موت زندگی کی بہترین محافظ ہے مگر اونٹ کی رسی باندھنا توکل کی پہلی شرط بھی۔ قدرت کی طرف سے اشرف المخلوقات کو کرونا کی آزمائش کا سامنا ہے۔ دنیا کے 194ممالک میں سے لگ بھگ 154اس امتحان سے گزر رہے ہیں۔ چین جہاں سے اس عفریت نے سر اٹھایا تھا اپنے عزم اور حوصلے اور بہترین کوششوں کے باعث اپنے حصے کا عذاب سہہ کے نجات کے مراحل میںداخل ہو چکا ہے۔ باقی اقوام بھی تدابیر میں مصروف ہیں۔ ہالینڈ کے وزیر صحت ملک میں کرونا کی صورت حال کے بارے میں اسمبلی کو آگاہ کر رہے تھے کہ دھڑام سے نیچے گر پڑے۔ہسپتال لے جایا گیا تو پتہ چلا کہ ذمہ داریوں کے بوجھ نے اس انسان دوست کو سونے نہیں دیا۔ سات دن رات مسلسل جاگنے اور کام کرنے کی وجہ سے ہمت نے نہیں مگر جسم نے جواب دیا۔ اقوام عالم کی قیادت کا تاج سر پہ سجانے والے امریکہ کے خوف کا یہ عالم ہے کہ یورپ سے فضائی رابطے منقطع کر چکا اور جس جس ملک میں وائرس پہنچ رہا ہے اس اس سے اعلان لاتعلقی کر رہا ہے۔ مگر داغ دہلوی کیا خوبصورت بات کہہ گئے: الگ کرنا رقیبوں کا الٰہی تجھ کو آساںہے مجھے مشکل کہ میری بے کسی سے ہو نہیں سکتا دنیا میں ایک واحد ملک ایران ہے جو چین اور اٹلی کے بعد کرونا سے متاثر دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ ایران امریکہ کے جبر کے ساتھ اس وبا کا مقابلہ بھی صبر سے کر رہا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں اس جان لیوا وبا نے اچانک یلغار کی اور ان کو حالت جنگ میں حفاظتی اقدامات کرنا پڑے۔ پاکستان پر اس لحاظ سے قدرت کی خاصی عنایت رہی کہ قریب ایک ماہ سے یہ آفت ہمارے ہاں دستک دیتی رہی کہ سنبھل سکتے ہو تو سنبھل لو۔ مگر ہم نے کیا کیا! کراچی میں ایک ماہ پہلے کرونا وائرس کے انکشاف ہونے پر تیاری اور حفاظتی اقدامات کے بجائے سندھ حکومت کے لتے لینا شروع کر دیے۔ پیپلز پارٹی تو پہلے ہی بدعنوانی کے بوجھ تلے اس قدر دبائی جا چکی تھی کہ سانس لینا مشکل پڑتا تھا مگر آفرین وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے جو الزامات کے کیچڑ بھرے دلدل میں اپنے صوبے کی عوام کی خدمت میں جتے رہے۔ چین کے صدر کے بعد مراد علی شاہ ہی دوسرے لیڈر تھے جو متاثرہ مقامات تک پہنچے۔ ورنہ باقیوں میں تو قرنطینہ میں جانے کا مشن عام ہو چکا۔ چارسو آہ و بکا شروع ہوئی تو وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرنا مناسب سمجھا بھی تو بجائے اس کے کہ ہنگامی صورت حال میں ایمرجنسی کا اعلان کرتے، جنگی بنیادوں پر اقدامات اور ریلیف پر مبنی پالیسی کا اعلان کرتے، فرمایا ’’گھبرانا نہیں لڑنا ہے‘‘ گویا اب جو کرنا ہے کرونا نے ہی کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی پر بدعنوانی کے جتنے بھی الزامات تھونپ دیں مگر یہ سچ ابھر کر سامنے آ چکا کہ وفاقی حکومت کی مدد کے بغیر مراد علی شاہ نے کرونا کے عفریت کے سامنے ڈٹ کر باقی صوبوں کے لئے مثال قائم کر دی ہے۔ پنجاب جس کے عوام دوست منصوبوں کا ماضی میں ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا آج مراد علی شاہ کے قدموں کے نشان پر قدم رکھ کر منزل پانے کی جستجو کر رہا ہے۔ ملتان اور لاہور میں آبادیوں سے دور قرنطینہ مقامات کا انتخاب مراد علی شاہ کی تقلید، لاہور کے ایکسپو سنٹر میں ایک ہزار بستروں پر مشتمل کرونا کے علاج کے لئے الگ ہسپتال بنانے کا خیال مرادعلی شاہ کو دیکھ کر آیا،ورنہ سروسز اور میوہسپتال میں کرونا کے مریضوں کے لئے ایک الگ وارڈ مختص کر کے ہی جنگ جیتنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ یہ پیپلز پارٹی کی ہی قیادت ہے کہ جس نے بدعنوانی کے مقدمات اور بد سے زیادہ بدنام ہونے کے باوجود بھی قومی یکجہتی کی ضرورت کو محسوس کیا اور بلاول بھٹو زرداری نے برملا یہ تسلیم کر لیا کہ آفت کی اس گھڑی میں سلیکٹیڈ ہی ہمارا وزیراعظم ہے۔ ہماری قیادت کرے ہم پیروی اور تعاون کے لئے تیار ہیں۔ بلاول بھٹو نے وزیر اعظم کو صائب تجویز دی تھی کہ سندھ سمیت پورے ملک میں لاک ڈائون کیا جائے۔معاملہ ساحر لدھیانوی کے بقول اس نہج تک پہنچ چکا ہے: اس رینگتی حیات کا کب تک اٹھائیں بار بیمار اب الجھنے لگے ہیں طبیب سے پیپلز پارٹی کی یہ تجویز کوئی ایسی نامناسب بھی نہ تھی کہ وزیر اعظم نے پاکستان کے حالات لاک ڈائون کی اجازت نہیں دیتے کہہ کر رد کر دی۔ وزیر اعظم کا خوف کیا ہے۔یہی نا کہ لاک ڈائون کریں گے تو لوگ بھوکوں مریں گے ! صاحب یہ تو لاک ڈائون کے بغیر بھی ہو رہا ہے۔سوائے سرکاری ملازمین جن کو کام کیے بغیر تنخواہ مل جائے گی۔ باقی غریب مل مزدور تو پہلے ہی بے روزگاری سے فاقوں مرنے پر مجبور ہیں۔ اب بھوک کے ساتھ بیماری بھی سہیں گے اور لاک ڈائون نہ ہونے کی وجہ سے وائرس پھیلانے کا موجب بھی بنیں گے اور پھر مراد علی شاہ نے صرف لاک ڈائون کا ہی اعلان نہیں کیا بلکہ 20لاکھ گھرانوں کو راشن کے تھیلے مفت ان کی دہلیز پر پہنچانے کا اعلان کر کے حکمران ہونے کا حق بھی ادا کر دیا ہے۔ عالمی اعداد و شمار کے مطابق غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا تناسب 35فیصد ہے اگر ایک گھر کے دس افراد ہوں تو وزیر اعلیٰ سندھ کم از کم لاک ڈائون کے دنوں میں 2کروڑ بے کسوں تک راشن پہنچا کر کرونا کے خلاف جنگ لڑیں گے۔ اب آپ یہ کہیں کہ 20لاکھ راشن کے تھیلوں کی آڑ میں لوٹ مار کا پروگرام ہے تو الزام اس لئے بھی ممکن نہیں کہ جناب یہ 20لاکھ تھیلے فوج کی مدد سے تقسیم کئے جائیں گے۔ اب دھریں لوٹ مار کا الزام!! اور پھر خدانخواستہ اٹلی ،ایران کی طرح جب یہ وائرس ہر چوتھے شخص کو لپیٹ میںلے گا اس وقت لاک ڈائون کرنے کا کیا فائدہ ہو گا کیونکہ سعودی عرب، متحدہ امارات کی طرح پہلے ہی اقدامات کر لئے جائیں جہاں مساجد تک کی تالہ بندی ہو چکی۔ وزیر اعظم صاحب ایک صائب مشورہ اور بھی ہے کہ وزیر اعظم نہ بنائیں کم از کم مراد علی شاہ کو ملک بھر میں کرونا سے لڑنے کا ٹاسک ہی سونپ دیں۔کہ شاکر شجاع آبادی کے شعر کے مصداق معاملہ اس نہج تک پہنچ چکا ہے کہ جتھاں کوئی انصاف دا ناں نئیں میکوں سارے پاکستان دا دکھ جیہڑے مر گئے ہن او مر گئے ہن میکوں جیندے قبرستان دا د