یہ دو کہانیاں ہیں پہلی کہانی 180سال پہلے کے ایک قید ی دروازے کی ہے یہ تب کی بات ہے جب پشاور میں بھی راجہ رنجیت سنگھ کی نوبت بجتی تھی ،سکھوں کی حکومت کا دور دورہ تھا پشتون اس وقت بھی باغی تھے مہمند قبائل کے جانباز اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لے کر سکھاشاہی کے خلاف مسلح جدوجہد کر رہے تھے ،ان حریت پسندوں کا پسندیدہ کام گوریلا کارروائیاں تھا ،رنجیت سنگھ نے پشتون باغیوں پر نظر رکھنے کے لئے پشاور کے قریب دو دریاؤںکے بیچ ایک علاقے میں قلعے کی تعمیر کا فیصلہ کیا ،یہ علاقہ شریف کور کہلاتا تھا جسے آج ہم شب قدر کے نام سے جانتے ہیں ،رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ نے اس زمانے کے مشہور ماہر تعمیرات توتا رام کی خدمات حاصل کیں اور1835ء میں شب قدر کے نسبتا بلند علاقے میں قلعے کی تعمیر کا آغاز کیا جنگی بنیادوں پر کام شروع ہوا اور صرف دو برس میں قلعہ مکمل ہو گیا جسکے بعد یہ علاقہ شنکر گڑھ ہو گیایہاں ایک بلند واچ ٹاور بھی بنایاگیا جہاںسے آس پاس ہونے والی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی تھی یہ قلعہ بہت اہم تھا لیکن مہمند قبائل پھر بھی باز نہ آئے وہ موقع ملتے ہی حملہ کرنے سے نہ چوکتے آخر کار 1840ء میں سعادت خان کی قیادت میں مہمند قبائل نے قلعے پر حملہ کیاا ورقلعہ کا مرکزی دروازہ توڑ کر اندرداخل ہونے میں کامیاب ہوگئے باغیوں کے سامنے جو آیا اسکے کاندھوں سے گردن کا بوجھ اتارتے رہے راجا شیر سنگھ نے پشاور اور مچنئی قلعوں سے فوج کوفورا پہنچنے کا حکم دیا پشتون حملہ آوروں کو علم ہوا تو وہ پلٹ کر نکل گئے ،اس ہزیمت کے بعد راجا شیر سنگھ نے شکست کے اسباب پر غور کرنا شرو ع کیا اور ساتھ ہی اپنے مربی انگریزوں سے رابطہ کرکے ان کی عدالت میں دروازہ ٹوٹنے کامقدمہ بھی کردیا ،جنرل جین ویٹوریا نے مقدمے کی سماعت مقرر کی مدعا سنا اور دوسرے دن ہی دن قلعے کے آرکیٹیکچر توتا رام کے ہاتھ کاٹنے کے احکامات صادر کر دیئے ساتھ ہی ٹوٹ جانے والے دروازے کو بھی سو سال قید کا حکم سنا دیاحکم کی تعمیل ہوئی دروازے کے دونوں کواڑ واچ ٹاور کے ساتھ رکھ کر زنجیر میں جکڑ دیئے گئے ،وقت گزرتا چلا گیا آنے والے وقت میں سکھا شاہی رہی نہ فرنگی راج ہندوستان بھی تقسیم ہو کربھارت اور پاکستان بن گیا شنکر گڑھ بھی شب قدر ہوگیا لیکن قیدی دروازے کی زنجیریں نہ کھلیں،یہ دروازہ آج بھی اسی قلعے میں قید ہے۔ دوسری کہانی اسلام کے قلعے کی ہے اس قلعے کے دو حصے تھے ایک مشرقی حصہ کہلاتا تھا اور دوسرا مغربی ،اس قلعے کے آس پاس اس کے بدترین مخالف بڑی قوت کے ساتھ آباد تھے ،وہ اس قلعے کی تعمیر کے شدید مخالف تھے لیکن یہاں آباد مسلمانوں نے کسی نہ کسی طرح اسے تعمیر کر ہی لیا 1947ء میں بنائے گئے اس قلعے کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیابنانے کو محمد علی جنا ح رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ قلعہ بنا تو لیا لیکن وہ اسے مضبوط نہ بناسکے موت انہیں ہم سے دور لے گئی ، انکے بعد قلعے میں اندر اور باہر سے سازشیں ہونے لگیں ،ہندوستان کو’’ ہندوستھان‘‘ بنانے کے خبط میں مبتلا بھارتی نیتااس قلعے کے قیام سے پہلے ہی اس کے خلاف سازشیں شروع کر چکے تھے یہ بنا تو بھی ان کی سازشیں ختم نہ ہوئیں ،بھارتی انٹیلی جنس ادارے ’’را‘‘ کے سابق افسرآر کے یادیو اپنی کتاب (Mission R and AW) میں انکشاف کرتا ہے کہ اندرا گاندھی نے 67ء میں آئی بی کے سینئر افسرآر این کاؤکے ساتھ مل کر ایک خفیہ منصوبہ بنایاتھا جس کا مقصدمشرقی پاکستان،بلوچستان اور این ڈبلیو ایف پی یعنی آج کے خیبر پختونخواہ میں بغاوت کے جذبات بھڑکانا اور ان علاقوں کو علیحدہ ریاست میں تبدیل کرنا تھا،بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے آکسفورڈ پریس سے شائع ہونے والی مجیب الرحمان کی یاداشتوں پر مشتمل کتاب میں تسلیم کیا ہے کہ بھارتی انٹیلی جنس ادارے ’’را‘‘ نے پاکستان کوپانچ ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے لئے چھ نکاتی ایجنڈا تیار کیا تھا،دشمن یہ سازشیں کرتا رہا بنگالیوں کے ساتھ ریاست کا سلوک سچ میں منصفانہ نہ تھا لیکن ایسا بھی نہ تھا کہ جوبتلایا جاتا ہے بھارت نے اپنی پراپیگنڈہ مشینری سے بنگالیوں کو ریاست سے متنفر کرنا شروع کردیا’’را‘‘ کے سابق چیف بی رامن نے 2012ء میں ایک مضمون (Role of RAW in Liberation of Bangladesh) میں بنگلہ دیش کے قیام کے حوالے سے لکھا ہے کہ مشرقی پاکستان جانے والے ایجنٹوں کوپانچ ذمہ داریاں سونپی جاتی تھیںجن میں ایک بنگالی افسران کو اپنے دام میں پھنسانااور بنگالیوں پر ظلم و ستم کی جھوٹی خبریں پھیلا کربنگالی عوام کو افواج پاکستان اورحکومت کے خلاف بھڑکانا تھا،ان پر بھارت نے خوب کام کیاجھوٹی سچی خبریں پھیلائیں رائی کا پہاڑ بنایا اس میں سچ یہ ہے کہ ہماری غافل ،لالچی ،غیر ذمہ دارفسر شاہی اور قیادت انہیں یہ رائی اس وقت تک فراہم کرتی رہی جب تک مجیب الرحمان بنگلہ دیش بناکرخود بنگلہ بندھو نہ گیا۔ میرے سامنے دونوں ’’قلعوں ‘‘ کی کہانیاں ہیں ، شنکر گڑھ کے قلعے کا دروازہ ٹوٹا تو شیر سنگھ نے وجوہات کا تعین کرایاآرکیٹکچر کے ہاتھ کاٹے اور دروازے کے دونوں کواڑ اٹھا کر واچ ٹاور کے ساتھ زنجیروں سے باندھ دیئے اور ایک قلعہ اپنے مشرقی مغربی پاکستان پرمشتمل پورا پاکستان تھا جسے آدھا کردیا گیالیکن ہم نے کیا کیا،ہم نے اس شکست کے اسباب تلاش کئے ؟اپنی صفوں میں موجود دشمن کے ایجنٹوں تک پہنچے؟ آستین کے سانپوں کو باہر نکالا؟ اس وقت کی بدمست مقتدر شخصیات کو کسی کٹہرے میں لائے آخرہم نے کچھ سیکھا۔۔۔’’را‘‘ کے پہلے چیف ناتھ کاؤکا پاکستان سے متعلق منصوبے پر آج بھی کام ہورہا ہے کل بھوشن یادھو کی گرفتاری کے بعد اس میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتاسفارتی محاذپر ہمارے دوستوں کو دور کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، ایف اے ٹی ایف کی تلوارہمارے سر پر لٹک رہی ہے ،قرضوں کی منوں وزنی گھٹڑی الگ ہماری گردن توڑنے کو ہے اور ہماری اشرافیہ سب سے بے نیاز ’’میوزیکل چیئر‘‘ کھیلنے میں محو ہے بھانت بھانت کی بولیاں بولیں جارہی ہیں اس پر ماتم کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے کہ ہماری قیادت کے متمنی لوگوں میںایاز صادق صاحب جیسے ذی شعور بھی موجود ہیں جوآپس کی لڑائی میں مملکت کے وقار پر کھیل جاتے ہیں پارلیمان میں بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو بھارتی حملے کے ڈر سے چھوڑنے کی درفتنی چھوڑتے ہیں تو دوسری جانب جلسوں جلوسوں میںہونے والی زبان تو دیکھئے گرمی ء بازار اکہتر میں قلعہ ٹوٹنے کی یاد دلادیتی ہے کاش ہم میں کوئی شیر سنگھ بھی ہوتا !