محبوب کی مدح سرائی کو ’’غزل‘‘ کہتے ہیں اور غزل کہنا آسان نہیں ہے۔فکر سخن اور چکّی پیسنے کی مشقت میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں۔چنانچہ آمان شاعر نے آٹھ دس اشعار کہنے کے بجائے اپنا کمال یوں دکھایا کہ محبوب کو ہی ’’مجسّم غزل‘‘ قرار دے دیا۔یعنی اپنی ذمہ داری سے بس دو لفظ بول کر سبکدوش ہوئے کہ بھئی میں کیا سنائو‘کہاں تک سنائوں‘ وہ تو خود غزل ہے‘جائو جا کر خود پڑھ لو۔ چلتا پھرتا وجود’’غزل‘‘ ہو سکتا تو کسی صاحب نظم افسر کو ’’مجسّم نظم‘‘ کہنے میں کیا قباحت ہے۔آج کل ٹی وی چینلز پر حکومت کے قصیدہ نگاروں کا راج ہے۔بیشتر کا غصّہ ناک پر دھرا رہتا ہے۔حکومت کے قصیدے بیان کرتے ہیں تو ’’سراپا قصیدہ‘‘ لگتے ہیں۔کوئی بڑھتی مہنگائی اور بدامنی کا شکوہ کرنے کو لب کھولے تو یہ مجسّم قصیدے‘ مجسّم ھجو بننے میں دیر نہیں لگاتے‘غریب شکوہ بہ لب کو جاں بہ لب‘کر کے ہی چھوڑتے ہیں۔ مجسّم غزل ہو سکتا ہے تو مجسّم نغمہ کیوں نہیں۔ھندی ذخیرہ الفاظ میں تو ایک نام ’’راگنی‘‘ بھی ہے۔یعنی سراپا راگ۔دور حاضر میں محترمہ لتا منگیشکر جی کو مجسّم کہا جا سکتا ہے۔ ایک صنف اور بھی ہوتی ہے۔اس کا ذکر یوں مناسب رہے گا کہ کل ہی ایک واقعہ پیش آیا۔ایک صاحب آئے اور کہا کہ باہر چوک پر لوگ جمع تھے‘آٹے، تیل، گھی، بجلی اور پٹرول کو رو رہے تھے اور حکومت پرتنقید کر رہے تھے۔انہیں ٹوکا کہ بھئی ‘یہ تنقید کون سا محاورہ ہے‘تنقید بھیجی نہیں جاتی ‘تنقید کی جاتی ہے ۔بولے ‘بات یہ ہے کہ تین نہ پانچ‘وہ تو بے شمار تنقید کر رہے تھے۔اتنے بے شمار کہ شام تک گنتا رہتا تو بھی نہ گن پاتا۔یوں سمجھ لو۔خاں صاحب کے پروٹوکول میں جتنی گاڑیاں ہوتی ہیں‘ان سے بھی زیادہ تنقید وہ لوگ بھیج رہے تھے۔ ٭٭٭٭ ایک مشکل تر صنف ’’شہر آشوب‘‘ کی ہے۔اب تو کہنے کا راج کم ہو گیا لیکن ماضی کے انبار میں ایسے طومار بہت مل جاتے ہیں جنہیں شہر آشوب کہا جاتا ہے اور فی زمانہ تو حال یہ ہو گیا کہ جسے دیکھو مجسّمِ اور سراپا شہر آشوب ہے۔ کیوں؟۔اسے چھوڑیے۔بات معیشت اور سیاست کی طرف نکل جائے گی۔ ’’محبان وطن‘‘ پڑھ کر تلملائیں گے اور بے شمار تنقید کرنے لگیں گے۔ماضی سے ایک قصّہ سننے‘شہر آشوب ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ قصّہ ایک بہت بڑے بزرگ کی کتاب میں لکھا ہے۔جنہوں نے پڑھا ہے‘جان لیں گے‘جنہوں نے نہیں پڑھا‘اب پڑھ لیں‘نام کسی اور سے پوچھ لیں۔چونکہ اپنی زبانی سنانا ہے‘اس لئے نام نہیں لکھتا کہ تھیم ان کی‘الفاظ میرے ہیں۔ قصّہ سچ ہے یا تمثیل‘اس بحت میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔قصّے کی بنیاد یہ تصور ہے کہ حکومت کے لگائے ہوئے افسروں کے علاوہ ’’ کوتوال‘‘جس کی تقرری کہیں اور سے ہوتی تھی اور اصل میں یہ نظام وہی ہے۔ چلئے ان بزرگ کو ’’قبلہ دھلوی‘‘ کا نام دے دیتے ہیں۔تو ہوا یوں کہ ایک بار دہلی میں دہائی مچ گئی۔چوری‘جیب تراشی‘اٹھائی گیری‘ نوسر بازی‘ چھین جھپٹ کا سونامی آ گیا۔کوئی راہ چلتا جا رہا ہے کہ جیب کترا جیب صاف کر کے اڑنچھو ہو گیا۔کسی نے دیوار ٹاپی اور گھر والوں کا اسباب اڑالے گیا۔مسافر دم لینے کو گھڑی کی گھڑی پیڑ تلے بیٹھا تو کوئی اس کی گٹھڑی جھپٹ لے گیا۔ادھر ڈاکو دندنا رہے ہیں تو ادھر ٹھگوں کی بن آئی ہے۔غرض ایک عجیب کہرام برپا تھا۔بادشاہ قلعے میں مست تھا‘راگ راگنی‘نرت بھائو کی محفلوں سے ہی فرصت نہ تھی۔ قبلہ دہلوی بڑے پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ان کے چار شاگرد خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا‘حضرت‘یہ کیا بلا دہلی پر آ پڑی ہے۔بے نیازی سے فرمایا‘جیسا کوتوال‘ویسا شہر کا حال۔چوکڑی نے پوچھا‘اس کوتوال کا دیدار ہو سکتا ہے۔فرمایا‘ہاں‘فلاں محلّے کے فلاں کوچے میں ایک خربوزہ فروش زمین پر بوریا بچھائے خربوزے بیچتا ہے۔اس سے جا کر ملو اور جیسا میں کہتا ہوں‘ویسا ہی اس سے خربوزے لے کر کھانا۔ چوکڑی پہنچی۔ایک بزرگ مراقبے میں تھے‘سامنے بوریے پر خربوزے کے ڈھیر تھے۔شاگردوں میں سے ایک نے کہا‘چچا میاں‘ایک دھیلے کے خربوزے تو دینا۔بزرگ نے مراقبے سے سر اٹھایا اور چار بڑے بڑے خربوزے آگے رکھ دیے اور چاقو بھی تھما دیا۔ چاروں نے چاروں خربوزے کھا پی کر ایک برابر کئے اور پھر بولے‘چچا میاں تمہارے خربوزے تو پھیکے نکلے۔بزرگ نے شرمسار سا ہو کر چار خربوزے اور رکھ دیے اور کہا‘ان کے بدلے میں یہ کھالو۔ شاگرد سمجھ گئے‘ایسا کوتوال ہے تو حال شہر کا یہی ہو گا۔مراقبے والے بزرگ نے یہ تک پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ پھیکے تھے تو کیوں لیے‘کیوں سارے کے سارے کھا لئے اور پھر شکوہ کیا۔ چوکڑی مرشد کے پاس پہنچی اور سارا قصہ کہہ سنایا۔قبلہ دھلوی نے فرمایا کہ بس‘اب سمجھ گئے کہ شہر پر آفت کیوں آئی۔ کرنا خدا کا‘تھوڑے عرصے کے بعد شہر کا حال ٹھیک ہو گیا۔چوری ٹھگی کی وارداتیں تھم گئیں۔اٹھائی گیرے‘نوسر باز‘ ڈاکو اور وارداتیے جیسے شہر ہی چھوڑ گئے۔چوکڑی پھر مرشد کے پاس پہنچ گئی اور پوچھا‘حضور‘کیا کوتوال بدل گیا۔ (جاری)