محترمہ عامر خاکوانی نے چند روز پہلے اپنے کالم میں ہومیو پیتھک ادویات کا تذکرہ کیا۔ پس منظر یہ تھا کہ کورونا کاشکار ہونے بعد انہوںنے ساہیوال کے ایک نامور قابل ہومیو فزیشن کی تجویز کردہ ادویات استعمال کیں اور حیرت انگیز طورپر بیماری کی شدت اور پیچیدگی سے محفوظ ہے۔ فیس بک پر یہ کالم لگایا تو اس پر بحث کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کسی نے ایلوپیتھک کی خوبیاں گنوانی شروع کردیں۔ کسی نے ہومیو پیتھک کے نقصانات پر روشنی ڈالنا شروع کردیں۔ کسی نے ہومیو پیتھک کو قابل بھروسہ طریقہ علاج بھی ماننے سے انکار کردیا۔ ہومیو پیتھک کے بارے میں یہ ایک عمومی رویہ ہے ہم ایلوپیتھک کے معالجین کو زیادہ قابل اور پڑھا لکھا مانتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایف ایس کی سخت محنت طلب پڑھائی اور میرٹ پر آنے کے بعد بھی انہیں کسی میڈیکل کالج میں داخلہ ملتا ہے۔ اس کے بعد پانچ سال پڑھائی‘ دو سال ہائوس جاب کے دوران ہسپتال میں عملی تربیت کا موقع اس کے بعد ہر بیماری کا سپیشلسٹ الگ‘ بھاری فیس‘ بیرون ملک سے حاصل کی جانے و الی ڈگریوں کا تڑکا‘ اس کے برعکس ہومیو پیتھک ڈاکٹری کی ڈگری لینا آسان ترین کام۔ آپ عمر کے کسی بھی حصے میں ہومیو ڈاکٹر بن سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض قابل ہومیو ڈاکٹرز ایسے ہیں جنہوں نے اپنی نوکری سے ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لینے کے بعد ہومیو طریقہ علاج کو باقاعدہ پڑھا اور پھر وہ مریضوں کا علاج کرنے لگے۔ ہومیو پیتھک طریقہ علاج میرے لیے پراسرار چیز رہی ہے۔ ایک طرف اس کی تعلیم کا کوئی خاص میرٹ نہیں‘ کوئی بھی کسی بھی عمر میں ہومیو ڈاکٹر بن سکتا ہے۔ اس سہولت اور آسانی کے کارن ایلوپیتھک انہیں ڈاکٹر نہیں مانتے۔ دوسری طرف بعض ناقابل علاج اور ایلوپیتھک ڈاکٹروں کے ہاتھوں بگڑی ہوئی بیماریوں کا علاج ہی ہومیو پیتھک طریقہ علاج سے اس کامیابی سے ہوتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ پچھلے دنوں خطبات سرسید زیر مطالعہ تھی۔ اس میں ایک بڑا دلچسپ خطبہ ہے جو سرسید بنارس میں پہلا ہومیو ہسپتال قائم کرنے کے موقع پر دیتے ہیں۔ اس خطبے کو پڑھ کر حیرت ہوئی کہ سرسید بھی کیا شہ دماغ تھے کہ جس موضوع پر بات کرتے اس کے پس منظر‘ پیش منظر‘ تاریخ‘ ارتقائ‘ ابتدا اورانتہا کو کھول کر سامعین کے سامنے رکھ دیتے۔ سرسید کے خطبات کی تدوین و ترتیب دینے والے شیخ محمد اسماعیل پانی پتی نے اس خطبے پر نوٹ لکھ دیا ہے کہ ’’سرسید ایک بہت ہی عجیب لیاقت کے انسان تھے۔ بظاہر خیال نہیں آتا کہ ہومیو پیتھی جیسے غیر ادبی مضمون سے انہیں کیا دلچسپی ہو سکتی تھی مگر انہیں اس فن سے بھی کافی واقفیت تھی۔‘‘ ہومیو پیتھک پر اس سے پہلے اس قدر دلچسپ‘ حقائق اور اعداد و شمار کے ساتھ موازنے والا متن میری نظر سے نہیں گزرا۔ اس خطبے کو پڑھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی تقریر یا خطبہ نہیں بلکہ ہومیو پیتھک پر ایک تھیسس پیش کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب معلومات کا حصول‘ آج کی طرح انگلی کی کلک کے ذریعے ممکن نہیں تھا۔ اس طویل مگر دلچسپ خطبے کے کچھ اقتباسات کالم میں شامل کرتی ہوں۔ ٭ ہومیو پیتھی کو کچھ لوگ غلطی سے نیا طریقہ علاج خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کی جڑ بہت پرانے وقتوں سے چلی آتی ہے۔ ڈاکٹر ہنیمن نے صرف اسے پانی دے کر تروتازہ کیا ہے۔ ٭ اگرچہ ہومیو پیتھی اب ایسی حالت میں نہیں رہی کہ اس کی مخالفت سے کوئی شخص اس کے مفید ہونے کو مٹا سکے۔ بڑے بڑے عالموں اور ڈاکٹروں نے اس کی سچائی اور عمدگی کا اقرار کیا ہے۔ اس کی ترقی روز بروز امریکہ‘ انگلینڈ‘ فرانس‘ آسٹریا میں ایسی ہوتی جاتی ہے کہ جیسی سورج کے ابھرنے کے وقت دن کو مگر اے میرے ہم وطن بھائیو! میں خاص تم کو خطاب کر کے کہتا ہوں کہ ہر چیز کو بے تعصبی سے دیکھو جس کو عمدہ پائو اختیار کرو۔ اس کے بعد سرسید بڑی تفصیل سے بتاتے ہیں کہ بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ جرمنی کا ڈاکٹر سموئل ہنیمن خود ایلوپیتھک کا بہت بڑا ڈاکٹر تھا مگر بوجوہ وہ دوائوں کے اثرات اور نتائج سے ایسا دلبرداشتہ ہوا کہ اس نے اپنی طباعت اور علاج سے ہاتھ کھینچ لیا مگر وہ علم طب کا شائق تھا سو اس بار کا متلاشی رہا کہ کوئی قدرت سے ایسا اصول آ سکے یا تو آوے جس کو وہ اپنا رہنما بنائے۔ اس کی اسی تلاش اور خواہش اسے ہومیو پیتھی کی دریافت تک لے گئی۔ اس خطبے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ سرسید اپنے سامعین کے سامنے ایلوپیتھی اور ہومیو پیتھی۔ البتہ علاج کے موازنے کے لیے اعداد و شمار بھی پیش کرتے ہیں کہتے ہیں: ’’گزشتہ ڈاک سے ایک پمفلٹ لندن سے آیا ہے جو میری نظر سے گزرا۔ اس میں بھی دونوں قسم کے علاجوں کے شفاخانوں کے نتائج کا نقظہ درج ہے۔ آپ کے ملاحظے سے گزرتا ہوں۔ 1849ء میں ایشیائی ہیضہ کی بیماری ایڈن برگ میں پھیلی۔ ایلوپیتھی شفاخانے میں آٹھ سو سترہ مریض گئے جس میں سے پانچ سے چھیالیس مر گئے اور دو سو اکہتر نے صحت پائی۔ ہومیو پیتھی شفاخانے میں دو سو چھتیس مریض گئے جن میں سے ایک سو اناسی نے شفا پائی اور کل ستاون اللہ کو پیار ہوئے۔اس طرح کے مزید موازنے پیش کرنے کے بعد سرسید کہتے ہیں:’’اس علاج کی دوا صرف اسی اعضا پر کام کرتی ہے جس میں بیماری ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ اگر بیماری دماغ میں ہو تو اس علاج سے معدے میں فتور آ جائے۔‘‘ یہ جملے پڑھ کر مجھے انور مسعود صاحب کی نظم ’’سر درد میں گولی یہ بڑی زور اثر ہے‘‘ یاد آ گئی۔ جو سر درد کا علاج کرتے کرتے خارش‘ نسیان‘ یرقان اور گردوں کو ویران کرنے کا سبب بنتی ہے۔ بات اگرچہ مزاح میں کہی گئی ہے مگر کہیں نہ کہیں اس میں کچھ حقیقت بھی موجود ہے۔ اینٹی بائیوٹک کے بے جا استعمال سے جس طرح انسانوں کا مدافعتی نظام تباہ ہورہا ہے اس پر دنیا میں No to anti biotic مہم بھی چل رہی ہے۔ امریکہ اور لندن جیسے ملکوں میں ڈاکٹرز بچوں کو اینٹی بائیو ٹک دینے سے احتراز کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا کوئی چیک اینڈ بیلنس سسٹم موجود نہیں ہے۔