وزیر اعلیٰ پنجاب نے ،میلادُ النبی ؐ کی تقریبات کے شایانِ شان اہتمام کو یقینی بنانے کے لیے، پنجاب بھر کے تمام کمشنرز ، ڈپٹی کمشنرز سمیت اعلیٰ انتظامی افسران کو خصوصی ہدایات جاری کی ہیں، جس میں اس بابرکت یوم کی مناسبت سے صوبہ بھر میں، ہر تحصیل اور ضلع کی سطح پر سیرتُ النّبی ؐ کانفرنسز کا انعقاد بطور خاص شامل ہے۔ جو رواں ہفتے میں عروج پر ہوں گی ۔میرے خیال میں اس ماہِ مبارک اور پھر بطورِ خاص اس بابرکت یوم کو "Celebrate"کرنے کا سب سے عمدہ اور احسن طریقہ بھی یہی ہے کہ نبی اکرم ؐ کے خصائل، شمائل اور فضائل اس انداز میں بیان ہوں، جس سے آپ ؐ کی محبت کا نور ہمارے سینے میں فروزاں ہو جائے۔ آپ ؐ کی واقعاتی سیرت اور تعلیماتی اُسوہ کے ساتھ، آپ ؐ کے فضائل۔یعنی پیغمبرانہ روحانی امتیازات اور معجزات و کمالات، جن کا آپ ؐ کی ذاتِ اقدس سے مختلف واقعات کے ذریعے ظہور ہوا، کا ذکر ایسے دلنشین پیرائے میں ہو ، جس سے حضور ؐ کی عظمت و محبت و تکریم کا نقش انسان کے قلب و نظر میں اَور زیادہ گہرا ہوجائے۔ اسی طرح حضور ؐ کے شمائل جو کہ آپ ؐ کے ظاہری حُسن سے متعلق ہیں، کا بیان کیا جائے،جس کا بنیادی مقصد حضور ؐ سے محبت کے والہانہ جذبات کا،اہلِ ایمان کے دلوں میں رسوخ ہے،حُسن کی طرف کھینچا،انسان کی فطرت ہے۔آپ ؐ کے حُسنِ دلپذیر کا تذکرہ،انسان کے دل میں محبتِ رسول ؐ کے پاکیزہ جذبات کے فروغ کا باعث ہوگا۔اسی طرح آپ ؐ کے خصائل،یعنی آپ ؐ کے عادات و اطوار اور افعال و اعمال کا بیان،گویا یہ پہلو آپ ؐ کی شخصیت مبارکہ کے حُسنِ باطن کا آئینہ دار ہے،اور اس سے اُسوۂ حسنہ کے مطالعہ کا اس انداز میں موقع میسر آتا ہے،جس سے انسان اپنے عمل کی اصلاح اور اخلاق کی تطہیر کا سامان کر سکے۔آپ ؐ کے تذکرے کے’’تعلیماتی پہلو‘‘،جسکا تعلق حضور ؐ کی عملی زندگی سے ہے،کے تذکرے سے اُمّتِ مُسلمہ کی تعلیم و تربیت کا سامان فراہم ہوگا،اُسوہ رسول ؐ اور سیرت النبی ؐ کا بیان عملی زندگی کو انہی خطوط پر استوار کرنے کا جذبہ عطا کریگا،اسکے ساتھ آپکی ذات کے جمالیاتی پہلو، جنکا تعلق آپ ؐ کے حُسنِ ظاہر اور روحانی کمالات و محاسن سے ہے، کے تذکرے سے آپ ؐ کے ساتھ قلبی لگاؤ اور محبت و ادب پیدا ہوگا۔حضرت اقبالؒ نے بھی آج سے تقریباً سوسال قبل،جون 1931ء میں’’تحریک یومُ النّبی ؐ‘‘کے آغازو افتتاح کا اعلان کرتے ہوئے،مسلم زُعما اور ملّت کے اکابرین سے اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ :’’حضرت محمد ؐ کی تعلیم وتربیت اور آپ ؐ سے عشق و محبت کا آفتاب ، ساڑھے تیرہ سو سال گزرنے پر بھی نصف النہار پر ہے، اور انشاء اللہ تاقیامت زوال پذیر نہ ہوگا،ہمارے سلف صالحین نے تبلیغِ اسلام میں اپنا خون پسینہ ایک کر دیا تھا اور ہر زمانہ کے ذرائع کو حدِ شریعت کے اندر رہ کر استعمال کیا۔آؤ ہم سب مل کر موجودہ زمانہ کے موثر اور مفید ذریعہ تبلیغ کو اختیار کریں’’یعنی: دشت میں ، دامنِ کہسار میں ، میدان میں ہے بحر میں ، موج کی آغوش میں ، طوفان میں ہے چین کے شہر مراکش کے بیابان میں ہے اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے رفعتِ شان رفعنالَکَ ذکرک دیکھے علامہ اقبالؒ کو محمد جمیل نامی،انکے ایک دوست کے ذریعہ ، جنوبی ہندوستان میں عید میلادُ النبی ؐ کی تقریبات کے پُرجوش انعقاد کا علم ہوا،تو از حد خوش ہوئے،اپنے دوست کو جواباً مراسلہ تحریر کرتے ہوئے لکھا کہ :’’مجھے اس اطلاع سے بے حد مسرت ہوئی ہے کہ جنوبی ہندوستان میں’’یومُ النبی ؐ ‘‘کی تقریبات کیلیے ایک ولولہ پیدا ہو گیا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں ملّتِ اسلامیہ کی شیرازہ بندی کے لیے رسولِ اکرم ؐ کی ذاتِ اقدس سے محبت،ہماری سب سے مؤثر اور کارگر قوت ہے۔مستقبل قریب میں جو حالات پیدا ہونے جا رہے ہیں،انکے پیشِ نظر مسلمانانِ ہند کی تنظیم اشد لازمی ہے‘‘۔ میلادُ النبی ؐ کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ، ایک مرتبہ حضرت اقبالؒ نے فرمایا تھا:’’من جملہ ان ایام کے جو مسلمانوں کیلئے مخصوص ہیں،ایک اہم ترین میلادُ النبی ؐ کا مبارک دن بھی ہے،میرے نزدیک انسانوں کی دماغی اور قلبی تربیت کیلیے نہایت ضروری ہے کہ انکے عقیدے کی رُو سے زندگی کا جو نمونہ بہترین ہو،وہ ہر وقت ا نکے سامنے رہے،چنانچہ مسلمانوں کیلئے اسی وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اسوۂ رسول ؐ کو مدنظر رکھیں تاکہ جذبۂ عمل قائم رہے۔ان جذبات کو قائم رکھنے کے تین طریقے ہیں: پہلا طریق تو درود وصلوٰۃ ہے،جو مسلمانوں کی زندگی کا جزو لاینفک بن چکا ہے۔وہ ہر وقت درود پڑھنے کا موقعہ نکالتے رہتے ہیں۔عرب کے متعلق میں نے سنا ہے کہ اگر کہیں بازار میں دو آدمی لڑ پڑیں تو تیسرا بہ آواز بلند اللھم صلی علی سیدنا محمد و بارک وسلم پڑھ دیتا ہے،تو لڑائی فوراً رک جاتی ہے۔پہلا طریق انفرادی،دوسرا اجتماعی یعنی مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوں اور ایک شخص جو آقائے دو جہاں ؐکے سوانح سے اچھی طرح باخبر ہو،آپ ؐ کے سوانح مبارک اور سیرتِ طیبہ کا بیان کرے،تاکہ آپ ؐ کی محبت اور تقلید کا ذوق وشوق دلوں میں پیدا ہو۔اس طریق پر عمل پیرا ہونے کیلیے آج ہم سب یہاں جمع ہیں۔تیسرا طریق اگرچہ مشکل ہے مگر اسکا بیان نہایت ضروری ہے،وہ طریقہ یہ ہے کہ یادِ رسول ؐ اس کثرت سے اور اس انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب نبوت کے مختلف پہلوؤں کا خود مظہر بن جائے۔ یعنی آج سے تیرہ سو سال پہلے جو کیفیت حضور سرور عالم ؐ کے وجود مقدس سے ہویدا ہوتی تھی وہ آج تمہارے قلب کے اندر محسوس کی جا سکے’’۔ مولانا رومؒ فرماتے ہیں: آدمی دید است باقی پوست است دید آں باشد کہ دید دوست است اقبالؒ’’اسرار و رموز‘‘میں نبی اکرم ؐ کی ولادتِ باسعادت اور دنیا میں،آپ ؐ کی تشریف آوری کو اس کائنات کا سب سے عظیم واقعہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: اے ظہورِ تو شباب زندگی/جلوہ ات تعبیر خوابِ زندگی/اے زمیں از بارگاہت ارجمند/آسمان از بوسۂ بامت بلند/شش جہت روشن ز تابِ روئے تو/ترک و تاجیک و عرب ہندوئے تو/ از تو بالا پایۂ این کائنات/فقر تو سرمایۂ این کائنات/ در جہاں شمع حیات افروختی/ بندگان را خواجگی آموختی ’’یعنی آپ ؐ کی اس جہان میں تشریف آوری سے زندگی اپنے شباب کو پہنچی۔آپ ؐکا ظہور (میلاد مبارک) خوابِ زندگی کی تعبیر ہے (آپ ؐمقصود کائنات ہیں)۔اس زمین نے آپ ؐ ہی کی بارگاہِ کرم سے شرف و مرتبہ پایا ہے اور آسمان نے آپ ؐ کی بارگاہ کے بام کو بوسہ دے کر ہی بلند رتبہ حاصل کیا ہے۔آپ ؐ کے چہرہ مبارک کے نور سے شش جہات روشن ہیں۔ترک ،تاجیک اور عرب سب آپکے غلام ہیں۔اس کائنات کا مرتبہ آپ ؐہی کی وجہ سے بلند ہوا ہے۔ آپ ؐ کا فقر کائنات کی دولت ہے۔آپ ؐنے جہاں میں زندگی کی شمع روشن کی اور غلاموں کو آقائی سکھائی‘‘۔