اسلام آباد،لاہور (خبرنگار،نامہ نگارخصوصی) چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے میڈیا پر پابندیوں اور اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دیا ہے جبکہ ملک میں جاری احتساب پر بھی سخت سولات اٹھائے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ از خود نوٹس اختیار کے استعمال کیلئے رہنما اصول آئندہ فل کورٹ میٹنگ تک وضع کر کے اس معاملے کو ہمیشہ کیلئے حل کرلیا جا ئیگا۔بدھ کو سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کی تقریب کے دوران فل کورٹ سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا نام لئے بغیر کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ایک ریفرنس پر کارر وائی معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہونے پر روک دی گئی ہے جبکہ یقین دلایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ریفرنسز کا فیصلہ کسی دبائو سے بالاتر ہوکر آئین وقانون کے مطابق کیا جا ئیگا۔انہوں نے کہا کہ کسی کی آواز یا رائے کو دبانا بداعتمادی کو جنم دیتا ہے جس سے پیدا ہونے والی بے چینی جمہوری نظام کیلئے خطرہ ہے ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم بطور ادارہ اس تاثر کو بہت خطرناک سمجھ رہے ہیں کہ ملک میں جاری احتساب سیاسی انجینئرنگ ہے ،اس تاثر کو ختم کرنے کیلئے فوری اقدامات اشد ضروری ہیں تاکہ احتساب پر لوگوں کا اعتماد متزلزل نہ ہو ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انتظامیہ اور مقننہ کو عدالتی نظام کی تنظیم نو کیلئے نیا 3تہی نظام متعارف کرانے کی تجویز دی تھی لیکن حکومت اور پارلیمنٹ نے میری تجویز پر غور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ جوڈیشل ایکٹوازم کی بجائے عملی جوڈیشل ازم کو فروغ دے رہی ہے ،جوڈیشل ایکٹوازم کا مخالف طبقہ اسکے نہ ہونے پر بھی خوش نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ازخودنوٹس پر عدالتی گریز زیادہ محفوظ اور کم نقصان دہ ہے ۔ سوموٹو کا اختیار قومی اہمیت کے معاملات میں استعمال کیا جا ئیگا، کسی کے مطالبے پرلیا گیا سوموٹو نوٹس نہیں ہوتا۔ آئندہ فل کورٹ میٹنگ تک قواعد میں بھی ترمیم کر دی جائیگی۔انہوں نے کہا کہ آئین صدر مملکت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کسی جج کے کنڈکٹ کی تحقیقات کی ہدایت کرے لیکن صدارتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوتا، کونسل آزاد اور بااختیارہے ۔انھوں نے کہا کہ اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں 9 شکایات زیر التوا ہیں جن میں صدر ارتی 2 ریفرنس شامل ہیں تاہم انصاف کے سواکوئی بھی توقع نہ رکھی جائے ۔ دنیا بھر کی سپریم کورٹ میں پہلی بار سپریم کورٹ آف پاکستان نے ای کورٹ سسٹم متعارف کرایا۔اٹارنی جنرل انور منصور خان نے خطاب میں کہا کہ قانون کی حکمرانی میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے جس نے قیام پاکستان سے ہی عدالتی نظام کو جکڑ رکھا ہے ، ماتحت عدلیہ، پولیس، وکلا اور پراسیکیوٹرز کی سطح پر جدید نظام کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔وائس چیئر مین پاکستان بار کونسل سید امجد شاہ نے کہا کہ عدالت عالیہ کی طرف سے ماتحت عدالتوں پر مناسب اورمربوط نگرانی اور غیر جانبدارنگران نظام کا نہ ہونا عدالت عالیہ کی اہلیت پر سوالیہ نشان ہے ۔وٹس ایپ پر ججوں کے تبادلوں سے عدلیہ کی آزادی اورعزت و وقار پر حرف آتا ہے ۔ آئین کی بالادستی کیلئے ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے ۔صدر سپریم کورٹ بارامان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ مقدمات کے حتمی فیصلے تک میڈیا کو مواد نشر کرنے سے روکا جائے ،کسی کو معزز جج کی کردار کشی کا استحقاق نہیں ہونا چاہئے ۔اجلاس چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں ہوا جس میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کے سواتمام ججز موجودتھے ،تینوں جج چھٹی پر ہونے کے باعث شریک نہ ہو سکے ۔