ترکی کے صوفی شاعر یونس ایمرے جب جج کا عالیشان منصب چھوڑ کر نالیحان کے بزرگ شیخ تاپتک ایمرے کی درگاہ سے وابستہ ہوئے تو قونیہ کے اعلیٰ مدارس سے تعلیمی مدارج طے کرنے والے نوجوان کو تصوف و سلوک کی منازل اور علمی و روحانی اسرار و رموز سے روشناس کرانے کے لئے شیخ وقت کی طرف سے مختلف فرائض تفویض ہوئے جن میں سے ایک یہ تھا کہ وہ ہر سوال کے جواب میں ’’میں نہیں جانتا‘‘ کی گردان کریں گے‘ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جج کے منصب سے سبکدوش ہونے والا نوجوان ہر بات کے جواب میں ’’میں نہیں جانتا‘‘ کی گردان کرتے کرتے علم و فضل اور تصوف و سلوک کے اس مقام پر پہنچا کہ ترک تاریخ میں اسے مولانا جلال الدین رومی کے ہم پلّہ گردانا جاتا ہے‘ صوفیا نے علم کو حجاب اکبر اس بنا پر قرار دیا کہ بسا اوقات یہ انسان کو کبرو غرور اور خودپرستی کے مرض میں مبتلا کرتا اور دوسروں سے سیکھنے کی راہ بند کر دیتا ہے‘ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ کا مشہور قول ہے کہ میں نے بغداد کے کُتوں سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے اور امام رازی سے جب ان کی علمی فضیلت کا سبب معلوم کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو یقین دلایا ’’میں نہیں جانتا‘‘۔ موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے اڑھائی سال ہو گئے اور اب ناقدین اڑھائی سالہ کارگزاری کی بنا پر گزشتہ ایام کے نفع و نقصان کے گوشوارے مرتب کر کے اگلے اڑھائی سال کے تخمینے لگا رہے ہیں‘ جو ان کا حق ہے۔ دوستوں کی محفل میں موجودہ حکومت کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا ذکر چھڑے تو اڑھائی سال بعد یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی کہ یہ سب سابقہ حکمرانوں کا کیا دھرا ہے یا خان کو ٹیم اچھی نہیںملی اور ان سے بیورو کریسی کے علاوہ دیگر ریاستی ادارے تعاون نہیں کر رہے۔ لوگ جائز طور پر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ سابقہ حکومتوں کا گند صاف کرنے کے لئے ہی تو عوام نے مینڈیٹ دیا‘ ریاستی اداروں نے مدد کی‘ ٹیم کا انتخاب خان نے خود کیا اور بیورو کریسی کے اڑیل گھوڑے کو سدھانا بھی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری تو اسے قائل کرنے سے رہے‘ بہت سے شعبوں میں موجودہ حکومت بہتری لائی ہے معاشی اشاریے مثبت ہیں اور خارجہ محاذ پر بھی صورت حال مایوس کن نہیں مگر دو وقت کی روٹی کے لئے پریشان مفلوک الحال عوام کو ان پر غور کرنے کی فرصت نہ یہ معاشی اشاریے اور خارجہ فتوحات پیٹ کا دوزخ بجھانے میں مددگار۔رسول خدا ﷺ نے غربت و افلاس کو ایک ایسی بدی قرار دیا جو انسان کو کفر کی طرف دھکیل دیتی ہے کا’’الفقران یکون کفراً‘ ‘مایوسی گناہ ہے مگر حکمرانوں کے بارے میں خوش گمانی کی کوئی حد ہوتی ہے اور اس سے پیٹ بھی نہیں بھرتا‘ ناقص ٹیم کو برقرار رکھنے پر اصرار‘ بیورو کریسی میں مسلسل تبدیلیوں کے باوجود کارگزاری میں جمود اور ایک قدم آگے دو قدم پیچھے کی روش پر غور کریں تو ناکامی اور جمود کے ڈانڈے عمران خان کی طرف سے اڑھائی سال سے مسلسل ’’مجھے سب پتہ ہے‘‘ ’’جتنا میں جانتا ہوں کوئی نہیں جانتا‘‘کی گردان سے ملتے ہیں‘ کوئی ایسا موضوع نہیں جس پر گفتگو کے دوران خان صاحب یہ کہنا بھول جائیں کہ ’’مجھے سب پتہ ہے‘‘ امریکہ و یورپ کو وہ سب سے زیادہ جانتے ہیں حالانکہ جتنا عرصہ وہ بیرون ملک مقیم رہے کھلاڑیوں‘ شبانہ مجلسوں میں شریک لاابالی نوجوانوں اور اپنے مداحوں سے ان کا واسطہ رہا‘ کسی یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے نہ کسی سیاسی و علمی سرگرمی میں شریک اور نہ مختلف علوم و فنون کے ماہرین سے ربط ضبط‘ کھیل کا میدان چھوڑ کر سماجی شعبہ منتخب کیا تو مخیر حضرات میں گھرے رہے یا نامور کھلاڑی اور نیک نام سماجی کارکن سے ہاتھ ملانے اور آٹو گراف لینے والوںکے نرغے میں‘ مجھے علم ہے کہ کچھ دوست انہیں ڈاکٹر اسرار احمد‘ علامہ جاوید غامدی‘ اشفاق احمد ‘ پروفیسر احمد رفیق اختر اور ایسے ہی دیگر اہل علم کے پاس لے کر گئے اور بذات خود انہوں نے حضرت علامہؒ کا مقدور بھر مطالعہ کیا مگر اس زادراہ کے ساتھ ’’مجھے سب پتہ ہے‘‘ ’’میں سب جانتا ہوں‘‘ کا دعویٰ کسی ایسے شخص کوجچتا نہیں جو بائیس کروڑ آبادی‘ نیوکلیر ریاست کا وزیر اعظم اور جس کے ہم نفس و ہم نوا دست و بازو بلکہ آنکھ کان ناک زلفی بخاری ‘ عون چودھری‘ عمران اسماعیل‘ فیصل واوڈا ٹائپ لوگ ہیں یا پھر پنجاب و خیبر پختونخوا کے اقتدار پر فائز وہ عجوبے جو اڑھائی سال میں تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت اور خان کی امانت و دیانت کا اثاثہ بری طرح لٹانے کے سوا کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔ ’’مجھے سب پتہ ہے‘‘ اور ’’میں سب کچھ جانتا ہوں‘‘ محض باطل دعویٰ نہیں‘ کسی بات کی تہہ تک پہنچنے‘ درست فیصلہ کرنے اور صحیح معلومات لینے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے‘ جب ریاستی اداروں‘ خفیہ ایجنسیوں اور دیانتدار سرکاری اہلکاروں کو ’’اندازہ ہے کہ‘‘ ’’مجھے سب پتہ ہے‘‘ کے روبرو صائب مشورہ‘ درست معلومات اور کسی نااہل و نالائق عہدیدارکی شکایت بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے تو بھلا کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنا وقت ضائع کرے اور ظل سبحانی کی ناراضگی مول لے ع تم بھی چلے چلو یوں ہی جب تک چلی چلے جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں دس سالہ حکمرانی کا ریکارڈ قائم کیا‘مخالفین نے اسے وردی کا کرشمہ قرار دیا حالانکہ باوردی حکمران جنرل یحییٰ خان اور جنرل پرویز مشرف بھی تھے مگر ایک اڑھائی اور دوسرا ساڑھے سات سال میں اقتدار کی بازی ہار گیا‘ تعصب اور عناد سے قطع نظر ضیاء الحق کی طویل حکمرانی کا اہم ترین سبب وسیع حلقہ مشاورت‘ دوسروں سے جاننے اور سیکھنے کی صلاحیت اور سرکاری مشیروں و اہلکاروں کے علاوہ دانشوروں‘ صحافیوں‘ اساتذہ اور دیگر اہل علم سے روابط اور وقتاً فوقتاً معلومات کا حصول تھا‘ کوئی بھی حکمران علماء و دانشوروں کی صحبت اور ماہرین فن کی مفید رہنمائی کے بغیر کامران ہو سکتا ہے نہ بیورو کریسی پر حاوی‘ مگر یہ علم و احساس اس شخص کو ہو سکتا ہے جو نہیں جانتا اور جاننے کی خواہش سے مغلوب ہے‘ عمران خان کی نیت پر شک ہے نہ خلوص پر شبہ اور نہ پاکستان کو قرار واقعی اقبالؒ و قائدؒ کے وژن کے مطابق ایک جدید اسلامی‘ فلاحی ‘ جمہوری ریاست مدینہ بنانے کے عزم سے انکار‘ مگر اڑھائی سالہ جدوجہد اگر کارگر نہیں اور قدم قدم پر رکاوٹیں حائل ہیں تو ان سے عہدہ برا ہونے کے لئے ناقص ٹیم میں تبدیلی اور حلقہ مشاورت میں وسعت لازم ہے’’میں نہیں جانتا‘‘ کا ورد ہی کامرانی کے راستوں کشادہ کر سکتا ہے مگر ہر فن مولا‘ دانا و بینا حکمران کو یہ بتائے کون؟ فارسی میں کہتے ہیں : آں کس بداند و بداند کہ نداند اسپ طربہ خویش بہ افلاک جہاند آں کس کہ نداند و بداند کہ نداند آں نیز خر خویش بمنزل برساند وآں کس کہ نداند و بداند کہ بداند در جہل مرکب ابدالدھر بماند (وہ شخص جو علم رکھتا ہے مگر اپنے بارے میں یہ سمجھتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا وہ اپنی کامیابی و کامرانی کا تیز رفتار گھوڑا افلاک کی بلندیوں پر لے جاتا ہے‘ وہ شخص جو زیادہ علم نہیں رکھتا مگر اسے اپنے بارے میں یہ ادراک ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا اس کا کم رفتار گدھا بھی آہستہ آہستہ اپنی منزل پر پہنچ جائے گا مگر وہ شخص جو کچھ نہیں جانتا مگر اپنے بارے میں اس خوش گمانی کا شکار ہے کہ وہ ’’سب کچھ جانتا ہے‘‘ ایسا شخص ہمیشہ جہالت کا مجسمہ بنا رہے گا۔