گریہ زاری ہے نوحہ خوانی ہے یہ مرے عہد کی کہانی ہے بھوک افلاس چار سو میرے اور طبیعت پہ بھی گرانی ہے میرے ہاتھ میں یہ قلم بھی ایک امانت ہے اور مجھے اس کی پاسداری کرنی ہے۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ سزا یافتہ نواز شریف کی اس بات میں کیا جھوٹ ہے کہ لوگ فاقوں پر آ گئے ہیں۔ رشوت بغیر چارہ نہیں۔دوائیاں دسترس سے دور اور یوٹیلیٹی بلوں نے جان نکال رکھی ہے اور اس پر ستم ظریفی کہ شیخ رشید صاحب فرما رہے ہیں عمران خان کی تقریر مثالی تھی۔ اب بتائیے کہ تقریر کو چاٹیں‘ کھائیں پئیں یا پہنیں کیا کریں۔میں کوئی ہوائی بات نہیں کروں گا ۔کبھی کہا کرتے تھے کہ لوگ نمک مرچ کھا کر گزارہ کر لیں گے یقین مانیے میں بنفس نفیس ثابت سرخ مرچ خرید کرنے گیا تو ناپید۔ بڑی مشکل سے 800صد روپے کلو ملی۔ ادرک 600 روپے پائو۔ کلو کے حساب سے بتائیں تو اٹیک ہو جائے دکاندار کہنے لگا مہنگائی کے باعث بعض اشیا رکھنا ہی چھوڑ دی ہیں۔ لوگ چکرا کر رہ گئے ہیں آپ نے تو حد ہی کر دی ہے۔ چلیے اسلم کولسری کا شعر پڑھ لیں کہ وہ مقام آنے والا ہے: یعنی ترتیب کرم کا بھی سلیقہ تھا اسے اس نے پتھر بھی اٹھایا مجھے پاگل کر کے عوام نے آپ کی ملاقاتوں سے کیا لینا ہے۔ وہ بے چارے تو خود کہیں آنے جانے کے قابل نہیں رہے۔ کبھی ہوتا تھا کہ کسی کے گھر چھوٹا موٹا کیک لے جائیں وہ بھی ہزار روپے کا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ خان صاحب نے ملک کو کھایا تو نہیں؟کون کہتا ہے کھایا مگر کھلایا تو ہے۔ آپ پوچھیں گے کس کو۔ آئی ایم ایف والوں کو۔ مجھے اپنا دوست زاہد فخری یاد آ گیا جس کی مشہور نظم ہے کدی تے پیکے جا نی بیگم‘ آوے سکھ دا ساہ نی بیگم۔وہ جب کبھی ملنے آتا تو کہتا میں سبز مرچ لے آیا ہوں کھانا منگوا لو۔ اس کو مرچیں اتنی پسند ہیں کہ شعری مجموعے کا نام ہی مرچیں۔ رکھ لیا بہرحال مرچیں پاکستان میں اتنی ہی مہنگی ہو گئی ہیں جتنا بھارت میں نمک، ادھر نمک کی کوئی قدر نہیں تھی لیکن اب لگتا ہے وہ بھی نوٹس میں آ جائے گا۔ عارف پروہنا یاد آ گیا: آٹا مہنگا تیل وی مہنگا ہن سجنا دا میل وی مہنگا آپ سوشل میڈیا کو خلق خدا کی زبان اور نقارہ خدا سمجھیں۔ کیا آپ کو یہ پوسٹ پڑھ کر لطف نہیں آئے گا کہ حضرات!آپ لکڑیاں اکٹھی کر لیں کیونکہ میں اب گیس کا نوٹس لینے لگا ہوں۔ وزیر اعظم پوسٹ لگانے والے نے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ کپتان جو کہتا ہے وہ کر کے رہتا ہے۔ کیا خاں صاحب سوچتے نہیں ایک سو روپے والی دوا پانچ سو روپے کی ہو چکی ہے اور آپ کے وزیر فرما رہے ہیں کہ دوائیاں اس لئے مہنگی کرنے کی اجازت دی کہ دستیاب ہو جائیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پیٹرول بھی ایسے ہی دستیاب ہوا تھا پھر اب کیا شک ہے کہ ملک مافیاز چلا رہے ہیں اور آپ ان کے چندے پر: اک بات کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے ہر بات پہ رونے کو کہاں سے جگر آئے میں نہیں‘ عوام پوچھتے ہیں کہ جناب!حکومت نے 1400روپے گندم خریدی اور اب مارکیٹ میں 2800 روپے من آٹا بک رہا ہے تو اس کا منافع کون کھا رہا ہے۔ آپ نے رٹ کہاں رکھی ہے۔لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ بی آر ٹی کا معاملہ کیا ہے کہ اللہ اللہ کر کے اس کا افتتاح ہوا ڈیڑھ ماہ کے اندر ہی چار بسیں جل گئیں اور یہ سروس اب بند پڑی ہے۔ اس پر ذمہ داروں کی گفتگو عجیب ہے۔ ان کے بقول ابھی ایک سال اور انتظار کرنا چاہیے تھا کہ 2021ء میں اجرا ہونا تھا۔ کتنی بڑی حماقت کر کے دو سال قبل ہی بسیں منگوا لی تھیں۔کسی کو کوئی سزا یا جرمانہ نہیں ہوا یہ بھی کہیے کہ اپنے ہی تو ہیں جنہیں نوازا گیا۔ ستر ارب کی خطیر رقم کا یہ منصوبہ چلتے ہی بند۔ پنجاب کی اورنج ٹرین کی بندش بھی آپ کی مرہون منت ہے۔ وہاں جواز سبسڈی کا بنا لیا گیا۔ ترقی رکی ہی نہیں دی بلکہ منفی صورت حال ہے۔ لوگوں کو اس سے کیا کہ فلاں کی زمینیں اور فلاں کی جائیدادیں۔ اگر ناجائز ہیں تو پکڑیں۔ عوام کا کچومر کیوں نکالا جا رہا ہے: زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے آپ کام بنیادی کرپشن کو پکڑنا اور احتساب تھا اور اب یہ سب کچھ بھی ایک مذاق بن چکا ہے۔ عدالت جب یہ کہتی ہے کہ یہ سلیکٹڈ احتساب ہے تو بتائیے باقی کیا رہ گیا ۔ یہ گندم اور دوسرے معاملات میں بھی آپ کے سا منے ہیں: وہ جو تیرے قریب ہوتے ہیں بس وہی خوش نصیب ہوتے ہیں بات یوں ہے کہ اب لوگوں کے ذھنوں سے تبدیلی اور انقلاب کا نشہ اتر چکا ہے اب جب انہیں حقیقت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے تو انہیں آٹے دال کا بھائو معلوم ہوا ہے۔ ہیں خواب میں ہنوز جو جاگیں ہیں خواب سے۔ اب تو سرعام پروگرام دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ سب کچھ سرعام نظر آنے لگا ہے۔ کیا بنا موٹر وے کیس کا؟ چلیے چھوڑیے سزا آپ نہیں دے سکتے۔ شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کا