جمہوریت میں جمہور کو قانون کی لاٹھی سے ہانکا نہیں جاتا بلکہ اخلاقی زنجیر سے باندھا جاتا ہے۔ عمران خان خود حکمرانی کے اخلاقی جواز کے پرچارک اور اقتدار کے لئے 22سال جدوجہد کے دعویدار رہے ہیں۔ اسلام آباد دھرنوں میں 126دن تک ملک کو درپیش مسائل، ان کے اسباب اور حل پر لیکچر دیتے رہے ۔ان کے دعوئوں اور دھرنے میں پیش کیے گئے اعداد و شمار پر اعتبار کی وجہ سے عوام نے ان سے امید باندھی اور دو سال تک پیٹ پر پتھر رکھ کر تبدیلی کے منتظر بھی رہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ تحریک انصاف نے ان دو برسوں میں ماضی کے حکمرانوں کی لوٹ مار کا واویلا ہی نہیں کیا بلکہ احتساب کے عمل کا بھی آغاز کیا۔ نظام میں تبدیلی کے لئے سول سروسز میں اصلاحات کا ڈول بھی ڈالا اور سابق گورنر سٹیٹ بنک عشرت حسین کو بیورو کریسی کا قبلہ درست کرنے کے لئے اصلاحات کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ملکی معیشت پر سفید ہاتھی بنے خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کا عمل شروع کرنے کا اعلان بھی کیا۔ اس پر تبدیلی کی بنیاد رکھ دی گئی مگر پھر پتہ نہیں کس نے عمران خان کو یو ٹرن کا ہنر سکھا دیا ۔ نجکاری اصلاحات اور آمدن بڑھانے اور خرچ کم کرنے کی شاہراہ سے ایسا یو ٹرن لیا کہ پاکستان کو غیر ملکی قرضوں سے نجات دلانے کا وعدہ کیا نبھانا تھا ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کو جواز بنا کر سعودی عرب چین اور امارات سے قرض لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ آج دو سال گزرنے کے بعد حالت یہ ہے کہ سال 2018-19ء کے دوران سرکاری اداروں اور کارپوریشنز کا جو قرض 1995 ارب روپے تھا محض ایک سال میں ان اداروں کے ملازمین اور افسران کی مراعات کے لئے 601 روپے کا مزید قرضہ لیا گیا۔ ملکی معیشت کا حال یہ ہے کہ قرض کی مئے پی کر فاقہ مستی کے رنگ لانے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔وزارت خزانہ کی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق 2018 ء تک پاکستان 29.88کھرب کا مقروض تھا۔تحریک انصاف کی تبدیلی کے ثمرات کے نتیجے میں ستمبر 2019ء تک 39فیصد اضافے کے بعد 41.49 کھرب تک پہنچ گئے۔ تحریک انصاف کی حکومتی مدت 2023ء میں ختم ہو جائے گی مگر قرض لینے کی بجائے خودکشی کو ترجیح دینے والے وزیر اعظم کی حکومت پارلیمنٹ کو بتا رہی تھی کہ یہ 2024ء تک ملک کا مجموعی قرضہ 45ہزار 573ارب تک پہنچ جائے گا۔ وہ طارق نعیم نے کہا ہے نا: جیناکیا ہے‘ پچھلا قرض اتار رہا ہوں میں تو اس کی باقی زندگی گزار رہا ہوں وزارت خزانہ کی رپورٹ سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان نواز شریف ہی کی نہیں 2023ء میں آنے والی نئی حکومت کی زندگی گزارنے کا بھی حساب لگائے بیٹھے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ عمران خان اگر پاکستان کے مسائل‘ اسباب اور حل کا نسخہ کیمیا جانتے تھے تو پھر ماضی والوں کی زندگی کیوں گزارنے پر مجبور ہوئے اس کا جواب مدحت الاختر نے کیا خوب دیا ہے: لائی ہے کہاں مجھ کو طبیب کی دو رنگی دنیا کا طلب گار بھی دنیا سے خفا بھی سچ تو یہ ہے کہ عمران کی طبیعت کی دو رنگی نے تحریک انصاف کو اس نہج پر لاکھڑا کیا ہے اگر موصوف یوٹرن لینے کی بجائے سختی سے اپنے ایجنڈے پر ڈٹے رہتے تو وزارت خزانہ کو 2024ء تک 45ہزار 573ارب روپے کے اندرونی اور بیرونی قرضوں کی نوید نہ سنانا پڑتی۔ یہ عمران خان کی دورنگی ہی ہے جس نے عمران خان کو کرپٹ عناصر کے بے لاگ احتساب سے ہٹا کر صرف سیاستدانوں کے احتساب کے پیچھے لگا دیا۔ بااختیار وزیر اعظم ہونے کے دعویدار عمران خان کے اختیار کی یہ حالت ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد کرپٹ بیورو کریسی کے احتساب سے یوٹرن لینا پڑا۔ سبحان اللہ جواز یہ دیا کہ اگر بیورو کریسی کا احتساب شروع کیا تو کام کرنا چھوڑ دے گی۔ نتیجہ چینی آٹا کے بحرانوں اور پٹرول اور بجلی کے معاملات میں اربوں روپے کی لوٹ مار کی صورت میں قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ بیورو کریسی کی جادوگری عمران خان کو سبز باغ دکھا رہی ہے اور قوم آٹے چینی گھی ایسی بنیادی ضروریات کی پہنچ سے دور ہونے پر عمران خان کو کوس رہی ہے۔ عمران خان بیورو کریسی کو کلین چٹ دیتے وقت یہ بھول گئے کہ سیاستدانوں کے منہ کو کرپشن کا خون لگانے والی یہی افسر شاہی ہے جو سیاستدانوں کو لوٹ مار کے راستے دکھاتی اور ان سے من چاہی قانون سازی کرواتی ہے۔ جب تک عمران خان چور کی ماں کے سدباب کی کوئی سبیل نہیں کرتے چور پیدا ہوتے رہیں گے۔چینی اور گندم کی پہلے برآمد اور بحران پیداہونے کے بعد اب درآمد ۔ دونوں بار دیہاڑیاں لگنے کے بعد بھی اگر عمران خان صرف سیاستدانوںکی کرپشن کا علاج تلاش کرتے اور غداری کے سرٹیفکیٹس بانٹتے رہے تو پھر یاد رکھیں اگلی باری اور سرٹیفکیٹ بھی ان کے لیے ہوگا۔ افسر شاہی نے اپنے جادو سے پی ڈی ایم کی صورت میں تحریک انصاف کے اقتدار کے جہاز میں پہلا سوراخ کر دیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ عمران خان کی حکومت کو اپوزیشن کی تحریک احتجاج اور دھرنوں سے خطرہ نہیں ہاں خطرہ ہے تو اپنے طرز حکمرانی سے ہے ۔قانون عمران خان کو جتنی بھی مضبوط کرسی فراہم کرے مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ حکمرانی قانون نہیں اخلاقی جواز سے قائم رہ سکتی ہے۔ وزیراعظم ماضی کی لوٹ مار ، این آراو نہ دینے کا کہتے رہیں مگر عوام ان کی خوش گفتاری کے سحر میں زیادہ دیر گرفتار نہیں رہ سکتے۔ پنجابی کی کہاوت کہ’’ ڈھڈ نا پیاں روٹیاں تے سبے گلاں کھوٹیاں‘‘ عمران خان کی حکومت کو اصل خطرہ پی ڈی ایم سے نہیں مہنگائی غربت اور بے روزگاری سے ہو گا۔ عوام کو ریلیف دینے کیلئے اقدامات نہیں کیے جاتے تو عوام پی ڈی ایم کی قیادت میں سڑکوں کر آنے کے لیے مجبور ہوں گے۔ عمران خان اگر پاکستان کی تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ان کو دو رنگی چھوڑ کر بلا امتیاز حقیقی احتساب کو اپنا ایجنڈا بنانا ہو گا ۔ جو چور کی ماں کو پکڑے بغیر ممکن نہیں۔ دوسری صورت میں تو بشیر بدر کا کہنا ہی سچ ہو گا: محبت ، عداوت ، وفا ، بے رخی کرائے کے گھر تھے بدلتے رہے