میں سینما میں فلم کے دوران ایک کال سن لوں یا میسج پڑھنا شروع کر دوں تو فلم کا مزا ہی جاتا رہتا ہے کیونکہ میرا ذہن ان کالز اور پیغامات کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے ہالی ووڈ کی فلموں میں البتہ یہ چارم ضرور موجود ہے کہ وہ مختصر ہوتی ہیں مگر جب ان فلموں کے بھی ٹریلر اور کلپ فیس بک پر دیکھے جا چکے ہوں تو پھر بڑی سکرین کا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے۔ یہ بہت مشکل ہے کہ آپ لوگوں کو یہ سمجھا سکیں یہ جو آپ فلموں کے کلپ بھیجتے ہیں ان سے فلم دیکھنے کا اشتیاق ہی ختم ہو جاتا ہے۔ میں سینما میں جا کر فلموں کے ٹریلر دیکھنے کا عادی ہوں اور بڑی سکرین پر ٹریلر دیکھ کر یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ مجھے کون سی فلم یہاں دوبارہ آ کر دیکھنی ہے۔ مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کسی فلم کی سوشل میڈیا پر کیا ریٹنگ آئی ہے؟ موبائل کس طرح ہماری زندگی پر حاوی ہوتا جا رہا ہے افسوسناک امر تو یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس ہے نا ہی ہم اس کے سدباب کے لیے کوئی اقدام کر رہے ہیں۔ خوب ! مگر میں ایسا نہیں کر سکتا۔ میں سبزی پسند نہیں کرتا مجھے کھانا کھانے کے طور طریقے بھی نہیں آتے کہ ٹیکنالوجی میری مدد کرے ‘ناکہ میری زندگی پر ہی قبضہ کر بیٹھے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا موبائل میرا تعلق پوری دنیا سے جوڑے ناکہ مجھے میرے اپنوں سے ہی دور کر دے۔ میں چاہتا ہوں کہ تعطیلات میں میرے بچے چھٹیاں گزارنے تفریحی مقامات پر جائیں مگر میں نہیں چاہوں گا فیس بک پر لائک کیا جائے ۔میں یہ بھی نہیں چاہوں گا کہ دوسرے مجھے صحت کے حوالے سے اور دیگر نصیحتوں سے بھرے پیغامات بھیجے جائیں جن کی میرے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں۔ میں کیاچاہتا ہوں! میں فلمیں دیکھنا‘ ڈاکومینٹریز بنانا‘ کتابیں پڑھنا چاہتا ہوں۔ اچھی موسیقی سے محظوظ ہونا چاہتا ہوں کسے خبر کل ہونا ہو! یہ محض ایک مضمون نہیں بلکہ میں واقعی چاہتا ہوں کہ ہم اپنی زندگیوں سے کچھ وقت اپنے لیے نکالیں چاہے وہ صرف ایک گھنٹہ ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوگی اگر آپ کو آج یہ یاد ہو کہ ہم وقت کا اندازہ کس طرح لگایا کرتے تھے یا پھر صحرا یا پھر پہاڑی علاقوں میں کس طرح ستاروں کو دیکھ کر راستہ تلاش کرتے تھے۔ آج یہ سب کچھ ختم ہو گیا آج تو ہر کسی کے سمارٹ فون میں جی پی آر ایس ہے جو راستہ بتاتا ہے جس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ جلد گھر پہنچ جائیں مگر آج آپ کو ستاروں کو دیکھنے اور قدرت کے حسین مناظر سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کی عیاشی میسر نہیں کس قدر افسوس ناک چیز ہے۔ اب میں زندگی کے آسان سے فارمولے پر عمل کروں گا اب جب مجھے کوئی میسج آئے گا تو میں پہلے اپنی گھڑی پر ٹائم دیکھوں گا کہ اس میسج کو پڑھنے میں مجھے کتنا وقت لگا ۔فرض کریں مجھے کسی نے کوئی لطیفہ بھیجا ہے اور اس کو پڑھنے میں میرے دو منٹ صرف ہوئے اب اس میسج کو اپنے دوسرے دوستوں کو میسج کرنے میں میرے پانچ منٹ لگے جو لوگ مجھ سے منسلک ہیں وہ لوگ ان پیغامات کو پڑھیں گے کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہم ایسا کر کے کتنا وقت ضائع کرتے ہیں۔؟ اب ہمیں یہ بھی اعتراف کرنا ہو گا۔ فرض کریں وصول ہونے والا لطیفہ واقعی مزاحیہ ہے مگر میسج فارورڈ کرنے کے اگر پیسے لگتے ہوں تو پھر ہم کسی بھی میسج کو فارورڈ کرنے سے پہلے دوبار ضرور سوچیں گے۔اور اگر فارورڈ کرنا مقصود بھی ہو تب بھی یہ میسج چند ایک دوستوں کو ہی فارورڈ کریں گے۔ صرف ان لوگوں کو جن کے بارے میں ہمیں یقین ہو گاکہ وہ اس پیغام سے خوش ہوں وٹس ایپ کے مفت استعمال کی بھی قیمت ہم اپنے وقت کی صورت میں ادا کرتے ہیں یہاں تک کہ جب ہم مفت میں فون کالز بھی کرتے ہیں تب بھی یقین جانئے مفت میں کچھ بھی نہیں کر رہے ہوتے۔ میرے لیے میری زندگی بہت اہم ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میرے اردگرد ایپلی کیشنز بھی بیش قیمت ہوں۔اس لیے آپ جب میری یہ تحریر پڑھیں اس سے ٹھیک 24گھنٹے بعد میں اپنی زندگی کا آغاز کر چکا ہوں گامیں اس کے بعد سوشل میڈیا پر میسر نہیں ہونگا ماسوائے ٹوئٹر کے جسے میں پوری دنیا میں پیغام رسانی کے لیے استعمال کرتا رہوں گا۔ اس کے علاوہ میں اپنے فون پر الرٹ بھی بند کرنے جا رہا ہوں اس بات کا فیصلہ تو بعد میں ہو گا کہ میں کیا واقعی سمارٹ فون سے جان چھڑوا پائوں گا یا پھر میں اپنی سابقہ زندگی میں لوٹ آتا ہوں اور خود کو سوشل میڈیا کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنی زندگی جینا چھوڑ دیتا ہوں۔ ممکن ہے کہ یہ آپ کے لیے بھی ایک دقت ہو کہ آپ یہ فیصلہ کریں۔آپ اپنی زندگی خود جینا چاہتے ہیں یا پھر اپنی بیش قیمت زندگی کو ناقابل فہم ایپلی کیشنز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں اور یہ فیصلہ بھی ایپلی کیشنز کریں گے کہ آپ نے آج کس طرف جانا ہے کیا فیصلہ کرنا ہے میں تو اپنا فیصلہ خود کروں گا اور لارنس گارڈن میں جائوں گا کیونکہ میں نے خود کو جعلی سوشل میڈیا کے چنگل سے آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا آپ بھی ایسا کر پاتے ہیں کہ نہیں؟ (ختم شد)