میری زندگی کی حسرتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مجھے’’گورنمنٹ کالج‘‘سے اکتسابِ علم کا موقع میسر نہ آسکا،لہٰذا جب کبھی اس کے بورڈ آف سٹڈیز کے اجلاس میں شرکت یا کسی پی ایچ ڈی سکالر کے "Viva Voce" یعنی زبانی امتحان کیلیے جاؤں،تو وہاں کی علم پرور ہوائوں اور فضائوں کو قلب و روح میں اتار نے کی کوشش کرتا ہوں۔ مبادا،اُن محرومیوں کا ازالہ ہوسکے۔ایسا ہی ایک موقع گزشتہ روز میسر آیا،جوکہ ڈین فیکلٹی آ ف لینگوئجز، عریبک اینڈ اسلامک سٹڈیز ڈاکٹر محمد سلطان شاہ اور صدر شعبہ علوم اسلامیہ ڈاکٹرحافظ نعیم کے رہینِ منت تھا ،معمول کی دفتریت اور انتظامی جھمیلوں میں الجھے ہوئے انسان کے لیے اس میں افادیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جامعات اور ایسی دانشگاہوں میں ہونے والے تحقیقی کام کی مختلف جہتوں اور معاصر رحجانات سے آگاہی کا موقع میسر آ جاتا ہے، نیز یہ کہ عربی و علوم اسلامیہ میں تحقیق و تدریس کے فرائض سرانجام دینے والے۔خواہ وہ روایتی دینی تعلیم اور مدارس سے فیض یافتہ ہوں یا جدید عصری تعلیمی اداروں کے پروردہ ۔ اُن سے اختلاط و اشتراک اور تبادلہ خیال،ان کے اسلوبِ بیان اور اندازِ تحقیق کو دیکھنے،جانچنے،جاننے بلکہ اکتساب کا موقعہ میسر آجاتا ہے۔ آج کل عام طور پر یونیورسٹی کی سطح پر اکیڈمک تحقیق جن تین صورتوں میں ظہور پذیر ہو رہی ہے ، ان میں اہم ترین صورت’’پی ایچ ڈی مقالات‘‘ ہیں۔ مجھے پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالات، بطور ایکسٹرنل ایگزامینر دیکھنے، پڑھنے یا قدرے جانچنے کا موقع ملتا ہے، بالعموم یہ مقالات ایک رپورٹ یا تالیف کی صورت میں ترتیب پا رہے ہیں ،جس میں کسی موضوع پر ،آپ نے بھرپور معلومات اورپھر پہلے سے طبع کردہ حقائق و معارف کو اکٹھا کیا، اچھی ایڈیٹنگ ، حُسنِ ترتیب اور کچھ کمی یا اضافے کیساتھ اس مواد کو مرتب و مبسوط فرما کر ایم فل یا پی ایچ ڈی کے مقالے کیلیے پیش کر دیا۔ہم اپنے سابقہ علمی سرمائے یا روایت میں اپنی نئی تحقیق شامل کرنے کی پوری طرح استعداد بھی نہیں رکھتے اورہمارے ماحول میں ان باتوں کے پنپنے کا زیادہ امکان بھی نہیں ہوتا، بہرحال یہ ایک الگ سے موضوع ہے جس پر میرے مشاہدات و تاثرات طالب علمانہ کے علاوہ کچھ انتظامی بھی ہیں ، اس لیے کہ میرے محکمہ میں سرگرمِ عمل انتہائی وقیع اور مؤثر’’مسجد اسٹیبلشمنٹ‘‘جو یقینا دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہے، بہت ذوق و شوق سے ، پرائیویٹ سیکٹر کی جامعات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی ، کے لیے فراواں ہے، جس کا اگرچہ بنیادی سبب علمی یا تحقیقی نہیں بلکہ ایم فل اور پی ایچ ڈی’’الاؤنس‘‘ہے، لیکن یہ امر بہرطور لائقِ اطمینان ہے کہ وہ ’’مین سٹریمنگ‘‘جس کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے ابھی تک کوئی مؤثر پالیسی یا ادارہ ظہور پذیر نہ ہوا، کی بابت ایک قدم یونہی سہی ، بہرحال۔۔۔میں عرض کر رہا تھا کہ زیرِ نظر تحقیقی مقالہ’’برصغیر میں علوم دینیہ کے فروغ میں خانوادۂ عثمانیہ (بدایوں) کی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘جو جی سی یونیورسٹی لاہور میں پی ایچ ڈی علوم اسلامیہ کی ڈگری کیلیے پیش ہوا،کے جائزے کے لیے حاضر ہوا، اَیسے اداروں کی حرمت اور تقدس کا تقاضا تویہی ہے کہ ، آنے والا صدر دروازے سے پیدل آئے ، اور اگر آپ گورنمنٹ کالج کے اس مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہوئے ،’’کلاک ٹاور‘‘کی جانب بڑھیں تو اس کی سطوت اور شکوہ آپ پر ورود بلکہ’’نزولِ اَجلال‘‘کرتی محسوس ہو تی ہے ۔گورنمنٹ کالج کی مرکزی عمارت’’گوتھک اندازِ تعمیر ‘‘کا نمونہ ہے، کشادہ صحن، بلند و بالا چھتیں، کلاک ٹاور کے نیچے واقع ہال فن تعمیر کا شاہکار ہے، وکٹورین طرز کی یہ عمارت گھنے درختوں کے ساتھ آراستہ ہے ۔گورنمنٹ کالج کے دو بڑے ٹاور یا مینار ، دور ہی سے آپ کو کالج کی عمارت کا پتہ دیتے ہیں ۔ بڑے ٹاور کے اوپر نصب’’کلاک‘‘کے سبب یہ کلاک ٹاور کے نام سے منسوب ہے، انگریز دور میں متعدد عمارتوں پر ایسے کلاک نصب ہوئے کہ یہ اس دور کا رواج تھا، اسی کو طالبانِ علم و فن ’’مینارۂ علم‘‘سے بھی تعبیر کرتے ہیں، کہ جیسے جیسے کوئی اس کی طرف بڑھتا ہے ، اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے علم کی عظمتیں اس پہ سایۂ فگن ہونے کو ہیں۔ اَسّی کی دھائی کے آخری سالوں میں ، پنجاب یونیورسٹی ہاکی ٹیم میں مسلسل شامل رہنے اور پھر اس کی کپتانی کا بھی موقعہ میسر آیا ، ہمارے ساتھ کچھ کھلاڑی اولڈ راوین بھی تھے ، جن میں سے چند ایک ہمارے ساتھ، ہاسٹل نمبر16 کے وسنیک بھی ہوئے ، جن میں شیخوپورہ کا خالد ورک، وہاڑی کا زاہد محموداور اوکاڑہ کا بلال شیخ بھی تھا، جو زمانہ طالب علمی میں ہی کاروباری ہو کر، اوائل عمری ہی میں ڈیفنس میں ایک بڑے سٹور کا مالک بن گیا ۔یہ نوجوان عملاً پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس میں منتقل ہونے کے باوجود ،قلبی اور ذہنی طور پر گورنمنٹ کالج سے نہ نکل سکے اور ان کے دل اوول گرائونڈ کے سبزہ زارپہ ہی ڈھڑکتے ، وہ نیو ہاسٹل ہی سے وابستہ رہے ، چنانچہ’’ہمہ یاراں‘‘کے ضمن میں اوول گرائونڈ سے لے کر نیو ہاسٹل کی غیر سرکاری مہمانداری سے ہم بھی لطف اندوز ہونے کے ساتھ ’’اوول گراؤنڈ‘‘میں کبھی کبھار ہاکی کھیلنے کا شغف بھی پورا کرتے رہے ، بیضوی شکل میں آراستہ، اس میدان میں بالخصوص سردیوں کی دوپہر میں، دسمبر و جنوری کی نرم و گداز دھوپ سے لطف اندوز ہونے کا اپنا ہی مزا ہے، یہاں کے ایمفی تھیئٹر کے کمالات ،’’لوگارڈن‘‘کی داستانیں، بخاری آڈیٹوریم کے مباحثے اور تقریری مقابلے، وہاں کا ادب او رلٹریری سوسائٹی ، پرفارمنگ آرٹ، فنونِ لطیفہ، میوزک ڈرامہ، ڈیبیٹنگ سوسائٹی، راوی اور گزٹیئرسمیت ہم نصابی سرگرمیوں پر محیط دو درجن سے زائد سوسائٹیوں کا ہالا اور دائرہ از حد خیرہ کن ہے ۔ ماضی قریب میں گورنمنٹ کالج یا جی سی سے مراد صرف ایک ہی ادارہ تھا،پھر ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوئے ، ایک طرف الیکٹرانک میڈیا اور ٹی وی چینلز کا طوفان آیا اور دوسری طرف ایجوکیشن سرکاری حدود و قیود سے نکل کر پرائیویٹ سیکٹر میں جا پہنچی ، اسی طرح، کل جب کالج /یونیورسٹی کی گہما گہمی اور چہل پہل دیکھ رہا تھا ، تو معاً خیال گزرا ، کہ شاید آج کوئی اس امر پر یقین ہی نہ کرے کہ کالج کی پہلی کلاس کا آغاز محض نو طلبا سے ہوا، گورنمنٹ کالج کا قیام انگریز عہد میں اندرون شہر میں واقع ، سکھ دور کی ایک تاریخی حویلی دھیان سنگھ خوشحال سنگھ میں عمل میں آیا، 1864ء میں کالج نے باقاعدہ کام شروع کیا ، کالج کے معیار کو بین الاقوامی سطح پر معتبر کرنے کے لیے ، اس کی مینجمنٹ نے فیصلہ کیا کہ کالج کے اساتذہ آکسفورڈاور کیمبرج سے تعلیم یافتہ ہوں ، 1871ء میں کالج کی عمارت انارکلی کے قریب ایک بنگلہ میں منتقل ہوئی ، انیسویں صدی کے ساتویں عشرے میں، گورنمنٹ کالج کی موجودہ عمارت میں کالج منتقل ہو گیا۔اس کالج کے پہلے پرنسپل فری برگ یونیورسٹی کے ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹنر، جو اُس وقت کنگز کالج لندن میں عربی اور محمڈن لاء کے پروفیسر تھے، موصوف کم و بیش بائیس سال تک (1886ء ۔1864ئ) جی سی میں پرنسپل کے عہدے پہ متمکن رہے۔ کالج 1876ء سے موجودہ عمارت میں قائم ہے۔ ڈاکٹر لائٹنر ہی کی کوششوں سے 1870ء میں پنجاب یونیورسٹی کے قیام سے، گورنمنٹ کالج کے طلبہ کے لیے تھوڑی مشکلات سے پیدا ہو گئیں۔اب انہیں دو نصاب پڑھنے پڑھتے، اور دو ہی امتحان، یعنی ایک پنجاب یونیورسٹی کا ، اور ایک کلکتہ یونیورسٹی کا، جس سے گورنمنٹ کالج ابتداء ہی سے ملحق تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کا امتحان اسکالر شپ کے لیے اور کلکتہ یونیورسٹی کا امتحان ڈگری کے حصول کے لیے دیا جاتا ۔ آخر ڈاکٹر لائٹنر کی کوششیں بارآور ہوئیں اور 14اکتوبر 1882ء کو پنجاب یونیورسٹی کا باقاعدہ قیام عمل میں آگیا،یوں کلکتہ یونیورسٹی ، مدراس یونیورسٹی، بمبئی یونیورسٹی کے بعد پنجاب یونیورسٹی برصغیر کی چوتھی یونیورسٹی تھی۔