بعض اوقات کئی سفر ایک ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔ایک ہی مسافر کئی راہوں اور کئی دائروں کا مسافر ہوتا ہے۔کچھ معلوم راہیں اور کچھ انجان راستے۔ایک عمر کے بعد اس پر یہ کھلتا ہے کہ وہ فلاں وقت میں فلاں راستے کا بھی مسافر تھا۔پوری دنیا بھی ایک مکان ایک گھر ہے اور مقیم بھی ایک مسافر ہے: کیسی عجیب راہ گزر میرے گھر میں ہے میں وہ مقیم ہوں جو مسلسل سفر میں ہے ایک سفر تو باہر ہے جو امریکہ کی مختلف ریاستوں اور چھوٹے بڑے شہروں میں پاؤں کے ساتھ چل رہا ہے اور ایک سفر میرے اندر جاری ہے جس کی ڈوریاں پاکستان سے جڑی ہوئی ہیں۔پاکستان کی خبریں، گزرتے واقعات اور حالات ہر مقام اور ہر منزل میں دل کے اندر گھر کیے رہتے ہیں۔پاکستان کے سیاسی اتار چڑھاؤ کی تفصیلات معلوم ہوتی رہتی ہیں اور دل ادھر ہی پڑا رہتا ہے ۔ لیکن یہاں امریکہ کے سیاسی اتار چڑھاؤ کی صورت حال بھی مزے دار ہے۔ 6نومبر کو یہاں وسط مدتی انتخاب تھے جن کی گہماگہمی یہاں عروج پر تھی۔وطن عزیز کی طرح یہاں عوامی جلسے جلوس، گلیوں بازاروں کے بینر، نعرے بازی وغیرہ کا تو نشان تک نہیں لیکن ہر شخص ان انتخابات کے بارے میں بات کرتا نظر آتا تھا۔اور 6 نومبر کو پولنگ میں بھی لوگوں نے بڑی تعداد میں حصہ لیا۔ہمارا رابطہ چونکہ پاکستانی اور ہندوستانی برادری سے زیادہ ہے اس لیے انہی سے تبادلہ خیال ہوتا رہا۔جیسا کہ پڑھنے والے جانتے ہیں امریکہ میں ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹ پارٹی ہی دو بڑی سیاسی قوتیں ہیں۔ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن سے تعلق رکھتا ہے جبکہ پاکستانی اور ہندوستانی برادریاں دل و جان سے ڈیمو کریٹس کی حامی ہیں۔یہی نہیں بلکہ تقریبا" تمام لوگ جو دیگر ممالک سے آکر امریکہ میں بسے ہیں ڈیموکریٹس کو سپورٹ کرتے ہیں۔ٹرمپ سے متعلق یہاں خاصی ناپسندیدگی پائی جاتی ہے۔ اور ہمیں پاکستانی اور ہندوستانی نژاد امریکیوںمیں کوئی شخص ایسا نہیں ملا جو ڈونلڈ ٹرمپ کا حامی ہو۔6نومبر کو انتخابی نتائج آئے تو اندازے کے عین مطابق ڈیمو کریٹس کو اکثریتی نشستیں ملیں اور اگرچہ سینیٹ میں ری پبلکن نے اپنی طاقت برقرار رکھی لیکن آئندہ ماہ و سال میں ری پبلکن کو سخت اپوزیشن سے پالا پڑے گا۔اس انتخاب پر اور اس کے نتائج و عواقب پر علیحدہ بلکہ مفصل بات ہونی چاہیے لیکن فی الحال ایک جملے میں سمیٹا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے من مانی کرنا اب اتنا آسان نہیں رہا۔امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر باراک اوباما کی ہیلتھ کیئر پالیسی اس وقت یہاں مرکزی نقطہ ہے۔اوباما کی شخصیت کے ساتھ ساتھ یہ پالیسی بھی بہت مقبول ہوئی ہے اور عام آدمی کو علاج کے لیے اس کے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ٹرمپ انتظامیہ اس پالیسی سمیت اوباما کے بیشتر اقدامات کو واپس لینا چاہتی ہے جو اب وسط مدتی انتخاب کے بعد اس کے لیے اور مشکل ہوگیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ ریاست الاباما کے شہر برمنگھم سے جب ہم ریاست فلوریڈا کے شہر آرلینڈو روانہ ہوئے تو اندازہ تھا کہ ہم سرد شہرو ںسے گرم مرطوب موسم کی طرف جارہے ہیں۔ آرلینڈو وہ شہر ہے جہاں مشہور و معروف ڈزنی لینڈ واقع ہے چنانچہ اس کی اور گرم دھوپ بھرے ساحلوں کی کشش دنیا بھر کی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ہماری فلائٹ میں بھی ان امریکی گھرانوں کی بہتات تھی جو اپنے بچوں کو ڈزنی لینڈ کی سیر کے لیے لے جارہے تھے اور یہ بچے ہمارے بچوں کی طرح بہت پرجوش تھے۔ آرلینڈو ائیر پورٹ ایک بڑا اور متاثر کن ائیر پورٹ ہے لیکن ہمارے پاس اسے دیکھنے کا وقت نہ تھا کیوں کہ ہماری اگلی منزل دو گھنٹے دور جیکسن ول تھا جہاں اسی رات مشاعرہ تھا۔ اردو مرکز لاس اینجلس کی نیر جہاں پوری اردو دنیا میں نیر آپا کے نام سے جانی جاتی ہیں۔سراپا شائستگی،خلوص اور محبت۔مہمان شاعروں کی دیکھ بھال اور لاس اینجلس میں بیٹھ کر بھی روزانہ رابطہ نیر آپا کی وہ خصوصیات ہیں جو انہیں بہت منفرد اور بہت اپنا بناتی ہیں۔جیکسن ول میں ان کی چھوٹی بیٹی طاہرہ بھابھی اور داماد جناب شکیل صولت ہر سال اپنے خوب صورت وسیع اور کشادہ گھر میں مشاعرے اور عشائیے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس مشاعرے میں سو ڈیڑھ سو لوگ مدعو ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر پاکستانی اور ہندوستانی گھرانے ہوتے ہیں۔ہماری رہائش کا انتظام بھی برادرم شکیل صولت نے اپنے گھر پر ہی کیا تھا۔یہ مشاعرہ جو بہت یادگار رہا ،اس حوالے سے بھی منفرد تھا کہ یہ کسی ہوٹل یا ہال میں نہیں، گھر پر منعقد کیا گیا اور ایک طرح سے خاندانی تقریب کا سماں لگتا تھا۔بہت پذیرائی ،بہت داد اور بہت ستائش تو اللہ کا شکر ہے ،ہر مشاعرے کی طرح اس مشاعرے میں بھی میرے حصے میں آئی لیکن جو نقش طاہرہ بھابھی اور شکیل بھائی کی مہمان نوازی نے ثبت کیے وہ ناقابل فراموش ہیں۔ اسی طرح جیکسن ول میں مقیم جناب طاہر کاہلوں کی پر خلوص مہمان نوازی بھی بھولنے کے قابل نہیں ہے۔اللہ ان دوستوں کو ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھے۔آمین جیکسن ول کی یہ خوبصورت رہائشی بستی ڈیرز کریک (Deers creek)کہلاتی ہے۔ اس لیے کہ اس علاقے میں ہرن کافی پائے جاتے ہیں۔بسانے والوں نے بڑے اور وسیع گھروں کے درمیان قدرتی جنگل کے بڑے قطعات چھوڑ دئیے ہیں ۔ جگہ جگہ قدرتی اور مصنوعی تالاب اور جھیلیں موجود ہیں جہاں مرغابیاں، بطخیں اور راج ہنس اٹھکیلیاں کرتے پھرتے ہیں۔چنانچہ ہرنوں ، اپرندوں اور انسانوں کی یہ مشترکہ بستی ہے جہاں تینوں ساکن ایک دوسرے کو گزند پہنچائے بغیرامن اور آشتی کے ساتھ بسیرا کرتے ہیں۔یہ اس بستی کی ایسی خصوصیت ہے جو کسی بند کمیونٹی میں پہلی بار میری نظر سے گزری تھی ۔جیکسن ول کو پلوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے اس لیے کہ دریائے سینٹ جونز پر جگہ جگہ پل ہیں۔دریا کنارے چہل قدمی اور پھر دریائی ٹیکسی میں دریا کی سیر ایک خوبصورت شام کا حصہ تھی ۔ جس کی ٹھنڈک ،سکون اور اطمینان کو دل ہی محسوس کرسکتا تھا ۔ اس سکون میں ایک یادگار لمحہ اس وقت آیا جب کشتی ران نے ہمیں اچانک بتایا کہ کشتی کے ایک طرف دو ڈالفن مچھلیاں ہمارے ساتھ سفر کر رہی ہیں ۔ اگلے چند لمحات میں ہم نے دو بڑی ڈالفن مچھلیوں کو پانی سے طلوع اور پھر غروب ہوتے دیکھا۔ اتنی عجلت میں کہ تصویر یا ویڈیو بنانے کا کوئی موقعہ ہی نہیں تھا۔ ریاست فلوریڈا اپنے دھوپ بھرے ساحلوں کے لیے مشہور ہے اور ولانو بیچ ایسا ہی ایک خوبصورت ساحل ہے ۔ ایک پرسکون ساحلی سڑک ، اس کے ایک طرف بنے خوبصورت گھر اور ان کے عقب میں جھاگ اڑاتا پرشور سمند ر۔ایک نظر میں دل میں گھر کرلینے والی جگہ ۔یہ منظر تو ساتھ رہنے والا تھا ہی لیکن ناس ساحل سے چنی ہوئی چند سیپیاں اور ایک ادھیڑ عمر امریکی کی باتیں بھی ساتھ رہیں گی ۔ لگ بھگ ستر سال کے اس شخص نے دو ہفتے پہلے کلیو لینڈ ہسپتال سے مصنوعی کولہا لگوایا تھا اور اس معاملے میں شاکی تھا کہ اتنے پیسے ٹھگ لینے ا ور بہت سی یقین دہانیوں کے باوجود ہسپتال والوں نے اس کا ٹھیک علاج نہیں کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ جو کاروبار کرتا تھا وہ اس نے چار لاکھ ڈالرز میں اپنے بیٹے کو فروخت کردیا ہے ۔اب دیکھیں وہ پیسے دیتا ہے یا نہیں ؟ کچھ پتہ نہیں۔ اس نے ایک طویل سانس کھینچ کر کہا ۔ حیران کیا ہوا جائے ۔ اس لیے کہ مغرب تو مغرب مشرق میں بھی یہ انسانی دکھ اور ان کی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔انسان ، انسانی دکھ سکھ ، رشتوں کی بے اعتباری شاید سب جگہ ایک سی ہے ۔ مغرب ہو یا مشرق ۔ مسائل کی صرف نوعیت بدلتی ہے ۔ دل کہاں بدلتے ہیں۔ دن اگر بدل بھی جائیں دل کہاں بدلتے ہیں