میڈیا کے بحران پر قلم گھسانا شروع کیا تو علم تھا کہ یہ ایک’’ بحرِ بیکراں‘‘ ہے کہ قیام ِ پاکستان کے بعد ہی سے خاص طور پر بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد ہمارے حکمرانوں کا انداز ِ حکمرانی ، مطلق العنانی اور محلاتی سازشوں پر مبنی تھا۔ ایک آزاد پارلیمانی ،جمہور ی معاشرے ہی میں آزاد صحافت کی پرورش اور فروغ ہوتا ہے۔1947ء سے اکتوبر1958ئیعنی فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی مارشل لائی حکومت آنے تک ‘سیاسی حکومتوں نے جو کھلواڑ اس بدقسمت قوم اور ریاستی اداروں کے ساتھ کیا۔۔ ۔ اُس کے بعد ایک فوجی ڈکٹیٹر سے خیر کی امید کیوں کر رکھی جاسکتی تھی۔ گذشتہ کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ ایوبی حکومت نے اقتدارمیں آنے کے محض چھ ماہ بعد پہلا حملہ اُس وقت کے سب سے بڑے آزاد ،روشن خیال میڈیا گروپ پر کیا،یعنی پاکستان ٹائمز ،روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار کو جس طرح زندہ درگور کیا گیا اور اس پر جس طرح ’’برادر‘‘ میڈیا گروپس نے برادران ِیوسف ؑ کا کردار ادا کیا ،وہ ہمیشہ ہماری صحافتی تاریخ میں،سیاہ حرفوں سے لکھا جائے گا۔یقینا اس وقت کی صحافتی تنظیموں نے اس پر بھرپور مذمت کی مگر ایوبی مارشل لا کی دہشت کے سبب یہ ’’مزاحمت‘‘ کوئی ایسی بڑی تحریک نہ بن سکی جس سے میاں افتخار الدین کے پروگریسو پیپر ز بحال ہوتے۔ رہی سہی کسر پریس اینڈ پبلی کیشنزآرڈی ننس نے پوری کردی۔ جس کے خالق مشہور بیوروکریٹ اور دانشور محترم مرحوم الطاف گوہر کو ٹھہرایا جاتا تھا۔ہمارے محترم الطاف گوہر نے بعد کے برسوں میں اپنی تحریروں سے صحافتی اور ادبی دنیا میں بڑا مقام بنایا مگر ’’پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی ننس ‘‘ کی پھبتی نے اُن کا ساری زندگی پیچھا نہیں چھوڑا۔فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دو ر میں اس بدقسمت قوم پر کیا کیا مصائب و آلام توڑے گئے۔ اور کس طرح جمہوریت اور آزاد میڈیا کا گلا دبا یا گیا۔وہ در اصل آئندہ کے برسوں کے لئے ایک سنگ میل بنا۔جنرل ایوب خان کے دور میں پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی لہر اور مشرقی پاکستان میں عوامی بغاوت کے دوران یقینا وقتی طور پر اخباری دنیا کو آزادی ملی۔جنرل یحییٰ خان کے مختصر دور ِحکومت میں بھی بڑی حد تک اخبارات اور آزادی ِ اظہار سے کوئی بڑا ناروا سلوک نہ ہوا۔مگر توقعات کے برعکس قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی جس طرح اخبارات اور اُن کی تنظیمیں اور قیادت کے خلاف جابرانہ قوانین کا آغاز ہوا۔اُس نے بھٹو صاحب کی مقبولیت پر ضرب ِ کاری تو لگائی ہی۔۔۔مگر پھر یہی بتدریج اُن کے اقتدار کے زوال کا باعث بھی بنا۔بھٹوصاحب کے بعد جنرل ضیا ء الحق کے دورکو تو پاکستان کی سیاسی اور صحافتی تاریخ کا بدترین دور ہی کہا جائے گا کہ محض اس دور میں آزا د پاپولر میڈیا پر پابندی ہی نہیں لگائی گئی بلکہ دنیا کی تاریخ میںپہلی بار کوڑے مارنے کی سزائیں تک دی گئیں۔یہاں یہ بات بھی بڑے احترام سے ریکارڈ پر لانے کی جسارت کروں گا کہ ’’بھٹو‘‘ دشمنی میں صحافیوں کا ایک بڑا اور موثر حلقہ ’’مردِ مومن ،مرد حق ضیاء الحق ‘‘ کے نام کی تسبیح پڑھتا رہا۔میں اپنے محترم بزرگ دوست الطاف حسن قریشی ،مجیب الرحمان شامی اور عبدالقادر حسن کی اس استقامت اور کمٹمنٹ پر داد دوں گا کہ وہ آج بھی ماضی کی تاریخ الٹتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کے دورِ سیاہ کو سنہری الفاظ میں لکھنے کی روایت پر قائم ہیں۔آج کے میڈیا کو در پیش بحران پر لکھتے ہوئے احساس ہے کہ تاریخ کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا ہوا چوتھے کالم پر آگیا ہوں ۔ ۔ ۔ اس بات کا بھی ادراک ہے کہ بقول مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ : غالبؔ وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں سو خود پیٹ اسکرین سے لگا ہے۔اس لئے مزید تفصیل میں جائے بغیر صدر جنرل پرویز مشرف پر آجاتا ہوں ۔جنہیں دوست ،دشمن اس بات کا کریڈٹ دیتے ہیں کہ ماضی کے کسی سویلین،فوجی حکمراں سے زیادہ جنرل پرویز مشرف نے میڈیا کو محض آزادہی نہیں کیا بلکہ شتر بے مہار کردیا۔ خاص طور پر نجی ٹی وی چینلوں کا قیام ہمارے پاکستانی میڈیا کی تاریخ میں ایک انقلاب تھا۔ریاست کا وہ چوتھا ستون جو جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے سے قبل تک کھوکھلا ہوچکا تھا ۔ ۔۔ ہفتوں ،مہینوں میں اتنا طاقتور ہوگیا کہ بعد کے برسوں میں یہی ’’جنرل پرویز مشرف‘‘ کے اقتدار کو ہی کھا گیا۔انقلاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے بچوں کوکھا جاتا ہے۔سو یہی ہمارےpoorجنرل کے ساتھ ہوا۔یہاں تک پہنچا ہوں تو قلم تھّرا سا رہا ہے ۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جس اخبار میں کالم کی گھسائی سال بھر سے اوپر کر رہا ہوں اس میں کبھی ’’زیر،زبر،پیش‘‘ بھی تبدیل نہیں کیا گیا۔پھر 92گروپ خداکے فضل و کرم سے دیگر میڈیا گروپس کے مقابلے میں اس مالی بحران سے بھی نہیں گذر رہا جس کا ملبہ کارکن صحافیوں پر گرتا۔مگر جیسا کہ ابتداء میں بھی لکھا ،مسئلہ ،معاملہ حساس ہے ۔ ۔ ۔کیونکہ میڈیا کے موجودہ بحران کا ذمہ دار کسی ایک فریق کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ شریف اور زرداری حکومتوں کے بعد یقینا ہمارے خان صاحب کی حکومت کے میڈیا منیجرز بڑے کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ایک سے کئی بار وہ اپنے اس موقف کا اعادہ کرچکے ہیں۔۔۔کہ حکومت کا خزانہ خالی ہے۔وہ ماضی کی طرح اشتہار ات دینے میں ماضی کی طرح فراخد لی کا مظاہر ہ نہیں کر ے گا بلکہ سرے سے اُن کی حکومت اس بات کی پابند ہی نہیں کہ وہ ماضی کی حکومتوں کی طرح اتنا خطیر بجٹ میڈیا کے لئے رکھے۔تحریک انصاف کی حکومت کا یہ موقف ’’متنازعہ‘‘ ہوتے ہوئے بھی بہرحال اپنی جگہ وزن رکھتا ہے کہ بہر حال بصد احترام ہمارے بعض میڈیا گروپس نے جو سرکش ،خود سر اینکروں اور کالم کاروں کی جس فوج ِ ظفر موج کے ذریعہ ریٹننگ اور صرف ریٹننگ کو ترجیح دی،وہی اب اُن کے لیے ایسے مالی بوجھ کا باعث بنے کہ جس کا نزلہ درمیانے اور غریب مشاہرہ حاصل کرنے والے ملازمین پر گرا۔بیروزگار ی بھی کینسر کی طرح ایک بیماری ہے۔ اسی اور نوے کی دہائی میں ،میں اس سے گذر چکاہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ میڈیا ریاست کا چوتھا اور لازمی ستون ہوتا ہے ۔ابھی بھی وقت ہے کہ درمیانی راستہ تلاش کیا جائے اور اس بحران کے تینوں فریق ،یعنی حکومت،میڈیا ‘مالکان اور ملازمین ،جلد سے جلد ایک میز پر بیٹھ کر میڈیا کو اس بحران سے نکالنے کا راستہ تلا ش کریں جو مشکل تو ہے،ناممکن نہیں۔ (ختم شد)