نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم دورہ منسوخ کرکے واپس ہولی۔جس روز اِن کی واپسی تھی،اسلام آباد کی سڑکوں پر سکیورٹی کی گاڑیاں عام ٹریفک میں نمایاں تھیں۔اسلام آباد کے بیچوں بیچ لال مسجد کے اطراف میں سپاہیوں کا گھیرا تھا۔اس دوران مولانا عزیز کی ایک ویڈیو (جس میں یہ پولیس والوں کو اُن کی نوکریوں کی شرم دلاتے ہوئے پائے گئے)سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی۔یہ جولائی دوہزارسات کی بات ہے کہ پرویز مشرف کے دَور میں لال مسجد آپریشن ہوا۔اس واقعہ کو لگ بھگ تیرہ برس ہونے کو ہیں ،مگر گذشتہ سات آٹھ ماہ سے ،جب بھی اُدھر سے گزر ہوتا ہے تو لال مسجد کے اطراف کی سڑکوں کو بند پاتاہوں۔ایک دہائی سے زائدہ عرصہ میں یہ مسئلہ سلجھ نہ پایا۔ہم یہاں اس معاملے میں نہیں پڑتے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے میچ منسوخ کیوں کیِا؟اور نہ ہی اس بابت غور کرتے ہیں کہ لال مسجد کے اطراف کی سڑکیں پہرے کی خاردارتاروں میں کیوں لپٹی رہتی ہیں؟ہم یہاں محض یہ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ میچ منسوخ ہونے پر پاکستان کے عوام نے شدید جذباتی ردِعمل کیوں دیا؟نیز کسی بھی واقعہ کے نتیجے میں پاکستان کے عوام شدید غم و غصے سے کیوں بھر جاتے ہیں؟ کیاعوام ایسا کرکے ریاست کوباہم سہولت نہیں پہنچاتے؟ مزید براں ریاست سے زیادہ عوام کیوں برہم دکھائی دیتے ہیں؟جو کام ریاست کو کرنا چاہیے وہ عوام کیوں کرتے ہیں؟کیا عوام خود کو ریاست کے درجہ پر فائز سمجھتے ہیں؟ اگر ماضی کے چند ایسے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم پڑے گا کہ عوام کا ردِعمل بہت شدید نوعیت کا رہا ہے۔ہر واقعہ کے ردِعمل میں عوام میں باہم تقسیم بھی گہری دکھائی دیتی ہے۔ لیکن بڑا طبقہ جذباتی سطح کا ردِعمل دے کر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے ۔نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم نے میچ کی منسوخی کا اعلان کیا تو ایک سوشل میڈیا صارف نے ہمسایہ ملک کے میدانوں کو اُجاڑنے کی دھمکی نماخواہش کر ڈالی،لوگوں کی ایک بڑی تعداد ،اس پر واہ واہ کرکے اُس کی خواہش کو عملی تعبیر دینے کی تائید کرنے لگی۔دوٹیموں کے مابین میچ منسوخ ہوا،مہمان ٹیم نے یہ عذرپیش کیا کہ اُنھیں سکیورٹی مسائل ہوسکتے ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ موجود ہے، حکومت موجود ہے ،مگر عوام کرکٹ بورڈ اور حکومت کے ردِعمل سے پہلے ہی میدان میں کود پڑے ۔پھر اگر کوئی آدمی جذباتی ردِعمل دینے والوں سے اختلاف کی بات کرے تو یہ اُس کو مارنے پر اُتر آتے ہیں۔عوام کے اندر ’’حساسیت‘‘کس نے ،کیسے اور کیوں پیدا کی؟کیا مذکورہ واقعہ کو معقولیت سے نہیں دیکھا جاسکتا تھا؟ پاکستان کے لوگ جذبات سے ہر وقت بھرے رہتے ہیں۔یہ جذبات کا اظہار آئے روز مختلف مواقع میں کرتے بھی رہتے ہیں۔مگر مجال ہے کہ اِن جذبات کا اظہار مفید انداز میں ہوتا ہو۔یہ جذبات ایک دوسرے کو مارنے ،اپنا نقصان کرنے ،املاک کو آگ لگانے اور دوسروں پر الزامات کی بوچھاڑ کی نذر ہو جاتے ہیں ۔واقعہ مدہم پڑتا ہے تو جذبات مدہم پڑجاتے ہیں،پھر نیا واقعہ رُونما ہوتا ہے تو جذبات ،گرم پانی کی طرح اُبلنا شروع ہوجاتے ہیں۔یہ جذبات اُس وقت تک ٹھنڈے نہیں پڑتے ،جب تک واقعہ مدہم نہ پڑجائے اور اپنا نقصان تھوڑابہت نہ کر لیا جائے۔جیسے ہی کوئی واقعہ رُونما ہوتا ہے کہ اچانک بپھرے ہوئے لوگوں کی بڑی تعداد نمودار ہوجاتی ہے،بالکل ایسے ہی جیسے کیڑے مکوڑوں کی رہائش کے سوراخ میں پانی ڈالا جائے تو وہ باہر کی جانب اُبلتے چلے آتے ہیں۔یہ کیڑے مکوڑوں کے باہر اُبلتے چلے آنے کا طریقہ کس نے سوچا تھا؟اور اس عمل سے ایسا کرنے والوں کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ پاکستان کے جذباتی عوام اپنی ترقی کی راہ میں خود مزاحم ہیں۔یہ حکومتِ وقت کے خلاف پنپنے والے غصے کا اخراج غلط جگہ پر کر بیٹھتے ہیں اور اس میں حکومت کو باہم فائدہ پہنچتا ہے۔بعض مواقع میں عوام حکومت کی پالیسیوں پر غصہ نکالتے ہیں ،مگر اُن مواقع میں وقت کا اختیار درست نہیں کیِا جاتا۔مثال کے طورپر کسی معاملے پر لوگ بپھر گئے اور اُس ہجوم میں بعض میٹرو بس کے ٹرمینل پر چڑھ دوڑتے ہیں،بسوں کے شیشے توڑ دیتے ہیں اورآگ تک بھی لگادیتے ہیں۔ایسا کرکے اُس بابت غصہ نکال رہے ہوتے ہیں کہ حکومت نے میٹرو بس پراجیکٹ شروع کرتے سمے اُن کو آن بورڈ نہیں لیا تھا اور اس پراجیکٹ سے اُن کا ذاتی نقصان ہواتھا۔تاہم ایسا کرتے ہوئے یہ وقت کا درست انتخاب نہیں کرتے۔اُن سب کواس غصے کا اظہار اُس وقت کرنا چاہیے تھا،جب اُن کی منشا و مرضی جانے بغیر یا نقصان کا ازالہ کیے بغیر حکومت یہ پراجیکٹ شروع کرنے جارہی تھی ۔دوسری جانب عوام کے جذبات نے ہردَور کی حکومت کا نقصان کم فائدہ زیادہ کِیا ہے۔اسی فائدہ کے لیے ہی عوام کو جذباتی بنایا گیا۔عوام کو جذباتی بنانے کے لیے ’’حساسیت‘‘کا ہتھیار بروئے کارلایا گیا۔یہی وجہ ہے کہ بعض ایشوز اور پہلو ایسے ہیں ،جن کے سامنے آتے ساتھ ہی پاکستان کے عوام کے جذبات بھڑک اُٹھتے ہیں۔کرکٹ کا کھیل ایسا ہی ایک حساسیت بھرا ہتھیار ہے۔کرکٹ کا کھیل یہاں کے عوام کے لیے حق و باطل کی جنگ کے طور پر ہمیشہ پیش کیا جاتارہا۔مگر اس پر کبھی پریشانی کا اظہار نہ کیِاگیا کہ یہ ہتھیار آہستہ بہ آہستہ زنگ آلود ہوتا جارہا ہے۔مگر اس کے زنگ آلود ہونے سے جذبات کی شدت میں مزید اضافہ ہوا۔ پاکستان کے عوام کو چاہیے کہ جذبات کا رُخ اُس طرف کریں ،جہاں سے اُن کی سبکی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔جب تک ایسا نہیںہوگا مسئلہ بھی موجود رہے گا اور جذبات بھی مجروح ہوتے رہیں گے۔مگر پاکستان کے عوام جذباتیت کی جس سطح تک پہنچ چکے ہیں،اُس سطح سے نیچے آنا ممکن نہیں۔یہ اس ملک کا المیہ ہے کہ یہاں کے عوام کو ہتھیار سمجھا گیا اور عوام نے اس کا ہر بار ثبوت بھی دیا۔