’’زہیر بن ابی سلمی‘‘ کے کالم پر بہت زیادہ فیڈ بیک کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ 92 نیوز کے حلقہ قارئین و متاثرین میں معتدبہ حصہ دینی اور علمی طبقات کا بھی ہے‘چنانچہ ایسی تحریریں بنظر غائر پڑھی جاتیں اور حسب معیار تعریف اور تنقید کی حق دار ٹھہرتی ہیں۔شیوخ الحدیث اور بالخصوص علما سیرت کی’’چھاننی‘‘سے‘ کسی چیز کا آسانی سے چھننا تو ممکن نہیں ہوتا‘البتہ جو چھن جائے وہ غنیمت…یہاں ایک اور بات بھی اہم ہے کہ عرب کی معاشرت میں صرف شاعری یاشاعر ہی اہم نہ تھے بلکہ خطیب اور خطابت کی اہمیت بھی مسلمہ تھی۔ دور جاہلیت میں جس طرح مختلف قبائل کے اپنے اپنے شعراء تھے، جو اپنے زور بیان اور عمدہ کلام سے اپنے قبیلے کا نام بلند کرتے اور انہیں شجاعت اور مکارم اخلاق پر ابھارتے‘اسی طرح ہر قبیلے کا اپنا ’’سرکاری خطیب‘‘ بھی ہوتا،جو نظم کی بجائے نثر اور خطیبانہ اسلوب اور پیرائے میں اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کرتا۔اگرچہ دور جدید کے بعض مفکرین نے خطابت کو خالص اسلامی فن تصور کیا ہے‘ان کے خیال میں اس کے لیے سادہ بدوی طرز زندگی نہیں بلکہ ٹھہرا ہوا شہری تمدن درکار ہوتا ہے،اس ضمن میں وہ یونان‘روم اور مسیحی یورپ کی مثالیں بھی پیش کرتے ہیں۔ان کے خیال میں زمانہ قبل از اسلام میں خطابت کا وجود تو تھا‘مگر برائے نام۔ لیکن یہ امر واقعہ نہیں ہے،جو سوسائٹی کسی منظم حکومت‘مربوط نظام اور قانون کے بغیر صحرا کی قبائلی زندگی میں پروان چڑھے اور ان میں لکھنے پڑھنے کا رواج بھی نہ ہو،تو ان کے ہاں رائے عامہ کی تشکیل و تاثیر کے لیے خطابت کا فن ایک فطری ضرورت ہے۔نبی اکرمﷺکی خدمت میں بنو تمیم کا وفد حاضر ہوا اور مفاخرت کے لیے اپنے قبیلے کے خطیب عطارد بن حاجب اور شاعر زبر قان بن بدر کو پیش کرتے ہوئے،دربار رسالت کے خطیب اور شاعر کو ان کے مقابلے میں لانے کی خواہش ظاہر کی۔چنانچہ شاعر دربار رسالت حضرت حسان بن ثابتؓ کے ساتھ خطیب بارگاہ نبوت حضرت ثابتؓبن قیس سامنے آئے۔اس موقع پر اقرع بن حابس کا تبصرہ بہت جامع ہے۔ واللہ لشاعرہ اشعر من شاعرنا و لخطیب اخطب۔۔۔ یعنی:بخدا ان کا شاعر ہمارے شاعر سے اور ان کا خطیب ہمارے خطیب سے یقینا بڑھ کر ہے۔چنانچہ خطیب اور خطابت کا معیار بڑا کڑا تھا‘خطیب کے لیے ضروری تھا کہ وہ موثر شخصیت کا مالک ہو‘اس کی آواز بلند‘شخصیت باوقار اور وضع قطع بارعب ہو۔وہ سر پر عمامہ باندھتا اور کسی لاٹھی‘نیزے‘کمان یا عصا کی ٹیک لگا کر تقریر کرتا۔ہاتھ یا عصا سے اشارے کرتا۔خطبہ نکاح کے علاوہ باقی خطبے کھڑے ہو کریا کسی ٹیلے یا سواری پر سوار ہو کر دیتا تاکہ آواز دور تک پہنچ سکے اور خطیب کے چہرے کے تاثرات اور حرکات و سکنات کو سامعین دیکھ سکیں۔اس سلسلے میں کوہ صفا اور میدان عرفات کی مثالیں اور پھر بالخصوص عہد رسالتمآب کی زریں مثال منبر رسول کی تشکیل قابل ذکر ہے۔حسن گفتار کے معیار بڑے بلند تھے۔دوران کلام کھانسنا‘کھکارنا‘ ادھر ادھر دیکھنا یا کوئی تکیہ کلام استعمال کرنا استعانت اور مددگیری سمجھا جاتا تھا،جو باعث شرم تھا۔خطیب کی زبان آوری کو انتخاب الفاظ‘کثرت معنی اور اختصار کلام جیسے معیار پر پرکھا جاتا۔چنانچہ دور جاہلیت اور پھر عہد رسالت کے اکثر خطبے اعجاز اور ایجاز کا مرقع‘معنی اور مفہوم سے لبریز اور پْر مغز جملوں سے آراستہ ہوتے۔ہانی بن قبیصہ شیبانی کے خطاب کے جملے دیکھئے‘جو اس نے اپنی قوم کو آمادہ جنگ کرتے ہوئے ادا کئے: اے گروہ بنی بکر! جو شخص جان دے کر معذور ٹھہرے وہ اس شخص سے بہتر ہے جو جان بچا کر مفرور کہلائے۔ تدبیر‘تقدیر سے نہیں بچا سکتی صبر وسیلہ ظفر ہے موت قبول کرلو مگر کمینگی اختیار نہ کرو موت کو چہرہ دکھانا‘پیٹھ دکھانے سے بہتر ہے سینے پر نیزہ کھانا‘پشت پر نیزہ کھانے سے زیادہ باعزت ہے اے آل بکر! لڑو کہ موتیں یکسر ناگزیر ہیں۔ بہرحال… بات اپنی تمہید میں ہی طول پکڑ گئی‘تو میں عرض کررہا تھا کہ گزشتہ پیوستہ کالم کا اختتام زہیر بن ابی سلمیٰ کے بیٹے کعب بن زہیر کے معروف عربی قصیدہ’’ بانت سعاد‘‘کے شہرۂ آفاق شعر جسے’’بیت الغزل‘‘بھی کہا جاتا ہے‘ پر ہوا: ان الرسول لنو ر یستضا بہ، رسول اکرم نور ہیں‘جن سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ جگہ کی کمی کے باعث اس کا ترجمہ تحریر نہ ہو سکا ویسے بھی کالم بہت زیادہ تفصیلات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بہرحال علامہ صاحب نے اس کے ترجمے کی فرمائش کے ساتھ شعر کی دوسری روایت کی طرف بھی متوجہ کیا جوکہ حسب ذ یل ہے۔ ان الرسول لسیف یستضآ بہ، بے شک رسول اللہ وہ سیف ہیں‘جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ حسن او رخوبصورتی کو تلوار سے تشبیہہ دینا‘یہ بھی عرب کا رواج تھا جیساکہ حضرت جابر بن سمرہؓ سے معروف روایت ہے کہ حسن مصطفی کریم کے حوالے سے کسی شخص نے ان سے پوچھ لیا۔ کان وجہ رسول اللہ مثل السیف کیا رسول اللہ کا چہرہ تلوار کی طرح تھا؟ آپﷺ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا اگرچہ حسن‘خوبی اور خوبصورتی کو تلوار سے تعبیر کرنا عرب کے مزاج‘کلچر اور ادبی روایت کا حصہ ہے،لیکن تلوار میں تو کاٹ بھی ہوتی ہے اور حسن مصطفی کے بیان میں ایسا پیرا یہ اظہار سوئے ادبی ہوسکتا ہے۔ آپﷺ جواب دیتے ہیں کہ محمد رسول اللہ کے حسن کو تلوار سے تعبیر نہ کرو‘آپﷺ نے فرمایا: لا‘بل مثل الشمس و القمر وکان مستدیرا۔حضور کا رخ انور تلوار نہیں بلکہ چودھویں کے چاند کی طرح تھا۔ویسے آپ کی رنگت کے بارے میں یہی لکھا گیا ہے کہ ایسی سفیدی جس میں سرخی کی آمیزش ہو‘جس کو دیکھنے سے جی نہ بھرے۔ جیساکہ حضور کا سراپا بیان کرنے والوں نے حلیہ بیان کرتے ہوئے کہا:من انہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان ازہر اللون۔ یعنی آنجناب علیہ الصلوٰۃ والسلام کا رنگ مبارک سرخ و سپید تھا۔ اسی تسلسل میں بعض لوگوں نے ہندی تلوار کی نفاست اور خوبصورتی سے بھی مشابہ قرار دینے کی روایت کا ذکر کیا ہے لیکن اس تشبیہہ کو بھی پسند نہیں فرمایا گیا۔ہمارے وقائع نگار اور تاریخ گو بیان کرتے ہیں کہ ہندی تلوار دراصل لاہوری تلوار ہی تھی‘جو آج سے ڈیڑھ ہزار سال پیشتر بھی دنیائے عالم میں باعث حیرت و استعجاب اور ایک شاعرانہ تخیل تھی۔مستنصر حسین تارڑ نے لاہور کے حوالے سے’’محلہ تیر اندازاں اور گلی کمانگراں‘‘کے عنوان باندھ رکھے ہیں،جسمیں وہ اس زمانے کا بڑی حسرت سے ذکر کرتے ہیں، جب لاہور کے لوہار اور کاریگر دنیا بھر میں سب سے موثر اور سجیلے جنگی ہتھیار بناتے تھے۔ یقینا اس وقت لاہوری تلوار نہ صرف سب سے بڑھ کر کاٹ دار بلکہ آرٹ ورک کے بڑے عمدہ نمونے‘نہایت پیچیدہ سنہری گل بوٹے‘نقش و نگار اور آرائشی بیلیں اس کے دستے پر کندہ ہوتے۔آج بھی دنیا کے بہت سے عجائب گھروں میں لاہوری کاریگروں کی ہنر مندی‘صناعی اور ذوق جمال کے یہ شاہکار آویزاں اور ان کے دستوں پر کاریگروں کے نام اور لاہور کی مہریں ثبت ہیں۔شاید یہ اس زمانے میں ایک منافع بخش کاروبار اور باعزت روزگار اور آرٹ تھا،جب سنٹرل ایشیا اور افغانستان سے ہندوستان جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا اور جس کی معیشت دنیا کی مضبوط مالیات میں شمار ہوتی تھی‘اس سے اکتساب کرنے کے لیے سلاطین‘فاتحین‘سپہ سالار‘جنگجو ادھر کا رخ کرتے۔لاہور میں کچھ عرصہ رکتے‘تلواروں‘کمانوں‘ بھالوں‘برچھیوں اور تیروں سے مسلح ہو کر دہلی پر یلغار کے لیے آگے بڑھتے۔اسی لیے شیر شاہ سوری اور ظہیرالدین بابر اس شہر کو ملیا میٹ کردینے کے خواب دیکھتے رہے۔