میں سمجھتا تھا کہ پاکستان میں رہ کر حالات آپ کے سامنے ہوں اور خبریں آپ تک پہنچتی رہیں تو مستقل بلند فشار خون کا سامنا کرنا آپ کا مقدر ہے ،لیکن مجھے نہیں اندازہ تھا کہ وطن سے دور رہ کر بری خبریں سننے سے دل زیادہ تیزی سے دھڑکنا شروع کردیتا ہے۔ ہم برمنگھم جو امریکی ریاست الاباما کا ایک خوب صورت شہر ہے ،پہنچے ہی تھے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ، عوامی رد عمل، وزیر اعظم کا خطاب۔ تاحال آخری اور بہت المناک اطلاع یہ کہ نامور عالم دین مولانا سمیع الحق صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ شہید ہوگئے۔پاکستان کے مذہبی اور علمی حلقوں میں اس حادثے کے اثرات تا دیر رہیں گے ۔ ان کے رخصت ہوجانے سے نقصان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت اور ادارے فغانستان اور طالبان میں ان کے غیر معمولی اثر رسوخ کا جو فائدہ اٹھالیا کرتے تھے اس سے محروم ہوجائیں گے۔ واقعات اتنی تیزی سے رونما ہورہے ہیں کہ ابھی ایک بات پر صدمے کے شاک سے نہیں نکلے ہوتے کہ دوسرا آلیتا ہے اور بسا اوقات پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ۔پاکستانی چینلز پر مکمل سکوت طاری تھا چنانچہ افواہوں کا راستہ ہموار ہوتا رہا اورواہمے بھی ان افواہوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنے لگے۔ مجھے نہیں معلوم اتنی جلدی وزیر اعظم عمران خان کو اس حساس مسئلے پر قوم سے خطاب کا مشورہ کس نے دیا۔اور وہ بھی تحریری نہیں زبانی خطاب۔بہرحال جس نے بھی یہ مشورہ دیا وہ عقل مند اورخیر خواہ نہیں۔اور اگر یہ خود عمران خان کا فیصلہ تھا تو یہ ان کی عجلت پسند طبیعت کو ظاہر کرتا ہے۔اس حساس معاملے پر بہت فہم و فراست اور نرم خوئی کا مظاہرہ ہونا چاہیے تھاجہاں مذہبی جذبات بھڑکے ہوئے ہیں اور جو ملک کو ایک نئے امتحان ایک نئی لڑائی میں جھونک سکتا ہے ۔اور جس کا اپوزیشن بہت فائدہ اٹھا سکتی ہے۔اصولی طور پر یہ فیصلہ درست ہے یا غلط اور حکومت کا اصولی مؤقف ٹھیک ہے یا نادرست۔اس سے بحث نہیں۔بحث اس سے ہے کہ ریاست کو اس گرداب سے نکلنے اور نمٹنے کے لیے کیا محتاط طریقہ کار اپنانا چاہیے تھا اور کیا اس نے وہ اپنایا؟ایسے معاملات کو بہت ٹھنڈے دل و دماغ مشاورت اور مدبرانہ حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔طاقت کا استعمال تو آخری ہتھیار ہے جو کوئی اور راستہ نہ بچنے کی صورت میں اختیار کیا جاتا ہے۔یہ ہتھیار دو دھاری تلوار ہے، پہلے ہی مرحلے میں اختیار کرنا نا تجربہ کاری کی علامت ہے۔ وزیر اعظم تو چین کے سفر پر روانہ ہوگئے لیکن ملک میں جو مسافر جس شہر میں پھنسا ہوا تھا وہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا تو لوگ اپنے ٹھکانوں تک پہنچتے اور کاروبار زندگی اپنے معمول پر آتا اور یہ سب ہو تو ہمارا بلند فشارِ خون بھی نیچے کا سفر شروع کرے کیوں کہ اس وقت تو ساری نظریں اپنے دور دراز گھروں پر جمی ہوئی ہیں۔ اور دل وہیں پڑا ہوا ہے ۔ ٭٭٭٭٭ کلیو لینڈ سے شکاگو پہنچتے ہی ہمیں اندازہ ہوگیا کہ سردی کا جو موسم یہاں اب دستک دے رہا ہے اس کے اولیں تھپیڑے ہمارے حصے میں بھی آئیں گے۔ ہڈیوں کا گودا جما دینے والی سردی تو ابھی کچھ فاصلے پر ہے لیکن وہ اپنا رنگ جمانا شروع کرچکی ہے ۔شکاگو امریکہ بلکہ اب دنیا بھر کے بڑے شہروں کی طرح مرکزی شہر ((downtown Chicagoاور مضافاتی بستیوں میں منقسم ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ڈاؤن ٹاؤن شکاگو جو دریائے شکاگو اور مشی گن جھیل کے سنگم پر واقع ہے، اس قدر خوبصورت ہے کہ کسی اور شہر کا ایسا حسین مرکزی حصہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ پرہجوم ہونے کے باجود نہایت منظم اور صاف ستھری سڑکیں۔گنجان ہونے کے باوجود درختوں، پھولوں اور سبزے کی فراوانی اور قدرتی حسن کے تہذیبی حسن کے ساتھ ملاپ نے شکاگو کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ادھر خزاں نے جیسے بہار کو آگ لگا دی ہے ۔ ہر درخت ایک ایسا لباس اوڑھے کھڑا ہے کہ جی چاہتا ہے اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہیے ۔ ہرے پتے نارنجی اور گلابی رنگ پہن رہے ہیں اور آتشی گھرانے کا ہر فرد راہوں اور سبزہ زاروں میں آکھڑا ہوا ہے ۔ ہمارے اصل میزبانوں نے تو مہمان نوازی کی ہی تھی لیکن نا انصافی ہوگی اگر ہمدم دیرینہ جناب ریاض الحق اور ان کی بیگم کا بھی شکریہ ادا نہ کیا جائے کہ انہوں نے شکاگو کے اہم علاقے اس طرح دکھائے کہ تشنگی باقی نہ رہی ۔ اسی طرح عظمیٰ کامران اور کامران صاحب نے اس طرح دوستی کا حق ادا کیاکہ جن جگہوں کا ذکر سنا اور پڑھا کرتے تھے انہیں عینی شاہد اور عینی گواہ کے طور پران کے ذریعے دیکھا ،برتا اور چکھا۔ثبوت کے طور پر موبائل میں اور اس سے زیادہ دل میں تصویریں محفوظ کیں۔ یہ دوست سدا سرسبز و شاداب رہیں کہ انہوں نے مصروفیت کے باجود اپنا کافی وقت ہمارے لیے نکالا۔ مشی گن جھیل سمندر زیادہ اور جھیل کم لگتی ہے ۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ شمالی امریکہ کی پانچ بڑی جھیلیںبحر اوقیانوس سے جڑی ہونے کے باعث اپنے شہروں کو بڑا تجارتی فائدہ پہنچاتی ہیں ۔مشی گن جھیل ان میں سے ایک بڑی جھیل ہے۔یہاں امارت کی ایک نشانی ذاتی بجرہ اور ذاتی لانچ ہے جو جتنا زیادہ مالدا ر اتنی ہی پر سہولت کشتی یا لانچ اس کی ملکیت ہے۔ڈاؤن ٹاؤن شکاگو میں گولڈ کوسٹ روڈ، پلانیٹیریم ، نیول انکوریج وغیرہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں ، خاص طور پر شکاگو کی سکائی لائن کا منظر نہایت خوب صورت ہے ۔ ڈیون سٹریٹ (Devon street)جسے ہمارے دیسی دیوان سٹریٹ بھی کہتے ہیں ہم برصغیر کے رہنے والوں کے لیے شکاگو کی جان ہے ۔ پاکستانی ، ہندوستانی اور بنگالی برادریاں یہاں اپنے اپنے کاروبار جمائے بیٹھی ہیں اور ہر دیسی چیز یہاں دستیاب ہے ، بسا اوقات وہ چیزیں بھی جو ہمارے یہاں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔پاکستانی ، انڈین اور بنگالی طعام خانے اتنے زیادہ ہیں کہ شاید ہی کسی شہر میں اتنے یک جا ہوں گے ۔ یہی نہیں کھانے کا معیار بھی بہت اچھا اور پاکستان سے کسی طرح کم نہیں ہے ۔ شکاگو میں دو ائیر پورٹ ہیں ۔ دنیا کے مصروف ترین ائیر پورٹس۔ ہم مڈوے ائیر پورٹ سے ریاست الاباما کے شہر برمنگھم کے لیے روانہ ہوئے ۔ جہاز بلند ہوا تو شکاگو کی عمارتیں اور روشنیاں پیچھے رہ گئیں۔ساتھ دینے والوںمیں صرف یادیں ہوا کرتی ہیں سو وہ اب تک ساتھ ساتھ ہیں ۔ برمنگھم ایک چھوٹا سا خوبصورت شہرہے جوبل کھاتے اونچے نیچے راستوں اور چھوٹی بڑی پہاڑیوں پر مشتمل ہے ۔ کچھ کچھ اسلام آباد جیسا ۔کہیں کہیں مری کا ذائقہ لیے ہوئے ۔ایسا سرسبز و شاداب کہ دل خوش ہوجائے ۔کبھی کبھار موسم میں ایک دو بار برف باری بھی ہوجاتی ہے ۔ اترے تو موسم خوشگوار تھا اور شکاگو کی سردی کے بعد یہاں کوٹ اور جیکٹ ایک بوجھ لگنے لگے۔لیکن اسی رات بارش نے یہ موسم یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ۔ اور اس وقت سوئیٹر کے بغیر تیز ٹھنڈی ہوا میں نکلنا ممکن نہیں ۔ اور کافی کا تو مزا ہی اس موسم میں الگ ہے ۔کافی کا ذکر آیا تو یہ تازہ شعر بھی سن لیجیے : تم ہو اور سردی میں خوشبو کافی کی میں نے شاید باقی عمر اضافی کی ایک سنہرے ریشم میں دل لپٹا ہے تم نے مجھ میں کیسی یہ زربافی کی اک احساسِ جرم جو تھا چپ رہنے کا شعر لکھے اور ساری عمر تلافی کی