ایک ہی موضوع پر دوسرا کالم لکھنا اتنا سہل نہیں مگر کیا کریں 92 نیوز پڑھنے والوں نے فرمائش کی ہے کہ ’’چڑیا کی کہانی‘‘ بہت دلچسپ تھی مگر یہ تھی مختصر۔ خواتین نے بہت زیادہ سراہا کہ واقعتاً آپ نے چڑیوں کو بیٹیوں کا استعارا بنایا اور پھر اس ننھے منے پرندے کا ذکر بھی خوب کیا۔ ہماری معروف شاعرہ نے تو اپنا خوبصورت شعر بھی بھجوا دیا۔ جسے لکھنا اس لیے ہی ضروری ہوگیا کہ اس میں پیارے پاکستان کی نسبت ہمیں بہت اچھی لگی: میرا پہلا پیار ہے میرا پیارا پاکستان میں اسکے آنگن کی چڑیا یہ میرا دالان ظاہر ہے یہ پیارا ملک ہمارا ایقان بھی ہے اور ایمان بھی۔ ساری بہاریں اور ساری رونقیں اسی سے ہیں۔ یہی آزادی تو ہے جس کے باعث ہم پرندوں کی طرح سہولت سے سانس لیتے ہیں اور اڑے پھرتے ہیں۔ ناسمجھ لوگوں کو شاید ایسی آزادی کی قدر اس لیے نہیں کہ انہوں نے غلامی نہیں دیکھی جو جسم کو ہی نہیں روح کو بھی حنوط اور منجمد کردیتی ہے، بندے کی سوچوں میں نمو رہتی ہے نہ تازگی۔ یہ سبزۂ نورستہ، یہ کھلتے ہوئے پھول اور اڑتی ہوئی تتلیاں آزاد فضا میں معنی رکھتی ہیں وگرنہ تو اٹھکھیلیاں بے زاری کا باعث بنتی ہیں۔ جی بات مجھے کرنا تھی چڑیا کی کہ جس سے شجر بولتے ہیں۔ مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آیا جو بذات خود اشفاق احمد نے ہمیں سنایا تھا کہ ایک مرتبہ وہ ہرن مینار جا رہے تھے، راستے میں انہیں ایک لڑکا نظر آیا وہ نہر کے پانی میں چھڑی مار رہا تھا۔ اشفاق نے نہ جانے کیوں اسے کچھ دیر یوں کرتے دیکھا اور پھر آگے بڑھ گئے۔ ہرن مینار سے واپسی پر اشفاق صاحب یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ وہ لڑکا اسی طرح پانی پر چھڑی مار رہا ہے اور درختوں کی طرف منہ اٹھائے ہوئے ہے۔ اشفاق صاحب جیسے دانشور میں تجسس پیدا ہوا۔ اشفاق صاحب نے گاڑی کھڑی کی اور اس لڑکے کے پاس گئے اور پوچھا یار میں ہرن مینار جا کر واپس بھی آ گیا ہوں اور تم دو تین گھنٹے سے یہیں بیٹھے پانی پر چھڑیاں مار رہے ہو؟ وہ لڑکا گویا ہوا، جی کوئی ایسی بات نہیں۔ اصل میں یہ مشاہدہ کر رہا ہوں کہ یہ سامنے درخت پر جو چڑیا بیٹھی ہے، اس کے ساتھ اب کے چڑا کوئی اور ہے۔ پچھلے سال یہ کسی اور چڑے کے ساتھ یہاں نظر آئی تھی۔ اب بتائیے اتنی باریک بینی پر اشفاق صاحب نے اس لڑکے کو کیا داد دی ہوگی۔ ویسے تو لڑکے کے حافظے کی داد دینا پڑتی ہے یا پھر آپ اسے اس کی چڑا شناسی کہہ سکتے ہیں۔ ہم تو روز درجنوں نہیں سینکڑوں چڑے چڑیاں دیکھتے ہیں۔ ہمیں تو ان کے درمیان امتیاز کرنا ہی نہیں آتا۔ موٹی سی بات یہ ہے کہ جو ذرا صحت مند اور توانا نظر آتا ہے یقینا چڑا ہوتا ہے اور جو ذرا سمارٹ اور نسبتاً چھوٹی ہوتی ہے چڑیا ہوسکتی ہے۔ ہاں مجھے یاد آیا جو گوجرانوالہ میں سیخوں پر چڑھائے جاتے ہیں وہ یقینا چڑے ہوں گے۔ معلوم نہیں کہ وہ واقعتاً صرف چڑے ہی بھونتے ہیں یا اصطلاحاً آپ کہتے ہیں۔ یقینا چڑیاں بھی ہوں گی۔ اگر صرف چڑے پکڑ کر بھونے جاتے ہیں تو پھر چڑیوں کے ساتھ یہ ایک طرح کا ظلم ہے۔ گوجرانوالہ کی یہ خاص ڈش ہے سیخوں کی سیخیں یہاں بکتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ چڑے گرم بھی بہت ہوتے ہیں۔ زیادہ کھانے سے گلہ پک جاتا ہے۔ ویسے تو چڑے کھانے والے اس کے زیر اثر کچھ نہ کچھ پھدکتے بھی ضرور ہوں گے۔ ترس بھی آتا ہے اس ننھی مخلوق پر جی، کہ ایک چڑا ایک لقمہ یا دو لقمے کا ہی تو ہوتا ہے۔ و یسے کسی کو چڑی مار کہیں تو وہ برا محسوس کرتا ہے۔ ایک زمانے میں بچے اس مقصد کے لیے غلیل استعمال کرتے تھے۔ بلی بھی چڑیا کی ویری ہے اکثر گھات میں بیٹھی رہتی ہے یا پھر دبے پائوں جا کر چڑیا کو دبوچ لیتی ہے۔ لیجئے اچانک قمر ریاض کا شعر یاد آگیا: یہ جو چڑیوں نے بہت شور مچایا ہوا ہے ایسا لگتا ہے کہ ملنے کوئی آیا ہوا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ چڑیا جتنا مرضی شور مچائے، ہم تنگ نہیں پڑتے کہ اس میں کوئی پراسراریت ہے۔ اس کے مقابلے میں کوا شور مچاتا ہے تو ہم تنگ پڑ جاتے ہیںاور کہنے لگتے ہیں کہ کیا کائیں کائیں لگا رکھی ہے جبکہ چڑیا بولتی ہے تو سحر ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ صبح دم جب یہ پانی پینے کے لیے آنگن میں اترتی ہے تو کتنی بھلی لگتی ہے۔ چڑیا کی خوشیاں اور غم بھی یقینا ہوتے ہوں گے۔ گھر واپسی میں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ سبطین رضا کا شعر تو باکمال ہے: سورج کو جاگنے میں ذرا دیر کیا ہوئی چڑیوں نے آسمان ہی سر پر اٹھا لیا یہ ہے فطرت جسے دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ چڑیاں کتنے لوگوں کو روزگار بھی دیتی ہیں کو جو انہیں پکڑتے ہیں، پنجروں میں ڈالتے ہیں، رستے میں کھڑے ہو جاتے ہیں اورلوگ انہیں پیسے دے کر رہا کرواتے ہیں۔ یہ باقاعدہ ہمارا کلچر ہے۔ وہ لوگ کتنے اچھے ہیں جو ان چڑیوں کے لیے باقاعدہ روٹی کے بھورے ڈالتے ہیں، ان کے لیے پیالے میں پانی رکھتے ہیں۔ یہ ایک الگ دنیا ہے۔ ذرا توجہ دے کر دیکھیں۔ یہ چڑیا بعض جگہ نیلی بھی ہوتی ہیں اور کالی بھی۔ غالباً اسی کو کلچڑی کہتے ہیں۔ لیجئے ہم نے فرحت زاہد کے جذبے کوسراہتے ہوئے چڑیا پر ایک اور کالم باندھ دیا۔ دعا ہے کہ پاکستان کا آنگن شاداب اور آباد رہے اور اس میں چڑیاں چہکتی رہیں۔