یہ 19 اگست تھی، وہی 19 اگست جو افغانستان کا یوم آزادی ہے۔ مگر 2019ء کی یہ 19 اگست کچھ خاص تھی۔ آج افغانستان کی آزادی کو سو سال پورے ہوئے تھے۔ کابل میں سویں یوم آزادی کی تقریبات منائی جارہی تھیں۔ جبکہ دوحہ میں مذاکرات کا وہ نواں دور شروع ہونے کی تیاری تھی جس میں امریکہ سے افغانستان پر امریکی قبضہ چھوڑانے کے امور طے ہو رہے ہیں۔ یہ سوال نظرانداز تو نہیں کیا جاسکتا کہ اگر افغانستان آزاد تھا تو پھر طالبان اور امریکہ دوحہ میں کیا طے کر رہے ہیں ؟ طالبان کے لئے اس 19 اگست کی شاید یہی اہمیت رہی ہو کہ سو سال قبل اسی دن اس دور کی سپر طاقت برطانیہ نے شکست تسلیم کی تھی۔ یہ شاید محض حسن اتفاق نہ ہو کہ مجھے اسی دن آزادی کے متوالوں کی قیادت کرنے والوں سے ملنے کا موقع مل رہا تھا۔ وہی آزادی جس کے لئے کشمیری قوم اپنی بے مثال جد و جہد سے نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ وہی آزادی جس کے لئے نہرو اور گاندھی جد و جہد کریں تو "حریت فکر کے مجاہد" اور سید علی گیلانی اور میر واعظ کریں تو جرم۔ وہی آزادی جس کے لئے چی گویرا اور فیدل کاسترو ہتھیار اٹھائیں تو ہیرو اور یہی راہ ملا عمر اور اس کے رضاکار چن لیں تو دہشت گرد۔ مانا کہ اس ماڈرن ورلڈ میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کو قانون کا درجہ حاصل ہے، اور اس ماڈرن ورلڈ کی ہر بھینس امریکہ کی ملکیت تصور ہوتی ہے کہ لاٹھی جو اس کی ہے۔ مگر اکیسویں صدی کی تاریخ کے سرنامے سے یہ باب اب کون کھرچ سکتا ہے کہ امریکہ کی یہ لاٹھی طالبان نے افغانستان میں توڑ کر اس کے ہاتھ پر رکھدی ہے۔ اور نتیجہ یہ ہے کہ جس صدی کو 25 برس قبل امریکی صدر نے "امریکہ کی صدی" قرار دیا تھا اس صدی کے ابتدائی بیس برسوں کی تکمیل پر علاقائی طاقتیں قوت اختیار کرتی جارہی ہیں۔ طالبان نے شاید اسے "ایشیا کی صدی" بنانے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ افغان گروپوں کا ماسکو میں استقبال یہی اشارہ دیتا ہے۔ طالبان کا چین اور روس سے پر اعتماد تعلقات آگے بڑھانا محض افغان امن کے لئے نہیں، یہ اس سے کچھ آگے کا معاملہ ہے۔ وہی طالبان جن کے ایک بڑے خانہ بدوش سے ملنے کو میں ایک کچے مکان کی دہلیز پار کرچکا تھا۔ میرے میزبان نے پرتپاک استقبال کیا اور اپنے ہاتھ سے گرم قہوہ پیش کیا۔ 23 برس قبل اسامہ بن لادن سے ہونے والی ملاقات کے دوران ان کے مہمان خانے میں خدمت پر کئی لوگ مامور تھے۔ اور وہ عاجزانہ مگر قائدانہ شان کے ساتھ بیٹھے رہے تھے۔ آج کا یہ میزبان عجیب سا تھا۔ اس کے ساتھ کمرے میں بس ایک ہی شخص اور تھا اور وہ بھی کچھ تنظیمی ذمہ داریوں میں مشغول تھا۔ قہوہ ہمارے میزبان نے خودپیش کیا۔ پھر اس نے کچھ لمحوں کی مہلت مانگی اور پلاس پیچ کس سے ایک آلے کا ناتمام کام تمام کرنے لگا۔ اس کی سادگی دیکھ کر پتا نہیں کیوں اقبال کا مصرعہ یاد آگیا۔ عجیب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم۔ یہ منظر اسی داستان حرم کا ایک عکس تھا۔ پلک جھپکتے میں سمجھ آگیا تھا کہ اقبال افغان ملا سے اس قدر متاثر کیوں تھے ؟ کوئی اقبال کو خبر کرے کہ اس کا افغانی ملا اکیسویں صدی کے انیسویں برس بھی ویسے کا ویسا ہی ہے جیسا وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ کوئی کروفر نہیں، کوئی قائدانہ ٹھاٹ نہیں، اور کوئی ہٹو بچو کی آواز نہیں۔ کاش کیمرہ ممنوع نہ ہوتا اور میں اس منظر کو محفوظ کرپاتا۔ میں نے پیچ کستے میزبان کی بٹی ہوئی توجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گپ شپ کا آغاز کیا، اور اچانک پوچھ لیا "آزادی کے بعد کیا ذمہ داریاں انجام دینے کا اردہ ہے ؟" نظریں آلے سے ہٹا کر میری نظروں میں گاڑتے ہوئے بولے "تدریس ! میں تدریس کی طرف واپس جانے کا ارادہ رکھتا ہوں، وہی میرا اصل کام ہے۔ میں اب بھی چلتے پھرتے چار کتابیں پڑھا رہا ہوں" وہ توقع کر رہے تھے کہ میرا اگلا سوال ان کتابوں کے نام جاننے کے حوالے سے ہوگا، مگر میں کسی مدرسے میں تو نہیں آیا تھا کہ کتابوں کے نام جاننے میں دلچسپی ظاہر کرتا، ہر منٹ قیمتی تھا اور مجھے کا اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا تھا، سو میں نے پوچھا "اگر دوحہ معاہدے پر دستخط ہوگئے تو کیا آپ کو امریکہ پر اعتماد ہے کہ وہ اس کی پاسداری کرے گا ؟" میرے میزبان کی آنکھیں اچانک خلا میں تکنے لگیں اور جب وہ وہاں سے لوٹ کر میری جانب مڑیں تو بلا کی سنجیدگی ان میں تیر رہی تھی۔ وہ بولے تو ان کی آواز کسی بلندی سے آتی محسوس ہوئی "مسئلہ امریکہ نہیں ہے۔ امریکہ سے ہم نمٹ چکے۔ مسئلہ ہندوستان ہے" میں چونک اٹھا "وہ کیسے ؟" امریکہ سے ہم معاہدے میں بندھنے جا رہے ہیں، وہ جتنا بھی متکبر ہو مگر عالمی طاقتیں معاہدوں کا پاس رکھتی ہیں، اس سے ان کا وقار جڑا ہوتا ہے۔ معاہدے کے بعد افغانستان میں جو حرکتیں امریکہ نہیں کرسکے گا، وہ ممکنہ طور پر ہندوستان کرسکتا ہے" میں نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا"کیسی حرکتیں ؟" اب آلے کے پیچ کسے جاچکے تھے۔ میرے میزبان نے اطمینان حاصل کرنے کے لئے اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا"وہ یہاں پراکسیز استعمال کرسکتا ہے" "کیا آپ کا اشارہ شمال والوں کی جانب ہے ؟" اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولے "ہاں ! مگر یہ صرف امکان کی حد تک ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ امکان حقیقت بھی بن جائے، میں صرف ایک امکان کی طرف اشارہ کر رہا ہوں" شاید میری آنکھوں میں تیرتی الجھن کو بھانپ گئے، سو بات کو مزید واضح کرتے ہوئے گویا ہوئے "یہ تو طے ہے کہ بھارت پراکسیز استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا، مگر یہ صرف امکان کے درجے میں ہے کہ شمال سے کوئی اس کی پراکسی بننے پر آمادہ ہو" "صرف امکان کیوں ؟ وہ تو طالبان سے طویل خونریز جنگ لڑ چکے ہیں ؟" میرا یہ سوال سن کر اچانک ان کی آنکھوں میں ایک اداس لہر آئی اور گزر گئی۔ وہ بولے تو ان کی آواز کرب میں ڈوبی ہوئی تھی۔"ہم سب چالیس سال سے لڑ رہے ہیں، اور ہم سب ہی تھک چکے ہیں۔ کسی بیرونی جارح سے چالیس مزید سال بھی لڑنے کو تیار ہیں۔ مگر افغان اب افغان سے نہیں لڑنا چاہتا۔ ہم سب امن کے شدت سے متمنی ہیں۔ روز افغانستان میں کم از کم بھی پچاس عورتیں بیوہ ہوتی ہیں۔ یتیموں کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ کسی قوم کے لئے اس سے زیادہ مہلک المیہ اور کیا ہوگا ؟" (جاری ہے)