آج آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کے سفاکانہ حملے کے دل سوز واقعہ کی چوتھی برسی منائی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس حملہ کے محرکات کا کھوج لگانے کے لئے حال ہی میں ایک جوڈیشل کمشن تشکیل دیا ہے جو غالباً اگلے ہفتے اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرے گا۔ جس کے بعد ہی اس سانحہ کے متاثرین کے زخموں پر مرہم اور اس اذیت کا مداوا ممکن ہو سکے گا۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یہ جائزہ بھی لیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیا کھویا اور کیا پایا، بالخصوص گزشتہ دو دہائیوں کے دوران۔ یقینا پاکستان کی داخلی سکیورٹی کی صورتحال میں رفتہ رفتہ بہتری آ رہی ہے۔2018ء میں جو سکیورٹی ریویو جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق گزشتہ برس کی نسبت ملک میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں 30سے 35فیصد تک کمی آئی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل کمی سکیورٹی اداروں میں حوصلہ افزائی کا باعث بن رہی ہے جن کی رائے ہے کہ اگر یہی صورتحال 3سے 4سال تک برقرار رہتی ہے تو پھر پاکستان دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مکمل فتح کا اعلان کر سکتا ہے۔ انسداد دہشت گردی کا وہ فریم ورک جو اے پی ایس حملے کے بعد تشکیل دیا گیا تھا نتائج کے لئے جتا ہوا ہے مگر ابھی تک اس لیول تک نہیں پہنچ سکا جہاں ہم یہ محسوس کر سکیں کہ کامیابی مستحکم اور فریم ورک میں بہتری آ رہی ہے۔ ستمبر میں نیکٹا کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ہوا ۔نیکٹا کے سربراہ خالق داد لک نے اجلاس میں تجویز دی کہ نیکٹا کو رول بیک کر دیا جائے اور تمام انٹیلی جنس اداروں کے مشترکہ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے منصوبے کو بھی منسوخ کر دیا جائے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ جائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ ہی کو نیکٹا کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ مگر یہ ڈائریکٹوریٹ تاحال فعال نہ ہو سکا نیشنل کوآرڈینیٹر نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ اس ادارے کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے کیونکہ ملکی خفیہ اداروں نے کبھی بھی اس تصور کی حمایت نہیں کہ تمام خفیہ اداروں کا مشترکہ ڈائریکٹوریٹ بنایا جائے کہ ان کا خیال ہے کہ جائنٹ ڈائریکٹوریٹ خفیہ اداروں کو سول انتظامیہ کے ماتحت لانے کے لئے بنایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے نیکٹا کے کردار اور افعال کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی بنا دی ہے تاہم ابھی تک کمیٹی کے مستقبل کا کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ نیشنل ایکشن پلان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خلاف مشترکہ حکمت عملی تھی لیکن اس پر بھی پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ گزشتہ چار برسوں میں کوئی ایک بھی ادارہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا معاملہ ہمیشہ نیکٹا ‘ وزارت داخلہ‘ نیشنل سکیورٹی کمیٹی اور مختلف ایپکس کمیٹیوں کے درمیان متنازعہ بنا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اداروں کے تامل کی پالیسی کے بجائے جنگ میں کامیابی کا انحصار قومی موقف پر ڈٹ جانے پر ہے۔ تمام اداروں کو اپنی اپنی جگہ اپنے اپنے حصے کا کام چابک دستی اور اخلاص سے کرنا ہو گا ۔ملک میں جو اب تک امن کی فضا قائم ہو سکی ہے اور جو کامیابیاں ملی ہیں پاک فوج ‘ پیرا ملٹری دستوں‘ پولیس‘ سیاسی رہنمائوں، میڈیا ،سول سوسائٹی یہاں تک کہ مذہبی حلقوں کی قربانیوں کا ہی ثمر ہیں۔ اگر سکیورٹی ادارے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لڑے ہیں تو پارلیمنٹ اور سول اداروں یہاں تک کہ سوسائٹی نے اس جنگ کی اونر شپ قبول کی ہے۔ سول سوسائٹی اور میڈیا نے دہشت گردی کے خلاف بیانیہ کی تشکیل میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ یہ تمام سٹیک ہولڈر کی مشترکہ کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان جس کے قیام کو اس ماہ11 برس ہو چکے ہیں اس کا بیانیہ مسترد کیا جا چکا ہے اور آج تحریک طالبان کو ملک میں سپورٹس بیس بنانے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ ہم نے ان برسوں میں کیا کھویا؟ دہشت گردی کے خوف کے سائے میں ہماری ایک نسل جوان ہو چکی ہے اور انتہا پسندی مختلف حوالوں سے ہمارے انفرادی اور ادارہ جاتی رویوں میں سرایت کر چکی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت گہرے زخم کھائے ہیں۔ جو کبھی اور ملک کے اندر اور باہر پاکستان کے مفادات کے محافظ سمجھے جاتے تھے۔ یہ بھی المیہ ہی ہے کہ ریاست ابھی تک اپنی غلطی درست کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے جو آج بھی دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ کے بارے میں ابہام کی وجہ بن رہا ہے۔ اے پی ایس حملے کے محرکات جاننے کے لئے جو جوڈیشل کمشن رواں برس تشکیل دیا گیا وہ پہلے بن جانا چاہئے تھا۔ اس طرح دہشت گردوں کا اوپن ٹرائل بھی ضروری ہے۔ مگر ریاست ان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلا رہی ہے۔ فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ افراد کی 75رٹس سماعت کے لئے منظور ہو چکی ہیں۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور دائیں بازو کی تحریکیں جیسا کہ پی ٹی ایم کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کو ہدف تنقید بھی بنایا جا رہا ہے اور یہ صورتحال گزشتہ ایک دہائی پر مشتمل ہے۔ حکومتی رٹ کے نام پر انفرادی آزادیوں پر قدغن لگانے کا حوصلہ بڑھا ہے۔ قانون کی حکمرانی کے بجائے کنٹرولڈ رجیم کے نظام کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ قانون کی حکمرانی ایک جمہوری تصور ہے۔ اس کے برعکس رٹ آف سٹیٹ کا نظرئیے میں لاانفورسمنٹ کے اداروں کو بالادستی حاصل ہو جاتی ہے جو وہ پہلے ہی رکھتے ہیں۔ توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسا کہ پولیس کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا ان کی کارکردگی بہتر ہو جائے گی جبکہ ہوا اس کے بالکل برعکس ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پولیس کی صلاحیت کم ہوئی ہے اور پیرا ملٹری فورسز سے پولیسنگ کا کام لیا جا رہا ہے۔ پولیس جو پہلے ہی مسائل کا شکار تھی سکیورٹی اداروں کے غلبہ کے باعث مزید دبائو کا شکار ہو گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی اداروں کے افعال کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سول اداروں کو مضبوط کرنے کا جو وعدہ اور منصوبہ بندی ہوئی اس پر عملدرآمد کیا جائے۔ ہر وہ میکنزم یا باڈی جو ادارہ جاتی افعال کو مضبوط و مربوط کر سکتی ہے اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیاں لائق تحسین ہیں مگر یہ جنگ ابھی جیتنا باقی ہے۔ سانحہ اے پی ایس کو اپنے بیانیہ اور مستقبل کی حکمت عملی کو مربوط کرنے کے لئے ہمارے لئے تحریک کا باعث ہونا چاہیے۔