آج پہلے توقارئین اور پوری قوم کو سال نو مبارک ، رخصت ہونے والا سال یقینا پاکستان میں عدلیہ کا سال رہا، اللہ کرے نیا سال ہمارے کیلئے عدل کا سال بن جائے،انصاف کا سال بن جائے، میں اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی،سپریم کورٹ کے سینئیر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کو نیا چیف جسٹس آف پاکستان بنائے جانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جا چکا ہے، بابا جی سترہ جنوری کو ریٹائر ہو جائیں گے اور نئے چیف جسٹس اگلے دن حلف اٹھا لیں گے، گو نئے چیف جسٹس کی مدت ملازمت صرف گیارہ مہینے ہی ہے لیکن ان سے قوم کی کئی توقعات بندھی ہوئی ہیں، وہ ایک دلیر اور جمہوریت پسند منصف ہیں جنہوں نے مشرف دور میں پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا،وہ یوسف رضا گیلانی کیس اور پاناما کیس جیسے بڑے بڑے کیسز کے فیصلے صادر کر چکے ہیں، ان سے یہ توقع بھی ہے کہ وہ سب سے پہلے عدلیہ میں انقلابی اصلاحات کریں گے اور عام آدمی کو انصاف اس کے گھر کی دہلیز تک پہنچائیں گے،یہ میں بھی چاہتا ہوں اور عدل و انصاف سے محروم ہر عام آدمی کی بھی امید ہے۔ ٭٭٭٭٭ کئی سال بعد اس برس میں نے بھی نیو ایئر نائٹ دوستوں کے ساتھ گزاری، 31دسمبر میری شادی کی سالگرہ کا دن ہے، سو گھر سے نکلنے سے پہلے بیگم اور بچوں کے ساتھ کیک کاٹا، میں بہت سالوں کے بعد کسی نیو ائیر پارٹی میں گیا، اس پارٹی پر نئی نسل کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی حکمرانی تھی، ان کی مہربانی کہ انہوں نے اپنے ساتھ ہمیں بھی مدعو کیا، اس سال نیو ائیر نائٹ کی خاص بات یہ تھی کہ شہر کے کسی راستے پر پولیس نے روایتی ناکے نہیں لگائے تھے، ناکے تھے لیکن صرف شہریوں کی حفاظت کیلئے،امسال لوگوں کے منہ سونگھ سونگھ کر نوٹ نہیں چھاپے گئے، لڑکے لڑکیوں کو حوالاتوں میں بند کرکے اس کی تصویریں اخبارات میں نہیں چھپوائی گئیں ،ان بچوں کے والدین کو تھانوں میں بلوا کر پیسے نہیں بٹورے گئے، غل غپاڑا کرنے کے الزام میں پکڑے گئے نوجوانوں کو اگلے دن عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا ،میں تو کئی مقامات پر رات گئے عام پولیس کے بجائے ٹریفک پولیس کو دیکھ کر حیران ہوا، شاید ان کی ڈیوٹی نیو ائیر پارٹیوں سے واپسی پر گھر کا راستہ بھول جانے والوں کی مدد کے لئے لگائی گئی تھی، واقعی یہ رات مجھے لبرل اور آزادی پسند جوانوں کی رات لگی اور دکھائی دیا کہ واقعی تبدیلی آ چکی ہے اس نسل کیلئے جنہوں نے عمران خان کو ووٹ دیے۔ ٭٭٭٭٭ نئے سال کی ایک بڑی خبرڈونلڈ ٹرمپ کا عمران خان کے نام نئے سال کا پیغام ہے،یہ واقعی ایک شا ندار میسج ہے، جس میں کہا گیا ہے وہ پاکستان کی نئی قیادت سے جلد ملاقات چاہتے ہیں ، ان کی خواہش ہے کہ اسلام آباد سے اچھے تعلقات استوار ہوجائیں، ہمیں اس پیغام کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے اسی امریکی صدر کے گزشتہ سال کے نیو ائیر میسج کو یاد کرنا پڑے گا،پچھلے سال ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا،،، ہم نے گزشتہ پندرہ برسوںمیں پاکستان کو تنتیس ارب ڈالر کی امداد دی جو ہماری حماقت تھی، ٹرمپ نے پاکستان پر دھوکہ دہی اور جھوٹ بولنے کے الزامات عاید کئے۔ اس کے بعد امریکہ نے پاکستان کی سکیورٹی معاونت سے بھی ہاتھ اٹھا لیا، ابھی حال ہی کی بات ہے کہ واشنگٹن نے پاکستان کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے والا ملک قرار دیتے ہوئے اسے خصوصی واچ لسٹ میں شامل کر لیاتھا لیکن بعدازاں نام نکال دیا۔ واشنگٹن اب واحد سپر پاور کے طور پر وہ امریکہ نہیں رہا جسے ہم سامراج کہا کرتے تھے، اگر ہم آج کے روس کو مائنس بھی کر دیں تب بھی چین آج امریکہ کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے وہ ہمارے خطے میں پوری طرح پاؤں جما چکا ہے، پاکستان کیلئے آج اس کی دوستی ہی کافی ہے، پاکستان کیلئے دروازہ امریکہ نے خود بند کیا تھا اور اب خود ہی کھول رہا ہے، بہرحال یہ ایک اچھا اقدام ہے، اس امریکی پیغام میں اگر تاخیر ہوجاتی اور سی پیک منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا تو پھر واشنگٹن بانسری بجاتا ہی رہ جاتا، امریکہ کا ساتھ دے کر دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان اب تک صدمے سہتا چلا آ رہا ہے ، دو دن پہلے ہی ہمارے چار اور جوانوں کو شہادت کا رتبہ ملا، امریکہ نے اب سدھرنا شروع کیا ہے تو اسے جاری بھی رکھے پاکستان تو اب اس کے لئے اور بھی اہم ہوگیا ہے، پوری دنیا نے دیکھا کہ امریکی درخواست کے دو دن بعد ہی پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آیا۔ ٭٭٭٭٭ 2018ء پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کیلئے بہت بھاری رہا، نواز خاندان کیلئے تو واقعی یہ سال بہت پر آشوب تھا، نواز شریف کو عمران خان نے مغل اعظم کا خطاب دیا تھا اور یہ خطاب بھی اس سال حقیقت کے قریب قریب رہا، پورا سال لوگوں کو بہادر شاہ ظفر یاد آتے رہے، مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ کو جن جن مصائب اور حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا، نواز خاندان کے مصائب اس سے کم نہیں تھے، نواز شریف کی سب سزائیں ختم بھی ہو جائیں تو بھی وہ عمر بھر کیلئے نا اہل تو رہیں گے ہی۔۔ اور اگر ن لیگ کی سیاست سے نواز شریف آؤٹ ہیں تو باقی کچھ بچتا نہیں ہے، اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ مریم نواز نے مستقبل کی سیاست کیلئے اپنی جگہ بنائی ہے، لیکن گھر کے لوگوں سمیت کوئی ن لیگی ان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا سوائے پرویز رشید کے۔۔۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا حال ن لیگ کے حالات سے مختلف نہیں، لیکن وہاں آصف زرداری کے بعد قیادت بلاول کی شکل میں موجود نظر آتی ہے، بلاول نے ایک ہی ملک گیر عوامی سفر میں عوام کو اپنی جانب متوجہ کیا، اور مخالفین نے بھی اسے سراہا، شاباش دی، قومی اسمبلی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا تیسرے نمبر پر آجانا ایک بڑی تبدیلی قراردیا گیا، لیکن کیا بلاول کو ٹکنے دیا جائیگا؟ اسے قبول کر لیا جائے گا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہمارے پاس نہیں، دوسری اہم بات یہ کہ پنجاب سے ن لیگ کو اکھاڑنا تو آسان ہو سکتا ہے، اندرون سندھ سے پیپلز پارٹی کا مکمل صفایا ابھی تک تو مشکل ہی لگتا ہے، سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی اس ایشو پر کسی غیر سندھی مداخلت کو قبول نہیں کریں گی۔ ٭٭٭٭٭ جاتے جاتے ایک مشورہ وزیر اعظم عمران خان کیلئے۔چار مخالفین کو راستے سے ہٹا کر کبھی کسی گھوڑے کو فاتح قرار نہیں دیا جاتا، جس چیز کی مخالفت نہیں ہوتی وہ چیز کسی کے لئے اہم نہیں ہوتی، مقابلہ کریں لیکن صرف پرفارمنس سے، وفاق میں بھی اور صوبوں میں بھی۔ ٭٭٭٭٭ پاکستان میں صحافت، صحافیوں، میڈیاہاؤسز اور میڈیا مالکان پر برا وقت ہے، یہ حالات نئی حکومت کی میڈیا پالیسی کے باعث پیدا ہوئے ہیں، عمران خان ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ایک سوچ رکھتے ہیں، دوسری جانب یہ بھی بہت تلخ حقیقت ہے کہ حکومت سے سالانہ کروڑوں روپے کے سرکاری اشتہارات لینے والے کئی میڈیا ہاؤسز میں صحافیوں کے پاس اپوائٹمنٹ لیٹرز ہیں نہ انہیں تنخواہیں دی جاتی ہیں، ییلو جرنلزم بھی انہی حالات کی پیداوار ہے، اشتہارات کی قیمتیں کم کرنا تھیں تو پہلے ایک کھلی کمیٹی قائم کی جاتی اور اس کی فائنڈنگ کو پبلک کیا جاتا، سب پتہ چل جاتا کہ کون کیا کر رہا ہے اور ان ایشوز کا حل کیا ہے، ملک بھر سے ہزاروں صحافیوں کی چھانٹیاں بے شک آزادی صحافت اور تحفظ روزگار کی مد میں آتی ہیں۔