وزیراعظم عمران خان کی تقریر ایک درد مند دل کی پکار تھی۔ یہ تقریر گزشتہ ستر برس سے ہر سچے پاکستانی کی پلکوں میں آویزاں خوابوں کی ترجمان تھی‘ اس میں شدت احساس بھی تھا اور پاکستان کے حقیقی مسائل سے گہری آگہی بھی ۔ تقریر جامع اتنی کہ بہت کوشش کے باوجود میں کوئی ایسا شعبہ کوئی ایسا گوشہ تلاش کرنے میں ناکام رہا جو نئے وزیراعظم کی آنکھ سے اوجھل رہ گیا ہو۔ یہ تقریر سن کر مجھے قائداعظم محمد علی جناح کی 24 اپریل 1943ء کو دہلی میں منعقدہ اجلاس میں کی گئی تقریر یاد آگئی۔ مسلم لیگ کے اس اجلاس میں قائداعظم نے پاکستان میں قائم ہونے والے نظام حکومت پر روشنی ڈالی تھی۔ اس تقریر میں قائداعظم نے جاگیرداروں‘ زمینداروں اور سرمایہ داروں کو وارننگ دی تھی کہ اگر انہوں نے حرص و ہوس کا یہی انداز برقرار رکھنا ہے تو مجھے ایسے پاکستان کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں دیہاتوں میں گیا ہوں‘ وہاں مجھے مفلوک الحالی نے تڑپا دیا ہے‘ لاکھوں لوگ ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ملتا۔ مجھے امید ہے کہ یہ لوگ ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کریں گے اور پاکستان میں اپنے طور طریقے بدل لیں گے۔‘‘ قائداعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے چند ماہ بعد ہی صاحب فراش ہو گئے تھے اور پھر اس دنیا سے ان کے رخصت ہوتے ہی جاگیرداروں‘ سرمایہ داروں‘ سیاستدانوں اور جرنیلوں نے قائداعظم کی تعلیمات کو بھلا دیا اور اب برسوں سے پاکستان کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین اور مقروض ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ عمران خان نے معیشت کی خستہ حالی‘ شاہ خرچیوں کی کہانی‘ پانی کی عدم فراہمی‘ انصاف تک عدم رسائی‘ پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کی اموات ناگہانی‘ بڑھتی ہوئی آبادی‘ سوا دو کروڑ بچوں کی تعلیم سے دوری کی کہانی سنائی۔ وزیراعظم عمران خان کو دو بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ ایک ان کی وزارتی و مشاورتی ہنرمندی اور دوسرے سینیٹ اور اسمبلیوں میں ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا ۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ ہر وزیر کو خودمختاری دیں اور پھر تمام وزارتوں کی کارکردگی کی نگرانی خود کریں۔ تاہم عمران خان اچھی طرح سمجھتے ہوں گے کہ نگرانی اور مداخلت میں کیا فرق ہے۔ عمران خان کو کوئی وزارت اپنے پاس نہیں رکھنی چاہیے۔ میاں نوازشریف نے اپنے پاس وزارت خارجہ رکھی تھی تو اس پر عمران خان تنقید کرتے رہے کہ وزیر خارجہ کے بغیر وزارت خارجہ کس طرح سے ایک بھرپور اور موثر کردار ادا کرسکتی ہے۔ عمران خان کو احتساب کے معاملے میں مکمل طور پر غیرجانبدار رہنا چاہیے۔ نیب‘ ایف آئی اے اور ایس ای سی پی جیسے اداروں کو مکمل خودمختاری کے ساتھ کام کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ یوں توسارے ہی شعبے جن کا ذکر عمران خان نے کیا ہے وہ سب بہت اہم ہیں۔ ہر شعبے کے ذمہ دار اپنا اپنا کام تن دہی سے کریں مگر ترجیحی بنیادوں پر وزیراعظم کو معیشت‘ انصاف‘ پانی‘ تعلیم‘ علاج‘ لوکل حکومتیں‘ پولیس و پٹوار اور بیوروکریسی کو اپنی توجہ کا مرکز بنانا چاہیے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ معیشت اور پولیس پر تو تحریک انصاف کے ہاں کچھ ہوم ورک یقینا ہوا ہے مگر باقی شعبوں میں درپیش چیلنجز کے مقابلے کے لیے کوئی خاص تیاری محسوس نہیں ہوتی جو امور بغیر کچھ خرچ کئے قائداعظم محمد علی جناح کے وژن کے مطابق قوم کی درست سمت متعین کرسکتے ہیں ان پر تو فی الفور عملدرآمد ہونا چاہیے۔ نفاذ اردو قائداعظم کا فرمان بھی ہے‘ دستور کا تقاضا بھی ہے اور عدالتی فیصلہ بھی ہے اور قوم کا ستر برس پرانا مطالبہ بھی ہے۔ اس میں کیا رکاوٹ ہے۔ اردو کو عملاً سرکاری زبان بنا دیا گیا تو قوم سکھ کا سانس لے گی اور ملک کے مقتدر حلقوں کا زاویہ نگاہ بھی بدل جائے گا۔ اس پر عمران خان بلاتاخیر عملدرآمد کروائیں۔ جن دو تین شعبوں سے ہمارا براہ راست تعلق ہے ان کے بارے میں ہم اپنی بساط کے مطابق ضرور کچھ تجاویز دیں گے۔ عمران خان نے تعلیم کے بارے میں بہت اچھی باتیں کیں مگر وہی روایتی باتیں تھیں جو سابق وزرائے اعظم بھی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس شعبے کے بارے میں عمران خان کا پرانا وژن سننے کو نہیں ملا۔ عمران خان نے کہا کہ سرکاری سکولوں کو ٹھیک کریں گے‘ ہنرمندی کی تعلیم دیں گے اور دینی مدارس کے طلبہ و طالبات کو بھی اسی طرح مین سٹریم شعبوں میں کردار ادا کرنے جج‘ جرنیل اور دیگر شعبوں میں شامل ہونے کے لیے تیار کریں گے۔ سوا دو کروڑ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں گے۔ مگر یہ ہوگا کیسے؟ میں بیس بائیس برس سے عمران خان کے منہ سے یکساں تعلیم کا نعرہ سنتا چلا آ رہا ہوں مگر اب یہ نعرہ ان کی تقاریر سے عنقا ہوتا جارہا ہے۔ یکساں تعلیم کا نظام جاری ہوگا تو پھر سرکاری‘ غیر سرکاری اور دینی مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والوں کوترقی کے یکساں مواقع ملیں گے۔ یکساں نظام تعلیم کیسے قائم ہوگا؟ یہ ایسے قائم ہوگا جیسے دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں قائم ہے۔ ہر ترقی یافتہ ملک میں ایک ہی طرح کا نظام‘ تعلیم اور نصاب تعلیم رائج ہے۔ جاپان کا یکساں نظام تعلیم دنیا میں ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے حتیٰ کہ امریکی صدر رونلڈ ریگن بھی جاپانی نظام کو رشک بھری نگاہ سے دیکھتے تھے۔ جاپانی سکولوں میں ایک طرح کا نصاب تعلیم رائج ہے۔ سکول سرکاری ہو یا پرائیویٹ‘ ماڈرن ہو یا قدیم سوائے چند معمولی نوعیت کے فرق کے ساتھ تعلیم ایک جیسی ہوتی ہے۔ پاکستان میں اگر فرق من و تو کا حقیقت میں خاتمہ درکار ہے‘ دینی مدارس کے طلبہ کو مین سٹریم میں لاناہے؛ اردو انگلش میڈیم کا فرق مٹانا ہے تو میٹرک تک ایک جیسا نصاب تعلیم رائج کیا جانا چاہیے۔ بے شک سردست اعلیٰ سے اعلیٰ سہولتوں والے پرائیویٹ سکول قائم رہیں مگر سلیبس ایک ہو۔ یہ نہ ہو کہ انگریزی میڈیم میں طلبہ کیلیفورنیا اور میک ڈسٹرکٹ کا جغرافیہ اور امریکی و برطانوی تاریخ پڑھ رہے ہوں اور یہاں کے سرکاری سکولوں میں چیچوکی ملیاں کا جغرافیہ پڑھایا جارہا ہو۔ اس طرح سے ایک یک رخ اور یک سو قوم کیسے وجود میں آئے گی۔ ہمیں بنفس نفیس جامعۃ الازہر جانے کا موقع ملا۔ اس درس گاہ سے فارغ التحصیل ہونے والوں کو زندگی کے ہر شعبے میں یکساں مواقع ملتے ہیں جبکہ ازہر والوں کے دینی علم اور ان کی عربی دانی پر ہر مصری رشک کرتا ہے۔ جہاں تک اوورسیز پاکستانیز کا تعلق ہے تو ان کی تعداد 80 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ پاکستان کا بہت بڑا اثاثہ ہے۔ اوورسیز پاکستانی تقریباً سالانہ 20 ارب ڈالر پاکستان ارسال کرتے ہیں۔ یہ رقم ہماری ڈولتی ڈگمگاتی معیشت کے لیے بہت بڑے سہارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ مزید سرمایہ پاکستان لانے کی درخواست پر وہ یقینا لبیک کہیں گے۔ ہم خود دودہائیوں سے زیادہ اوورسیز پاکستانی رہے ہیں۔ ہمیں ان جذبوں کا بخوبی اندازہ ہے جو اوورسیز پاکستانی اپنے وطن کے لیے رکھتے ہیں۔ تاہم یہاں ان کے لیے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر سرمایہ کاری کی سکیمیں ہونی چاہئیں تاکہ وہ صحت‘ تعلیم‘ کاٹج انڈسٹری اور تعمیرات وغیرہ میں بلاجھجک سرمایہ کاری کرسکیں اور انہیں یہ اطمینان ہو کہ جب وہ پاکستان مستقلاً واپس آئیں گے تو انہیں دربدر ٹھوکریں کھانے کی ضرورت نہ ہوگی اور ان کے لیے ملک میں متبادل روزگار موجود ہوگا۔ لوکل گورنمنٹ کا سسٹم یہاں انقلاب لا سکتا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے شہروں میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر‘ صاف پانی ناپید اور سیوریج کا نظام ٹھیک نہیں۔ لاہور یقینا صاف ستھرا ہے۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں احسن رشید جیسے پارٹی کے محسنوں کا تذکرہ کیا جو یقینا باعث تحسین ہے۔ احسن رشید ہمارے دوست تھے پہلے وہ پارٹی کی مالیاتی خدمت کرتے رہے پھر وہ جدہ کے کروڑوں ریال چھوڑ کر عملی جدوجہد میں حصہ لینے کے لیے لاہور چلے آئے۔ افسوس کینسر نے انہیں مہلت نہ دی کہ وہ چمن میں آئی بہار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔ ہم عمران خان کے وژن کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔ ہماری وزیراعظم عمران خان سے درخواست ہو گی کہ اب وہ جنگ جویانہ نہیں صلح کل کا رویہ اختیار کریں۔ ان کی تقریر سن کر ہر پاکستانی نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی اس کے دل میں ہے۔