جناب شیخ کا قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی، شہباز شریف جنہوں نے پولنگ کے بعد رات گئے ہنگامی پریس کانفرنس میں دھاندلی کا الزام لگا کر انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے کہا تھاکہ کروڑوں لوگوں کے مینڈیٹ کی توہین کی گئی‘ ناانصافی برداشت نہیں کریں گے، اگلے روز ہی اڈیالہ جیل میں میاں نوازشریف سے ملاقات کے بعد آئینی جد وجہد کرنے کا اعلان کردیااور پھرآل پارٹیز کانفرنس کے شریک میزبان بن گئے۔ ادھر ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے جوڑ توڑ کرنے میں مصروف ہیں۔ اصولی طور پر مسلم لیگ(ن) کو قومی اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے سا تھ مل کر کوئی حکمت عملی بنانی چاہیے تھی۔ بلاول بھٹو نے بائیکاٹ یا حلف نہ اٹھانے کی کال دینے کے بجائے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دیا لیکن ساتھ ہی نوید سنائی کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر جدوجہد کریں گے۔ اس سے ملتا جلتا موقف شہباز شریف کا ہونا چاہیے تھا کیونکہ مسلم لیگ(ن) کا شمارجے یو آئی (ف) ،پاک سرزمین پارٹی یا جماعت اسلامی جیسی جماعتوں میں نہیں کیا جاسکتا جن کے سربراہ الیکشن میں آؤٹ ہو گئے ہیں۔ اس وقت پنجاب اسمبلی جس میں مسلم لیگ(ن) کو تحریک انصاف پر معمولی سبقت حاصل ہے ، لیکن امکان غالب ہے کہ خان صاحب آزاد امیدواروں کوملا کر صوبے میں حکومت بنا لیں گے۔ان کے ’پوائنٹ مین‘ جہانگیر ترین پہلے ہی کچھ آزاد ارکان کو جماعت میںشامل کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ برادر خورد کو بھی اپنی توانیاں حکومت بنانے پر خرچ کرنی چاہیے تھیں۔ ویسے بھی حلف نہ اٹھانے کے حوالے سے گومگوں کی حکمت عملی سابق حکمران جماعت کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔کیا مسلم لیگ(ن) کے صدر کی اپنی پارٹی پر گرفت اتنی مضبوط ہے کہ ان کے کہنے پر ارکان اسمبلی حلف اٹھانے سے انکار کر دیں گے؟۔ اس قسم کی حکمت عملی سے اصولی طور پر اتفاق کرنا بھی شریف برادران کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ،محمود اچکزئی، مولانا سراج الحق، لیاقت بلوچ اور مصطفی کمال تو ایسے رہنما ہیں جن کا تو یہ مسئلہ بھی نہیں کیونکہ وہ سرے سے منتخب ہی نہیں ہوئے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ انتخابات سے قبل جن قوتوں کے دباؤ پر بہت سے امیدوار مسلم لیگ(ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں چلے گئے تھے کیونکر آزاد ارکان کو مسلم لیگ(ن) کی طرف آنے دیں گے۔ ان کی پہلی ترجیح تحریک انصاف ہی ہو گی۔ شہباز شریف نے تحریک چلانے اور حلف نہ اٹھانے کا معاملہ اپنی جماعت کی مجلس عاملہ پر چھوڑ دیا ہے اور امید ہے کہ وہ اے پی سی کی اپیل پر صاد نہیں کرے گی۔ نہ جانے شہباز شریف کو پیپلزپارٹی سے کیا الرجی ہے حالانکہ اس وقت دونوں جماعتوں کے سیاسی مفادات قریباً یکساں ہے۔ یہ وہی سیاسی جماعت ہے جس نے عمران خان کے2014کے مسلسل دھرنے کے دوران میاں نواز شریف کی حکومت کو بیل آؤٹ کیا تھا۔ دراصل شہباز شریف نے مسلسل دس بر س پنجاب میں حکمرانی کی ہے یا اس سے قبل جلا وطنی میں وقت گزارا ہے اب غالباً انھیں اپوزیشن میں رہنے کی عادت ڈال کر اپنی سوچ میں بنیادی تبدیلی لانا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) تمام تردعوؤں کے باوجود وطن عزیز کوپتلی اقتصادی حالت میں چھوڑ کررخصت ہوئی، لہٰذا واقعی اگر کسی عوامی تحریک کا کامیابی سے ہمکنار ہونا ممکن بھی نظر آتا ہو تو کیاایسی حکمت عملی ملکی مفاد میں ہو گی؟۔ عملی طور پر جب سے میاں نواز شریف کو ایک سال قبل کرپشن کے الزام میں نا اہل کیا گیا ملک میں ایک ہذیانی سی کیفیت طاری ہے اورا نتخابی مہم ساٹھ دن نہیں بلکہ عملی طور پر ایک سال پر محیط تھی۔لہٰذا اب سب کو اپنا اپنا کام کر نا چاہیے اورعوام کا مزید امتحان نہیں لینا چاہیے ۔ویسے بھی انتخا بی دھاندلی کے معاملے پر تحریک چلانا بہت مشکل ہو گا۔ 2014ء کا دھرنا تو مبینہ طور پراس وقت کی فوجی قیادت کے اس وعدے پرکہ امپائر انگلی اٹھا دے گا مسلسل جاری رہالیکن جب ایسا نہ ہوا تو عمران خان نے آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردی کے حملے کے سوگ کو جواز بنا کر دھرنا ختم کردیا تھا۔ یورپی یونین اور فافن دونوں کی رپورٹ کے مطابق پولنگ کے روز انتخابی عمل میں کوئی لمبی چوڑی دھاندلی نہیں ہوئی ۔ان کے مطابق نتائج اطمینان بخش تھے البتہ جیساکہ پاکستان میں بچے بچے کومعلوم ہے رپورٹ کے مطابق انتخابات سے قبل تمام سیاسی جماعتوں کویکساں مواقع فراہم نہیں کیے گئے۔ نام نہاد آ رٹی ایس سسٹم جس کا مقصد انتخابی نتائج کی بروقت اور شفافیت سے ترسیل تھا، ناکام ہو گیا۔ گنتی کے عمل میں غیر شفافیت اور نتائج کے اعلان میں تاخیر بھی ان انتخابات کا خاصا رہا۔ اپوزیشن جماعتوں نے فارم 45کی فراہمی کے حوالے سے بھی جائز شکایت کی۔ سب سے بڑھ کر جن امید واروں نے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیاان سے نمایاں طور پر امتیازی سلوک کیاگیا۔ حالانکہ شہبازشریف اور تحریک انصاف کے فیصل واوڈاکے درمیان قر یباًسات سوووٹوں کا فرق تھا۔ الیکشن کمیشن نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ دوسری طرف یہ دیکھنے میں آیا کہ سپیکر قومی اسمبلی اور حلقہ این اے 129سے امیدوار ایاز صادق نے اپنے مد مقابل علیم خان سے قریباً 4000ووٹ زیادہ لیے۔ وہاں دوبارہ گنتی کی اجازت دے دی گئی لہٰذا یہاں فطری طور پر یہ الزام لگایا جا سکتاہے کہ لاڈلوں سے خصوصی سلوک کیا جا رہا ہے۔ ویسے بھی پی ٹی آئی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات کی غیر شفافیت کا رونا رویاہے۔ بلاول بھٹو نے مطالبہ کیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ ان کا یہ مطالبہ درست ہے کیونکہ اس کے باوجود کہ الیکشن کمیشن کو 2017ء کے الیکشن ایکٹ کے تحت لامحدود اختیارات دیئے گئے لیکن وہ صاف، شفاف اور غیر منصفانہ انتخابات کرانے میں قطعاً ناکام رہے۔ عمران خان نے اپنی وکٹری سپیچ میں قوم سے خطاب میں یہ فراخ دلانہ پیشکش کی تھی کہ کسی کو بھی حلقے کے بارے میں شکایت ہو تو وہ اسے کھولنے کے لیے تیار ہیں لیکن الیکشن کمیشن اپنی پرانی ڈگرپر ہی چل رہا ہے۔ حالیہ عام انتخابات کے دوران ہونے والی تمام تر خرابیوں کے باوجود عوام نے مجموعی طور پر خاصے شعور کا مظاہرہ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ کو دھاندلی دھاندلی کی رٹ لگانے کے بجائے بیٹھ کر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ان کے طر ز حکمرانی میں کہاں کہاں کوتاہیاںتھیں ۔ یہ تو حقیقت ہے کہ نواز شریف نے تو سب کچھ اپنے نو رتنوں پر چھوڑا ہوا تھا، وہ کا بینہ اور ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے اور برادرخورد سوشل سیکٹر کو یکسر نظر انداز کر کے پل،سٹرکیں، بجلی کے منصوبے لگانے میں مگن رہے اور اسمبلی رانا ثناء اللہ پر چھوڑی ہوئی تھی۔گویا کہ شریف برادران عوام تو کجا اپنی پارٹی سے بھی کٹ کر رہ گئے تھے۔ کرپشن کے الزامات اور انداز حکمرانی میں غیر شفافیت ان کے لیے آ خری کیل ثابت ہوا۔ اس الیکشن کا ایک اورپہلو یہ تھاکہ بعض ایسے گروپوں جنہیں امریکہ اور اقوام متحدہ دہشت گرد قرار دیتے ہیںنے بھرپور حصہ لیا اور خاصے امیدوار کھڑے کیے لیکن عوام نے انھیں پذیرائی نہیں بخشی البتہ سندھ اسمبلی کے لیے تحریک لبیک کے دوامیدوار کامیاب ہو گئے۔ وہ آزاد ارکان جن کے سرغنہ مسلم لیگ(ن) کے ناراض رہنما چوہدری نثار علی خان تھے کو بھی منہ کی کھانی پڑی اور’’جیپ‘‘کا نشان ان کے کام نہ آیا۔ یہ بات بھی آشکار ہوئی کہ چوہدری نثار جس پارٹی کے ٹکٹ پر8بار الیکشن جیتے تھے ان کا قد اپنی سابق جماعت سے بڑانہیں۔ مجموعی طور پر الیکشن2018ء کو ئی آئیڈیل الیکشن ثابت نہیں ہوئے، تاہم عوام نے جس قسم کا مینڈیٹ تفویض کیا ہے عمران خان کی حکومت کو قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میںبھر پور قسم کی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ یہ جماعتیں اس پوزیشن میں ہیں کہ پارلیمنٹ کے ذریعے متفقہ طورپر مزید انتخابی اصلاحات لائیں۔ مزید برآں سیاسی معاملات میں غیر سیاسی مداخلت بھی اب ختم ہو جانی چاہیے کیونکہ عوام کا مینڈیٹ اتنی آسانی سے چرایا نہیں جا سکتا۔