عظمتوں ، رفعتوں اور روشنیوں سے مزین و آراستہ ۔۔۔ تاریخِ انسانی کا یہ عظیم ترین دن ۔۔۔ جس کے بارے میں حفیظ جالندھری کا پیرایۂ اظہار بر محل محسوس ہوتا ہے۔ خلیل اللہ نے جس کے لیے حق سے دعائیں کیں ذبیح اللہ نے وقتِ ذبح جس کی التجائیں کیں جو بن کر روشنی پھر دیدۂ یعقوب میں آیا جسے یوسف نے اپنے حُسن کے نیرنگ میں پایا وہ عظیم ترین دن ۔۔۔جب صدیوں سے کعبے میں رکھے ہوئے بت ۔۔۔ منہ کے بَل گر پڑے، قیصر و کسریٰ کے محلات لرز گئے، دورِ جاہلیت کے رسومات کے خاتمے کے امکان روشن ہوئے، ظہور قدسی کے نکہت و نور سے کائنات کے گوشے اور قریے جگمگا اُٹھے ۔ بارہ ربیع الاوّل کی وہ خوبصورت، خوش کن اور خوشگوار صبح۔۔۔ جب تاریکی جارہی اور روشنی آ رہی تھی، شب کی سیاہی رخصت ہونے کو ۔۔۔ اور دن کا اُجالا اپنی کرنیں بکھیرنے کو تھا، دو شنبہ، پیر، بارہ ربیع الاوّل ، عام الفیل یعنی ابرہہ کے واقعہ کے پچاس دن بعد، حضرت عبدالمطلب کی جواں سال بیوہ بہو کے اُداس۔۔۔ مگر پُرنور گھر میں۔۔۔ ازلی سعادتوں اور ابدی مسرتوں کا نور چمکا۔سیرت نگار لکھتے ہیں کہ حضرت عبدالمطلب جو کہ علی الصبح ، بعد از طواف صحنِ کعبہ۔۔۔ اور پھر حطیم جو کہ کعبہ ہی کا حصّہ تھا، میں اپنے خاندان کے مردوں اور جلیل القدر فرزندوں کے ساتھ تشریف فرما تھے، تو ، ولادتِ باسعادت کی خوشخبری موصول ہوئی۔ بقول حفیظ جالندھری: طوافِ کعبہ کرنا صبح کا معمول تھا اُن کا دُعا بن کر ہوا کرتا تھا ظاہر مدعا اُن کا دعا یہ تھی الہٰی نعمتِ موعود مل جائے بنو ہاشم کا مرجھایا ہوا گلزار کھل جائے دادا کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، پوتے کو بانہوں میں لیا اور کعبہ شریف میں وہاں آکر کھڑے ہوگئے، جہاں اللہ رب العزت سے، اس عطائیگی کی دعا کیا کرتے تھے، اور برجستہ یہ شعر کہے: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَعْطَانِیْ ھٰذَا الْغُلَامَ الطَّیِّبَ الاَرْدَانِ "سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے جس نے مجھے پاک آستینوں والا بچہ عطا فرمایا"۔ قَدْ سَادَ فِی الْمَھْدِ عَلَی الْغِلْمَانِ اُعِیْذُہ‘ بِالْبَیْتِ ذِی الْاَرْکَانِ "یہ اپنے پنگھوڑے میں سارے بچوں کا سردار ہے۔ میں اسے بیت اللہ شریف کی پناہ میں دیتا ہوں" حَتّٰی اَرَاہُ بَالِغَ الْبُنْیَانِ اُعِیْذُہ‘ مِنْ شَرِّ ذِیْ شَنْاٰنِ مِنْ حَاسِدٍ مُضْطَرِبِ الْعَیَانِ "یہاں تک کہ میں اس کو طاقتور اور توانا دیکھوں۔ میں اس کو ہر دشمن اور ہر حاسد، آنکھوں کے گھمانے والے کے شر سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں"۔ رواں سال کے ان ایام میں ہمیں یہ خوش کن، خوشگوار اور حسین اتفاق بھی میسر آیا ہے کہ شمسی ، قمری اور بکرمی سالوں کی بہت سی نسبتیں یکجا ہو کر عطا ہوئیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ "میلاد النبیؐ"کے جِلومیں 9نومبر۔ اُس عاشق رسولؐ کا یومِ ولادت ہے جو ساری زندگی نبی اکرمﷺ کی محبت کے گیت گاتا ہے۔ جس نے اس حقیقت کو دنیا کے سامنے عیاں کر دیا کہ : گردِ تو گردد حریمِ کائنات/از تو خواہم یک نگاہِ التفات/ذکر و فکر و علم و عرفانم تُوئی/کشتی و دریا و طوفانم توئی/اے پناہِ من حریم کوئے تو/من بامیدے رمیدم سوئے تو (یارسول اللہ ﷺ) ساری کائنات آپ کے حریم ناز کا طواف کرتی ہے اور میں آپ کی ایک نگاہِ کرم کا بھکاری ہوں۔ میرا ذکر وفکر علم وعرفان سب کچھ آپ ہیں ۔میری کشتی بھی آپ ہیں ، دریار بھی اور طوفان بھی آپ ہیں ۔(یارسو ل اللہ ﷺ) آپ کے کوچے کا حریمِ پاک ہی میری پناہ گاہ ہے ، اور میں اسی پناہ کی امید میں آپ کی طرف دوڑتا چلا آرہا ہوں ۔ اقبال کا یہ کہنا تواپنی جگہ یقینا بجا ہے کہ ـ : دہر میں اسم ’’محمد‘‘ سے اُجالا کردے لیکن حیرت تو یہ ہے کہ بابا گورونانک۔جن کے 550 ویں جنم دن کی تقریبات اس وقت بھی رُوبہ عمل ہیں،نے اپنے ایک شعر کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیاتھا کہ ہر لفظ کے حروفِ ابجد میں اسم ’’محمد‘‘تک رسائی اوراُن کے اخذِ فیض کا فارمولا موجود ہے۔ لو نام چراچر کا چوگنا کردتا دو ملا کر پانچ گن کاٹو بیس بنا جو باقی رہے سو نو گن دو نو ہور ملا نانک اس بدہر کے نام محمدﷺ بنا یعنی کائنات کا جو بھی نام ہو ، اس کے حروف کی تعداد کو چار سے ضرب دیں، پھر اس میں دو جمع کریں اور پھر پانچ سے ضرب دیکر ، اس کو بیس پر تقسیم کریں، جو باقی بچے اسے نو سے ضرب دیکر، اس میں دو جمع کردیں جو عدد نکلے گا وہ "92" ہوگا۔ اس خطّہ پاک کی خوش بختی کہ اس کو تو کنٹری کوڈ بھی "92"میسر آیا، کہ دنیا بھر میں آپ کہیں بھی ہوں، اس وقت تک آپ کا پاکستان سے رابطہ ممکن ہی نہیں ، جب تک آپ "92"ڈائیل نہ کریں، اقبال نے یہی تو کہا تھا: خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے اقبال نے 1929،1930اور 1931میں "تحریک یوم النبی ﷺ"کے نام سے ایک باقاعدہ تحریک کا آغاز کیا تھا اور قوم کے مشاہیر کے نام ایک مراسلہ تحریر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:"حضرت محمد ﷺ کی تعلیم وتربیت کا آفتاب ساڑھے تیرہ سو سال گزرنے پر بھی نصف النہار پر ہے اور انشاء اللہ تا قیامت زوال پذیر نہ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ: من جملہ ان ایام کے جو مسلمانوں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں، ایک میلاد النبی ﷺ کا مبارک دن بھی ہے۔ میرے نزدیک انسانوں کی دماغی اور قلبی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ان کے عقیدے کی رُو سے زندگی کا جو نمونہ بہترین ہو وہ ہر وقت ان کے سامنے رہے، چنانچہ مسلمانوں کے لیے اسی وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اسوۂ رسول کو مدنظر رکھیں تاکہ جذبۂ عمل قائم رہے۔ ان جذبات کو قائم رکھنے کے تین طریقے ہیں: پہلا طریق تو درود و صلوٰۃ ہے، جو مسلمانوں کو زندگی کا جزو لاینفک بن چکا ہے۔ وہ ہر وقت درود پڑھنے کا موقعہ نکالتے رہتے ہیں ۔ عرب کے متعلق میں نے سنا ہے کہ اگر کہیں بازار میںدو آدمی لڑ پڑیں تو تیسرا بہ آواز بلند اللہم صلی علی سیدنا محمد وبارک وسلم پڑھ دیتا ہے تو لڑائی فوراً رک جاتی ہے ۔ پہلا طریق انفرادی جبکہ دوسرا اجتماعی یعنی مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوں اور ایک شخص جو آقائے دو جہاں کے سوانح سے اچھی طرح باخبر ہو، آپؐ کے سوانح زندگی بیان کرے تاکہ ان کی تقلید کا ذوق شوق لوگوں میں پیدا ہو۔ اس طریق پر عمل پیرا ہونے کے لیے آج ہم سب یہاں جمع ہیں۔ تیسرا طریق اگرچہ مشکل ہے مگر اس کا بیان نہایت ضروری ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ یاد رسولؐ اس کثرت سے اور اس انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب نبوت کے مختلف پہلوؤں کا خود مظہر بن جائے ، یعنی آج سے تیرہ سو سال پہلے جو کیفیت حضور سرور عالم ﷺ کے وجود مقدس سے ہویدا ہوئی تھی وہ آج تمہارے قلوب کے اندر پیدا ہوجائے۔ مولانا روم فرماتے ہیں: آدمی دید است باقی پوست است دید آں باشد کہ دید دوست است