وزیراعظم عمران خان نے اقتدار کی مسند پر فائز ہونے سے قبل ملکی نظام میں اصلاحات اور معاشی خوشحالی کے ہزاروں اعلانات کئے ۔ امیر اور غریب کیلئے ایک قانون نافذکرنے کاسینکڑوں مرتبہ وعدہ بھی کیا گیا۔اقتدار سنبھالنے کے بعدتو وعدوں اور نعروں نے مزید شدت اختیار کرلی ۔عمران خان نے بطور وزیراعظم ہر خطاب میں آئین وقانون کی پاسدار ی اور انصاف کی فراہمی کا بھرپور ذکر کیا۔ وزیراعظم نے پوری قوم کو باورکروایا کہ وہ قومیں تباہ ہوگئیں جنہوں نے امیر اور غریب کیلئے الگ قانون بنارکھے تھے ۔ احتساب اور تبدیلی کا عمل حکومت بننے کے پہلے 6 ماہ میں مکمل کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا۔بااثر شخصیات کوقرض کی معافی نہیں ملے گی۔پہلے 6 ماہ میں 6 ہزار ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا جائے گا۔ ٹیکس چوری اور سرکاری وسائل میں خردبرد کا خاتمہ ہوگاجس سے عام آدمی کو فائدہ ہوگا۔مہنگائی میں کمی اور روپے کی قدر میں استحکام لایاجائے گا۔بجلی کے نرخ کم کئے جائیں گے۔50 لاکھ گھر تعمیر کرنے کیساتھ 1کروڑافراد کو نوکریاں فراہم کریں گے۔وزیراعظم ہاؤس‘ایوان صدر‘گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاؤسز کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کردیں گے۔پروٹوکول کلچر کا خاتمہ ہوگا اور تمام وزرائے عام آدمی کی طرح سفر کریں گے۔نئے پاکستان کے قیام کا خواب آنکھوں میںسجائے عوام منتظر تھے کہ وعدے اور نعرے پورے ہونے کا وقت شاید قریب آن پہنچا ہے مگر وزیراعظم نے 3مارچ کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کرکے پوری قوم کو حیران کردیا۔وزیراعظم عمران خان اور اُنکی ٹیم ساڑھے تین سالو ں کے دوران عوام سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری میں کس حد تک کامیاب رہی ‘حقائق کی روشنی میں یہ جائزہ لینا ضروری ہے۔عمران خان نے قرضے معاف کروانے والوں کے خلاف ہمیشہ سخت موقف اختیار کئے رکھا مگر جب خود ایوان اقتدار میں پہنچے تو زرعی ترقیاتی بنک سمیت چار بینکوں کی جانب سے بااثرشخصیات اور کمپنیوں کو 1ارب 24کروڑ روپے معاف کرنے پر خاموشی اختیار کرلی۔وزارت خزانہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بااثر شخصیات نے سرکاری اور نجی بینکوں سے بھاری قرض معاف کروایا ۔یہی نہیں بلکہ سرکاری بینک سے قرض معاف میں قواعد کی دھجیاں بھی بکھیری گئی ہیں مگر وزیراعظم خاموش رہے۔وزیراعظم نے رپورٹ طلب ضرور کی مگر جب پتہ چلا یہ بااثر شخصیات کے قرضے معاف کئے گئے ہیں توپھریہ معاملہ سردخانے کی نذرکرنے میں ہی عافیت سمجھی۔وزارت داخلہ کی جانب سے ایک رپورٹ وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کی گئی جس میں انکشاف کیا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں وزیراعظم ‘وزرائے اعلیٰ ‘وفاقی وصوبائی وزرائ‘مشیران اور سرکاری افسران کی سیکورٹی اور پروٹوکول پر سالانہ 7ارب روپے سے زائد رقم قومی خزانے سے خرچ کررہی ہیں جس میں سے 4ارب روپے وفاقی ‘پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی جانب سے خرچ کئے جارہے ہیں۔وزیراعظم نے رپورٹ پڑھنے کے بعد اپنے دائیں بائیں نظردوڑائی۔ تمام ارکان کی خاموشی کے بعد وزیراعظم نے اس معاملے پر مٹی ڈال دی۔ وفاقی حکومت کے ماتحت سرکاری کمپنیوں اور کارپوریشنز میں بیڈ گورننس‘اقرباپروری اور بدعنوانی کے باعث سالانہ 500ارب روپے نقصان ہورہا ہے۔ وزیراعظم نے وعدہ کیاتھاکہ ان کمپنیوں کو گڈگورننس اور نئے بزنس ماڈل کے ذریعے خسار ے سے منافع میں تبدیل کریں گے مگر منافع میں منتقلی تو درکنا ر 2ہزار ارب روپے کا خسارہ مزید ضرور بڑھ گیا۔ یہ رقم غریب عوام کی تقدیر بدل سکتی تھی مگر مذموم مقاصد کے تحت سرکاری کمپنیوںکے نقصان سے پرائیویٹ کمپنیوں اور افسرشاہی کی تقدیر بدلتی رہی۔ وفاقی حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 500ارب روپے سالانہ سے زائد خسارے سے دوچار سرکاری کمپنیوں کا گذشتہ 10سالوں کا فرانزک آڈٹ کرنے کا فیصلہ کیا ۔پہلے مرحلے میں پاکستان ریلوے،پی آئی اے،سوئی سدرن،پشاور الیکٹر ک سپلائی کمپنی اور ناردرن پاور جنریشن کمپنی کا فرانزک آڈٹ ہونا تھا مگر آج تک یہ آڈٹ مکمل نہیں ہوسکا۔وزیراعظم عمران خا ن نے حکومت کو درپیش چیلنجز اور عوام کی مشکلات حل کرنے کیلئے ماہر افراد پر مشتمل کئی کمیٹیاں اور ٹاسک فورسز قائم کیں۔ان کمیٹیوں کو بحرانوں سے نمٹنے کیساتھ آئندہ 10برس تک پلان پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔ کمیٹیوں اور ٹاسک فورسز کے کئی اجلاس منعقد ہوچکے مگرعوام کی مشکلات اور حکومت کودرپیش چیلنجز ختم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتے رہے۔ٹاسک فورس میں شامل ہونے والے افراد‘ وزیراعظم اور قوم کی امنگوں پر تاحال پورا نہیں اترے مگر اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز ہونے میں ضرور کامیاب ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم نے مستقبل میں گندم بحران سے نمٹنے کیلئے بھی وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی سید فخر امام کوآئندہ 10سال کیلئے خصوصی ٹاسک سونپا۔ مستقبل تو دور کی بات ‘ـحال میں جاری گندم اورآٹا کی بے قابو قیمتیں ہی کنٹرول میں نہیں آسکیں۔اشیائے خورونو ش اور بلڈنگ میٹریل سمیت کوئی بھی ایسی چیز نہیں جس کی قیمت دوگنا سے زائد نہ ہوئی ہو۔اصلاحات کا بیڑا اٹھائے ڈاکٹر عشرت حسین نے اربوں روپے خسارے سے دوچار پاکستان ریلوے کی بحالی اور ری سٹرکچرنگ کا 42 صفحات پر مشتمل پلان جمع کروایاتھا۔ریلوے کی وجوہات دیگر سرکاری کارپوریشنز کے خسارے کے محرکات کی نشاندہی بھی کی گئی تھی۔پنشن اخراجات میں کمی‘سبسڈی کا خاتمہ‘وزارت ریلوے کے حکام کو ریلوے میں روزانہ کی بنیاد پرمداخلت سے روکنے کی تجویز دی گئی تھی مگر مجال ہے کہ ایک تجویز پر بھی عمل کیا گیا ہو۔ یوں پاکستان ریلوے کا اربوں روپے سالانہ خسارے کو سفر بدستور جاری ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا سب سے بڑا منصوبہ احساس صحت کارڈ تھا۔ وزیراعظم اور اُنکی ٹیم اس منصوبے پر شادیانے بجاتے کبھی تھکتے نہ تھے۔ اس منصوبے کی حالت یہ ہے کہ سرکاری اور نجی ہسپتالوں نے احساس صحت کارڈ کے ذریعے مفت علاج کی سہولت بند کردی ہے کیونکہ وفاقی حکومت ہسپتالوں کو اربوں روپے ادا کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ عوامی پذیرائی حاصل کرنے کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مسلسل برقرار رکھی جارہی ہیں تودوسری جانب آئل کمپنیوںکی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے کی مالی سکت ختم ہوتی جارہی ہے۔ و زیراعظم کے ماضی کے نعروں اور الزامات کے برعکس ڈالر185روپے کی حد سے بھی تجاویز کرچکا ہے۔ بدترین بحران سراُٹھانے کے قریب ہے مگروہ’’ میں نہ مانوں‘‘کاایک ہی نعرہ لگانے میں مصروف ہیں۔ وہ آئے نگار میں نہ مانوں آجائے قرار میں نہ مانوں