قائد اعظم ؒ کی وفات سے لے کر آج تک قدم قدم پر قوم اپنے محسن کو یاد کرتی اور شدید محرومیت محسوس کرتی ہے۔ میں بھی خود کو بہت محروم محسوس کرتا ہوں مگر میرا احساس قدرے مختلف ہے۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ یہاں طاقت کے سرچشموں اور اقتدار کی غلام گردشوں سے پنپنے والی سرگرمیوں اور سازشوں سے شاید بابائے قوم بھی محفوظ نہ رہتے، جیسے ان کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ان مشکلات سے گزرنا پڑا۔ انتخاب میں انہیں 1964ء کے بالواسطہ شکست دی گئی اور انہیں نہایت ہی ناروا القابات سے نوازا گیا۔ تبھی تو میں ڈاکٹر خورشید رضوی کے اس شعر میں پناہ ڈھونڈتا ہوں کہ: میں وہ محروم کہ پایا نہ زمانہ تیرا تو وہ خوش بخت کہ جو میرے زمانے میں نہیں شب رفتہ میں لیڈر شپ کے موضوع پر ایک نئی کتاب کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ صاحب کتاب نے اپنی تصنیف میں قیادت کے اوصاف کے بارے میں مشاہیر کے جو اقوال درج کئے ہیں قائد اعظم نہ صرف ہر وصف پر پورے اترتے ہیں بلکہ انہوں نے لیڈر شپ کے باب میں حیران کن اضافے بھی کئے ہیں، جن سے غیر روشنی اور رہنمائی حاصل کرتے ہیں جبکہ ہم صرف اپنی مطلب براری اور سیاسی دکانداری چمکانے کے لئے قائد اعظمؒ کا نام اور قائد کا پاکستان بنانے کی باتیں کرتے ہیں مگر عمل اس کے بالکل برعکس کرتے ہیں۔ نپولین بونا پارٹ کا یہ قول ملاحظہ کیجیے۔A Leader is a dealer in hope.این ایچ ہاشمی نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ایک موقع پر قائد اعظم فرما رہے تھے پاکستان انشاء اللہ بن کے رہے گا‘ میرے منہ سے اچانک نکل گیا قائد اعظم ! خدا تعالی آپ کی عمر دراز کرے۔ ہمارے ہاں تو قحط الرجال ہے۔ اس پر انہوںنے ارشاد فرمایا نوجوان! آپ مایوسی کا شکار کیوں ہوتے ہیں کون جانتا تھا جناح پیدا ہو گا، کمال اتاترک اٹھے گا آپ ہی میں جناح ابھریں گے۔ مایوس ہونے کے بجائے محنت کریں اور بہتری کی امید رکھیں۔ قائد اعظمؒ کے بعد قوم کو ایک رجل رشید مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی صورت میں ملا۔ مولانا کو حق گوئی کی پاداش میں کبھی مارشل لاء کی ایک عدالت میں سزائے موت سنائی گئی اور کبھی ایک اور فوجی آمر نے انہیں اور ان کے چالیس پچاس ساتھیوں کو پس دیوار زنداں بھیج دیا۔ پھر تقریباً ایک سال کے بعد اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے رہائی ملی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی عملی جدوجہد سے نظریہ پاکستان پر فدا ہونے والی قوم کو قرار داد مقاصد کا تحفہ ملا۔ مولانا مودودی نے قائد اعظم کے وژن اور کمنٹمنٹ کے مطابق ایک جدید اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کا نقشہ بنا کر قوم کے سامنے پیش کر دیا۔ ہماری قوم بھی بہت دلچسپ ہے اسلام اور سوشلزم کی کشاکش میں عوام نے مولانا مودودی کے شوکت اسلام کا ساتھ دیا مگر ووٹ پیپلز پارٹی کو دیے۔ جسے اے کے بروہی اور محمود علی قصوری جیسے قانون دانوں نے بھی تسلیم کر لیا۔ اعلیٰ پائے کے یہ قانون دان پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں دانش برہانی کو ہی فہم و فراست کا منبع تسلیم کرتے تھے اور دانش نورانی کے زیادہ قائل نہ تھے۔ اسی طرح وہ اسلامی نظام کو ایک سیاسی نظام ماننے میں تامل اور تردد کا شکار تھے۔ تاہم اس وقت تک ہمارے معاشرے میں دلیل کو تسلیم کیا جاتا تھا اور ہٹ دھرمی سے کام نہیں لیا جاتا تھا۔ لہٰذا ممتاز قانون دان اے کے بروہی نہ صرف مولانا مودودی کے دلائل کے اسیر ہو گئے بلکہ ان کے باقاعدہ مرید بن گئے۔ جس معاشرے میں دلیل کو دھتکار دیا جائے اور محض دھونس سے اپنی بات منوانے پر اصرار کیا جائے اس معاشرے سے خیرو برکت اٹھ جاتی ہے۔ ماضی کے اس آئینے میں آج کی لیڈر شپ کا چہرہ بھی دیکھتے جائیے۔ لیڈر شپ کے بارے میں ایک اور قول دیکھیے۔ اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے کا بہترین پیمانہ یہ ہے کہ آپ لیڈر کا عمل دیکھیں نہ کہ اس کی رنگ برنگی خواہشات پر توجہ دیں‘‘اس پیمانے پر قائد اعظم محمد علی جناح کی ساری زندگی کو پرکھ لیجیے۔ طالب علم کی حیثیت سے ان کی زندگی کو بلادافرنگ کی رنگینیوں سے اجتناب کرتے ہوئے دیکھئے۔ قانون دان اور وکیل کی حیثیت سے اس کی ایمانداری‘ دیانتداری ‘ جانفشانی اور کامیابی کو دیکھئے۔ پھر ایک سیاست دان کی حیثیت سے ان کی سیاسی جدوجہد کا جائزہ لیجیے۔ انہوں نے کبھی اپنی قوم سے کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کیا تھا۔ کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ ہم پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔ کبھی کسی سیاسی گروہ کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے انہیں کوئی سراب نہیں دکھایا تھا۔ ایک لیڈر کی حیثیت سے کبھی وہ انگریز حکمرانوں سے مرعوب ہوئے تھے اور نہ ہی عددی برتری رکھنے والے ہندوئوں کے سامنے سرنگوں۔ وہ ایک سچے لیڈر کی حیثیت سے اپنی سیاسی مہم اور تحریک آزادی چلاتے ہوئے اپنی قوم کی تعلیم و تربیت اور ان کے بہترین ڈسپلن سے کبھی غافل نہ رہے۔ اگر کسی سیاسی مہم کے دوران لوگوں نے ان کی ٹرین کو وہاں روکنے کی کوشش کی یا ان کی ایک جھلک دیکھنے پر اصرار کیا جہاں شیڈول کے مطابق رکنے کا پروگرام نہ تھا تو انہوں نے عوام کے اس اصرار کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا۔ بحیثیت حکمران یکم جولائی 1948ء کو قائد اعظم گورنر جنرل کی حیثیت سے سٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں تشریف لائے۔ انہوں نے نے منتظمین سے بروقت تقریب کا آغاز کرنے کو کہا اس وقت تک وزیر اعظم لیاقت علی خان اسٹیج پر نہ پہنچے تھے۔ قائد اعظم نے ان کی کرسی کو اٹھانے کا حکم دیا۔ لیاقت علی خان چند منٹ کی تاخیر سے تشریف لائے۔ آج کے حکمران اور سیاست دان منٹوں کی تاخیر سے نہیں تقریبات میں گھنٹوں کی تاخیر سے آتے ہیں اور اس پر اظہار ندامت کے بجائے احساس تفاخر سے کام لیتے ہیں۔ آج میں چلتے چلتے ویرن بینس کا بھی ایک قول سن لیجئے۔ ’’لیڈر شپ وژن کو حقیقت میں بدلنے کا نام ہے‘‘ آج کے وزیر اعظم جناب عمران خان قائد اعظم سے پیروی کا بڑا دم بھرتے ہیں مگر عملی طور پر ان کے وژن اور عمل کے برعکس کر رہے ہیں۔ قائد اعظم کی ساری زندگی عملی شہادت سے معمور ہے جبکہ خان صاحب کی ڈیڑھ سالہ سیاسی کارکردگی تضادات اور یوٹرنز سے بھر پور ہے۔ اللہ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو قائد اعظم کی پیروی کی سچی توفیق عطا کرے۔ آج قائد اعظم ؒ زندہ ہوتے تو انہیں لیڈروں کے یہ تضادات دیکھ کر کتنا افسوس ہوتا۔ تبھی تو میں ڈاکٹر خورشید رضوی کے اس شعر میں پناہ ڈھونڈتا ہوں کہ: میں وہ محروم کہ پایا نہ زمانہ تیرا تو وہ خوش بخت کہ جو میرے زمانے میں نہیں ٭٭٭٭٭