پاکستانی میڈیا آج جہاں کھڑا ہے ، کیا اس سے وہ مزید تنزلی کی جانب جائے گا؟ یعنی مزید اخبارات و چینل بند ہوں گے اور ساتھ ہی مزید بے روز گار میڈیا ورکرز کی فوج ظفر ِ موج میں اضافہ ہوگا۔یا پھر اس بحران سے نکلنے کی اب بھی امید رکھنی چاہئے۔ معروف محاورہ ہے کہ ’’امید پر دنیا قائم ہے‘‘ مگر یہ مقولہ میڈیا پر پورا نہیں اترتا کہ محض ’’پیوستہ رہ شجر ‘‘ سے ماضی کے سنہری خوشگوار دن واپس نہیں آسکتے۔ اس کے لئے تینوں بڑے اسٹیک ہولڈرز یعنی حکومت،میڈیا مالکان اور ملازمین کو اپنے ماضی کے کردار پر ’’توبہ تلی‘‘ کرنی ہوگی۔ان میڈیا ہاؤسز کا اتنا بڑا فائننشل امپائر اور پھرصحافتی اور سیاسی طور پر اتنے اثر رسوخ کے حامل ہونے کا سبب یقینا ان کی شب و روز کی محنت ،ریاضت اور ذہانت کو تو جائے گا ہی مگرماضی کی سویلین، فوجی حکومتوں کی سرپرستی بھی ان کی بلند و بالا امپائر بنانے میں حصے سے زیادہ جثہ ڈالتی رہیں۔حکومتوں سے میڈیا ہاؤسز کی اور ملازمین خاص طور پر ان کی یونینوں کی حکومتوں اور میڈیا ہاؤسز سے لڑائی کی ایک طول طویل تاریخ ہے۔عام طور پر ہمارا قبیلہ جس میں اسکرینوں پر دن رات گولہ باری کرتا رہتا ہے،میڈیا مالکان سے بھی ہمارے Love/Hateتعلقات چلتے رہے ہیں۔مگرحالیہ برسوں میں خاص طور پر سکرین والوں اور کالم نویسوں کی جو ’’گڈی‘‘ چڑھی ہے ،اُس کے بعد ہماری برادری کا خود احتسابی کا ’’خانہ‘‘باجو والی گلی سے نکل چکا ہے۔پہلے اخبارات و جرائد اور اب الیکڑانک میڈیا میں جس طرح ورکنگ جرنسلٹوں نے میڈیا ہاؤسز کی جنگ میں اُن کا دیا ہوا قلم اور مائک پکڑاوہ بھی کچھ کم قابل مذمت نہیں۔ابھی چند دن پہلے کراچی پریس کلب میں ایک سینئر نے ٹوکا،’’آپ یہ ماضی کے مردے اپنے کالموں میں زیادہ نہیں اکھیڑتے،جس سے حال کی تاریخ پس منظر میں چلی جاتی ہے‘‘ صحافت کا روایتی آدمی ہوں۔سینئر سے مکالمہ نہیں کیا جاتا ۔بدقسمتی سے ہمارے آج کے صحافتی سرخیل اور کھڑ پینچ اس کی ضرورت ہی محسوس ہی نہیں کرتے کہ خود آج ہماری برادری جن مسائل و مصائب سے دوچا ر ہے اُس کا ذمہ دار خود صحافتی برادری کتنی رہی ۔ہماری صحافتی دنیاکے ایک گمنام سپاہی محترم ضمیر نیازی تھے۔ محترم ضمیر نیازی اپنی کتاب’’صحافت پابندِسلاسل‘‘ کی تاریخ میںجاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں اُس وقت کی اخباری دنیا کے بڑوں نے جو کردار ادا کیا ۔اُسے تاریخ میں سیاہ حرفوں سے ہی لکھا جائے گا۔محترم ضمیر نیازی اپنی اس کتاب کے صفحہ 103-104میں لکھتے ہیں: سول اینڈ ملٹری گزٹ کے خلاف اقدام جناح کی وفات کے بمشکل نو مہینے بعد اپریل1949میں سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اپنے نئی دہلی کے نمائندے ،این اے کمار کی ایک رپورٹ شائع کی جس سے اشارہ ملتا تھا کہ بھارت اورپاکستان کے درمیان ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم کے سمجھوتے کافارمولا زیر بحث ہے اور یہ کہ اس سلسلے میںجلد ہی ایک معاہدہ ہونے کی توقع ہے۔حکومت پاکستان نے فوری طور پر اس رپورٹ کی تردید کی ۔اگلے روز گزٹ نے پہلے صفحے پر تردید شائع کی اوررپورٹ کے شائع کرنے پر معذرت کااظہار کیا۔اخبار نے یہ بھی اعلان کیا کہ ذمے دار ذرائع سے تصدیق کئے بغیر رپورٹ بھیجنے کی پاداش میں نئی دہلی کے نمائندے کو برطرف کردیا گیاہے۔لیکن سول اینڈملٹری گزٹ کے خلاف ایک مہم شروع کردی گئی ۔6مئی1949کو مغربی پاکستان کے کم از کم سولہ سو روزناموں (ایک حیران کن تعداد!)میں ایک مشترکہ اداریہ شائع ہوا(مشرقی پاکستان کے اخباروں نے اس کورس میں شامل ہونے سے انکار کردیا تھا)جس میں سول اینڈ ملٹری گزٹ کے سر کا مطالبہ کیا گیا۔صرف امروز کے چراغ حسن حسرت ؔ نے اداریہ شائع کرنے سے انکار کیا۔لیکن وہ اپنے انکار پر صرف چوبیس گھنٹے قائم رہ سکے۔امروز میں یہ اداریہ اگلے روز 7مئی1949کو شائع ہوا۔اُسی دن ویسٹ پاکستان پریس ایڈوائزری کمیٹی نے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا۔مشترکہ ادارئیے اور ایڈوئزری کمیٹی کے مطالبے کا لب لباب یہ تھا کہ ’اخبار نے دیانت دارانہ صحافت کے بنیادی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔‘’غداری‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے ادارئیے میں ایک قدم اور آگے جا کر کہا گیا: پیشہ ورانہ بداطواری سے قطع نظر ،مذکورہ اخبار نے ہماری سوچی سمجھی رائے میں،ہماری ریاست سے غداری کے عمل کا ارتکاب کیا ہے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ گورنر مغربی پنجاب کو سول اینڈ ملٹری گزٹ کے خلاف فوری طور پر تعزیری اقدام کرنا چاہئے اور ایک مناسب عرصے کے لئے اس کی اشاعت پر پابندی عائد کردینی چاہئے ۔اگر گورنر یہ کارروائی کرنے سے قاصر رہے تو ہم مرکزی حکومت سے مداخلت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔اس کے پاس ایسا کرنے کیلئے اختیارات موجود ہیں۔ ابرار صدیقی کے مطابق ، جو اُس وقت ’امروز‘ کے عملے میں شامل تھے، یہ مشترکہ اداریہ کراچی کے ایک انگریزی روزنامے کے ایڈیٹر نے تحریر کیا تھا اور ایک اور انگریزی روزنامے کے ایڈیٹر نے اس کا لہجہ ’نرم ‘کرنے کا کام سرانجا م دیا تھا۔مصنف یہ پتا چلانے میں ناکام رہا کہ اس کا اردو ترجمہ کس نے کیا تھا۔مولوی محمد سعید نے جو اس وقت پاکستان ٹائمز کے نیوز ایڈیٹر تھے ادارئیے کی تصنیف کے معاملے پر خاصی روشنی ڈالی ہے۔وہ لکھتے ہیں : فاضل ایڈیٹر حضرات پاکستان ٹائمز کے دفتر میں جمع ہوئے ،نیوز روم کے برابر والے کمرے میں الطاف حسین ،حمید نظامی اور فیض احمد فیضؔ کی میٹنگ ہوئی۔سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر ڈبلیو ایف بسٹن بھی آئے ۔سب سے زیادہ الطاف حسین کے گرجنے کی آواز آرہی تھی۔حمید نظامی کم گو آدمی تھے۔وہ دھیمے لہجے میں بات کررہے تھے۔البتہ فیض بہت مضطرب معلوم ہوتے تھے۔اور بار بار نیوز روم میں آتے اور کہتے تھے :یہ کیا ہو رہا ہے؟۔ وہ نہ خود کو اس محاذ آرائی سے الگ کرسکتے تھے اور نہ اس پر اپنی ناگواری کو چھپا سکتے تھے۔جسمانی طور پر وہ الطاف حسین اور نظامی کی گرفت میں تھے۔اور روحانی طور پر کہیں اور تھے۔ممکن ہے وہ لائحہ عمل سے اختلاف رکھتے ہوں۔مگر پاکستان ٹائمز نے یہ کڑوی گولی نگلی اور اگلے روز مشترکہ اداریہ شائع کیا۔ مشترکہ اداریہ مندرجہ ذیل اخباروں نے شائع کیا،ایڈیٹروں کے نام قوسین میں دئیے گئے ہیں۔ کراچی کے روزنامہ ڈان(الطاف حسین)/ڈان گجراتی(نور محمد جمال نو ر میمن )/ڈان اردو (فضل احمد صدیقی)/جنگ (میر خلیل الرحمان )/انجام (عمر فاروقی)/سندھ آبزرور(پیر علی محمدراشدی)/ الوحید سندھی(عبدالغفور سیتائی)/ لاہور کے روزنامہ پاکستان ٹائمز (فیض احمد فیضؔ)/نوائے وقت (حمید نظامی )/امروز (چراغ حسن حسرتؔ)/زمیندار (اختر علی خاں)/سفینہ ( وقار انبالوی)/ انقلاب (غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک)/غالب(میر نور محمد)/مغربی پاکستان(خلیل احمد)/ جدید نظام(امین الدین صحرائی) عظیم ایڈیٹروں کے مطالبے کو اولین ترجیح دی گئی اور اخبار کو چھ مہینے کے لئے بند کردیا گیا۔اخبار اس سرکاری اقدام کے اثرات سے کبھی نہ سنبھل سکا۔اس کی تعداد اشاعت اور کاروباردونوں تباہ ہوگئے۔