسمانی مضمون کو، لباس بھی سماوی پہنا دیا گیا! اثر صاحب میر کے تو عاشق تھے۔ غزل کے میدان میں، بجا طور پر، ان کے مقابل، کسی کو گردانتے نہ تھے۔ ایک دن نغمی صاحب سے کہنے لگے کہ آج صبح میں جاگا تو میر کا ایک شعر سامعہ میں حشر اٹھائے ہوئے تھا۔ وارفتگی مجھے، میر کے کلیات تک لے گئی۔ میں نے سارا کلیات چھان مارا، لیکن وہ شعر نہ ملا۔ دیر تک سوچتا رہا۔ پھر یاد آیا کہ یہ شعر تو میرا اپنا ہے! سچ ہے کہ اثر انگیزی ہو تو ایسی اور اثر پذیری ہو تو ایسی! اردو کے ایک اَور، نہایت مقبول شاعر کو، سخت نامعقول قرار دیتے تھے۔ کہتے تھے کہ اس شخص کی بے شرمی دیکھیے کہ کوتوال ِشہر، جوتے مارتا ہوا، بھرے بازار سے ہانک کر لے جاتا ہے، اور یہ غیرت سے مرتے نہیں! یہ تھے ہمارے نغمی صاحب کے استاد، اور اردو میں استناد کا درجہ رکھنے والے، نواب جعفر علی خاں اثر! اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اردو بولنے والوں نے انہیں بھلا دیا۔ بقول ِ حضرت نیاز بریلوی طمع ِفاتحہ، از خلق، نداریم، نیاز عشق ِمن، از پس ِمن، فاتحہ خوانم، باقیست