ہمیں ایک سبق یہ بھی پڑھایا گیا کہ مایوسی گناہ ہے۔مگر یہاں سب سے زیادہ مایوسی کی فصل کاشت کی گئی ،ہماری زمین اس فصل کے لیے بہت زرخیز ثابت ہوئی ،زمین کے سینے پر بہنے والے دریا مایوسی کے پانیوں سے لبالب رہے، پودوں پر مایوسی کے پھول کھلے،پیوندکاری مایوسی کی ہوئی،پرندوں نے گیت مایوسی کے گائے۔ہماری کتابوں میں لفظ مایوسی کے ہیں ،ہمارے مدرّس یہی لفظ طالبِ علموں کے حافظے کا حصہ بناتے ہیں۔ یہاں ہر فرد،ہرگروہ اور ہر طبقہ مایوس ہونے کابہانہ ڈھونڈتارہتا ہے۔ کورونا وبا ء کے اِن لگ بھگ ساٹھ دِنوں میں مایوسی ہرسُو پھیلی اور پھیلائی گئی،کبھی وفاقی حکومت کے فیصلے مایوسی پھیلاتے ہیں توکبھی عام شہریوںکا روّیہ مایوس کرجاتا ہے۔سماجی فاصلہ رکھیں،ماسک لگائیں،کھانسی آئے تو کہنی کا استعمال کریں،بیماری کی شکل میں گھر سے باہر نہ نکلیں ،طبیعت زیادہ خراب محسوس ہوتو ڈاکٹر ز سے رُجوع کریں،مگر اپنے اوردوسروں کے تحفظات کے یہ اُصول پامال کرنے میں عام شہریوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔حتیٰ کہ جن کے ٹیسٹ پازیٹو آتے ہیں ،وہ گھر چھوڑ کر کہیں روپوش ہو جاتے ہیں اور بعض قرنطینہ سے بھاگ جاتے ہیں۔گذشتہ روز کی ایک خبر کے مطابق دس لوگ قرنطینہ سے بھاگ گئے۔جب تھوڑی سختی کی بات کی جائے تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ کورونا تو سازش ہے،یا پھر ہمارے ہاں کون سی اموات ہورہی ہیں ،جتنے لوگ کورونا سے مررہے ہیں اتنے تو روزانہ ہارٹ اٹیک سے مر جاتے ہیں،یا پھر ہمارے اُوپر خدا کی خاص رحمت ہے ،وائرس ہمیں زیادہ نقصان نہیں پہنچائے گا، وغیرہ۔بھلاایسی دلیلوں کا کیا جواب دیا جائے۔اگر جواب دیا جائے تو سامنے سے ایسی ایسی دلیلیں آتی ہیں کہ دماغ پھٹنے لگتا ہے۔ مذہبی علماء اور حکومت کے مابین ماہِ رمضان میں نماز اور تراویح کے لیے بیس نکاتی ایجنڈے پر اتفاق ہوا۔علماء کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت کے ساتھ بیس نکاتی معاہدہ ہوا ہے۔حیرت لفظ ’’معاہد ہ‘‘ پر ہے۔ریاست حکم نامہ جاری کرتی ہے ،قانون نافذ کرتی ہے ،یا معاہدہ کرتی ہے؟البتہ ریاست یا حکومت اپنے شہریوں یا مختلف طبقات کو کسی ضمن میں رعایت دیتی ہے۔جیسی رعایت حکومت نے شہریوں کو تراویح کی نماز مساجد میں اداکرنے کے حوالے سے دی ۔لیکن اس کو’’ معاہدہ ‘‘کہا اور سمجھا جارہا ہے۔دوسری طرف اس بیس نکاتی ’’معاہد‘‘ پر اتفاقِ رائے کرتے وقت زمینی حقائق کو ملحوظ رکھا گیا؟ بیس نکات میں سے ایک یہ کہ’ ’مسجد اور امام بارگاہ میں اجتماعی افطار اور سحر کا انتظام نہ کیا جائے‘‘واقعی اس پر عمل ہو جائے گا؟یہ اصول ،پاکستانی سماج کے ڈھانچے میں کوئی قابلِ عمل پہلو رکھتا ہے؟ملک بھر میں لاکھوں مساجد میں اس پر من و عن عمل کیا جائے گا؟’’مسجد اور امام بارگاہ میں صف بندی کا اہتمام اس انداز سے کیا جائے کہ نمازیوں کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ رہے‘‘اس بیس نکاتی ’’معاہدہ‘‘کے بعد درجنوں نمازیوں سے سن چکا ہوں کہ کندھے سے کندھا ملا کر نماز نہ پڑھی جائے تو نماز نہیں ہوگی۔’’50 سال سے زائد عمر کے لوگ، نابالغ بچے اور کھانسی نزلہ زکام وغیرہ کے مریض مساجد اور امام بارگاہوں میں نہ آئیں‘‘یہاں تو لوگوں کی بڑی تعداد یہ مانتی ہی نہیں کہ اُنہیں نزلہ زکام اور کھانسی ہے۔پچاس سال کی شرط کے لیے مسجد میں اندرجانے کے لیے شناختی کارڈ دکھایا جائے گا؟یہ شرائط وہ ہیں ،جن پر عمل درآمد ہونانا ممکن ہے۔کیونکہ اِن شرائط کو پاکستانی سماج کی ثقافت اور ڈھانچے کو ملحوظ رکھ کر ترتیب نہیں دیا گیا۔یہاں کسی فارمیسی پر چلے جائیں ،وہاں کائونٹر کے سامنے رسیاں بندھی ہوں گئیں اور لکھا ملے گا کہ کائونٹر پر بھیڑ نہ جمائیں،فاصلہ رکھیں اور کاونٹر کو ہاتھوں سے مت چھوئیں،مگر لوگ رسیوں کو اُوپر سے کاونٹرپر جھکے پڑے ملتے ہیں۔اسی طر ح کسی بینک میں چلے جائیں ،تو وہاں بینک کا عملہ تک ،ایسا مل جائے گا ،جس نے ماسک نہیں لگایا ہوا ہوگا اور کسٹمر ز بغیر ماسک کے باہر ایک دوسرے سے جڑکر قطار میں لگے ہوتے ہیں۔یہ جو بیس نکات ہیں ،یہ ہمارے لیے نہیں بلکہ اُس ثقافت کے حامل افراد کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں،جو معیاری ثقافت کے حامل ہوتے ہیں۔ہمارے ایک دوست ثقلین سرفراز کے مطابق’’معیاری ثقافت، اُنہی افراد کی ہوتی ہے جو بنیادی ضروریات زندگی سے آگے نکل چکے ہوتے ہیں‘‘ہم تو ابھی ضروریات زندگی کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ گذشتہ شب ،جب پہلی تراویح کی نماز ادا کی جارہی تھی ،مَیں نے ذاتی طورپر جا کر مسجد میں دیکھا،د و طویل صفوں میں نمازی کندھے سے کندھا جوڑے ہوئے تھے۔صبح 92نیوز چینل پر دیکھا کہ خبر چل رہی تھی ’’ملک بھر کی اکثر مساجد میں بزرگ شہریوں کی بڑی تعداد تراویح کے لیے پہنچی، نمازِ تراویح کے اہم ترین ایس اوپیز پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔پچاس برس کے بزرگ پہلے ہی روز نماز میں شریک‘‘اب ذرا غور کریں کہ جو بیس نکات کا اہم ترین نکتہ تھا ،اُس پر پہلے ہی روز عمل نہ ہوسکا۔دَرحقیقت یہ نکات قابلِ عمل تھے ہی نہیں۔جس معاشرت کے لوگ گاڑی کا سیٹ بیلٹ ،اُس وقت لگائیں ،جب سامنے ٹریفک پولیس کا اہلکار دکھائی دے،آپ اُن سے توقع کرتے ہیں کہ وہ حکومت اور علماء کے طے کردہ ایس اوپیز پر عمل کریں گے۔دوسری طرف واقعہ یہ ہے کہ ملک بھر کی ہزاروں مساجد کی انتظامیہ کو اِن ایس اوپیز کے بارے صحیح طورپر معلوم ہی نہیں ہوگا۔ یہاں زندگی سے محبت اور اس کے تحفظ کا سبق بہت کم پڑھایا گیا ہے۔ آج کل ایک غیر ملکی ڈرامے کا چرچا ہے ،جس کے مناظر میں تلواریں، گردنیں اُڑاتی ہیں،یہ دیکھنے کے لیے لوگ پُرجوش ہیں اور تشہیری مہم چلارہے ہیں۔بصد احترام کہنا چاہتاہوں کہ حکومت سے ،علماء سے ،عام شہریوں سے شدید مایوس ہوئی ہے۔یہ مایوسی ہر اُس شہری کی جانب سے ہے ،جو اُصولوں اورقوانین پر عمل کرنا نیکی اور عبادت سمجھتا ہے۔اس حکومت نے ،حکومتی ذمہ داروں نے اور عوام نے کورونا وباء سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اور شعور پر مبنی روّیہ روا نہیں رکھا،پھر یہ کہ جو اختیار حکومت کو حاصل ہے ،اُس اختیار کے کئی دعوے دار میدان میں ہیںاور وہ کورونا سے نمٹنے کے لیے حکومتی کردار نبھانے کی کوشش کررہے ہیں یا حکومت کے لیے رکاوٹ بن رہے ہیں ۔