بلوچستان کے بائیس اضلاع بدترین سیلاب کا سامنا کررہے ہیں۔ریل، مال بردار گاڑیوں اور دیگر ذرائع کی آمدورفت متاثر ہوئی ہے۔ پْل ٹوٹ چکے ہیں۔ لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ آخری اطلاعات کے مطابق جاری سیلاب میں 127افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب دریائے چناب میں آبی ریلے کی آمد کے ساتھ ہی ضلع جھنگ کے پچاس سے زائددیہات زیر آب آچکے ہیں۔ راجن پور ضلع بھی شدید سیلاب کی زد میں ہے جہاں ہزاروں افراد شدید مسائل کا شکار ہیں۔ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی کپاس کی فصل کو سیلابی پانی بہا کر ساتھ لے گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں قریباََ پچپن سال کا ایک شخص دریاکنارے بیٹھا زارو قطار رو رہا ہے۔ اپنے سر اور منہ پہ ملامت کرنے والے انداز میں ہاتھ مارتے ہوئے وہ لوگوں کو آوازیں لگارہا ہے اور سرائیکی زبان میں کہہ رہا ہے۔ ’ہائے اللہ! میڈے بال لْڑھ گِن‘۔ (ہائے اللہ! میرے بچے اس سیلاب میں بہہ گئے ہیں)۔ اس ایک جملے میں شامل کرب سننے اور دیکھنے والوں کے لئے ناقابل ِ برداشت ہے۔ ذرا لمحہ بھر کے لئے سوچئے کہ جنابِ آصف علی زرداری، محمد نواز شریف، محمد شہباز شریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، چاروں وزاء اعلیٰ، چاروں گورنرز، چیف سیکرٹریز، انسپکٹرجنرل آف پولیس سمیت دیگر حکومتی عمائدین دریا کنارے بیٹھے ہوں۔ بالکل اسی انداز میں رو رہے ہوں اور ہر ایک کہہ رہا ہو۔ ’ہائے اللہ! میڈے بال لْڑھ گِن‘۔ اللہ کرے ایسا کبھی کسی کے ساتھ بھی نہ ہو کہ اْس کے سامنے اْس کے بچے سیلابی پانی میں بہہ جائیں اور وہ کرب ناک انداز میں دھاڑیں مار کر ہاتھ ملتا رہ جائے۔ مگر ذرا تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ہماری تاریخ بتلاتی ہے کہ تین دریاؤں کو بھارت کے ہاتھ بیچنے میں اْس پچپن سالہ بزرگ کا کوئی ہاتھ نہیں جو دریا کنارے بیٹھا رو رہا ہے۔ کسی عام پاکستانی نے آج تک اپنے دریاؤں اور اْن پر بنے ہیڈورکس کو بھارت کے ہاتھ نہیں بیچا۔اگرچہ تین دریاؤں کو بیچنے کی کہانی طویل ہے مگر تکلیف دہ ہے۔ تین دریاؤں پر کنٹرول مضبوط کرنے کے بعد بھارت نے اْن دریاؤں میں آتے ہوئے پانی کارْخ اپنے ہیڈ ورکس کے ذریعے اپنی زمینو ں کی طرف موڑ دیا۔ یوں پاکستان کی جانب اِن دریاؤں میں پانی ختم ہوکررہ گیا اور لہلاتی فصلیں بنجر ہوگئیں۔مگر لوگوں نے دیگر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے دریائی زمینوں پر کاشت کاری شروع کردی۔ اِن دریاؤں کے ساتھ آباد لوگوں نے دریاؤں کے کناروں کے ساتھ جنہیں عرف ِ عام میں River Bedکہا جاتا ہے وہاں اپنے گھر بنانے شروع کردیے۔ اکثر اوقات انہی دریا ئی علاقوں میں گھر بنانے والے افراد بڑی سیلابی تباہ کاریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ جب حکومت امداد کا اعلان کرتی ہے تو حیران کن طور پر یہی وہ افراد ہوتے ہیں جن تک حکومتی امدا د اس لئے نہیں پہنچ پاتی کیونکہ انہوں نے دریائی علاقوں میں آباد کاری کی ہوتی ہے اور ایسی آباد کاری غیر قانونی ہونے کے سبب وہاں کی مقامی آبادی کو پٹواری، اور دیگر حکومتی افراد امداد بہم پہنچانے سے کتراتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب ایسی آباد کاری کی جارہی ہوتی ہے تو حکومتی ارکان کہاں غائب ہوتے ہیں؟ کیا ضلعی حکومت کی یہ ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہے کہ وہ سروے منعقد کرے، علاقوں کی حلقہ بندی کرتے وقت وہاں کی آباد ی کو بتلائے کہ وہ River Bed جیسی جگہوں پر گھر بنانے سے گریز کریں۔ بہ امر ِ مجبوری حکومت ایسی قانون سازی کرے کہ دریائی علاقوں میں آباد کاری کے کیا قوانین ہونگے۔ کن قوانین کے تحت کہاں اور کتنی دیر کے لئے کیسا گھر بنایا جاسکے گا۔ سیلابی تباہ کاریوں کی صورت میں وفاقی، صوبائی اور ضلعی حکومتیں دریائی آبادی کو کتنی امدا د فراہم کریں گی؟ یہ سب وہ مسائل ہیں جن کی طرف کبھی توجہ نہیں دی گئی۔یہاں صرف تب توجہ دی جاتی ہے جب کافی نقصان ہوچکا ہوتا ہے اور ہر بار ایسا ہی ہوتا آرہا ہے۔ ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں شاید یہ عوامی مسائل شامل ہی نہیں ہیں۔ وفاقی حکومت نے شمالی علاقہ جات میں 2005ء میں بدترین زلزلہ کے بعد نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی قائم کی اور ساتھ ہی صوبائی سطح پر ایسے ہی ادارے قائم کئے گئے۔ نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ایکٹ کو دیکھیں تو صدر پاکستان سے لے کر صوبائی وزرء اور سیکرٹریز تک اس درجہ بندی میں شامل ہیں مگر کام کی نوعیت دیکھیں تو قیام سے اب تک این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم ایز محض سیلاب کے دوران منہدم گھروں کی گنتی کرنے، اْن میں جاں بحق اور زخمی افراد کی تعداد معلوم کرنے اور اْنہیں امداد پہنچانے تک محدود ہیں۔ آج تک این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے یا دیگر کسی ادارے نے منظم انداز میں آبادکاری کے متعلق سوچنا ہی گوارا نہیں کیا۔ شہر پھیلتے جارہے ہیں، گاؤں قصبے اور قصبے شہر بنتے جارہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی میں ہوش ربا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ محکمہ ِبہبود ِ آبادی نے ہر صوبہ بلکہ ضلعی اور تحصیل کی سطح پر اپنے دفاتر قائم کررکھے ہیں مگر بڑھتی ہوئی آبادی کے حوالے سے کوئی واضح پالیسیاں نظر نہیں آتیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے بے شمار مسائل میں سے ایک مسئلہ دیہی اور دریائی علاقوں میں آباد کاری ہے۔ تقریباََ ہر سال پاکستان کو سیلاب کا سامنا کرتا ہے۔ اور ہر سال ہی ہم تباہی کا انتظارکرتے ہیں اور ہر سال حکومت تباہی کی صورت میں بین الاقوامی سطح پر بھیک مانتی ہے اور اْس بھیک کا بڑا حصہ بڑے بھکاریوں کی تجوریوں میں چلا جاتا ہے اور ہم پھر اگلے سال اْسی طرح کی تباہی کا انتظا ر کرتے ہیں۔ کیا وفاقی اور صوبائی سطح پر ایسی قانون سازی نہیں ہوسکتی؟ کیا سیلابی پانی کو ڈیموں اور ٹوبوں کے ذریعے کنٹرول کرکے منظم انداز میں قابل ِ استعمال نہیں بنایا جاسکتا؟ کیا اسی پانی سے ہم توانائی کے ذخائر میں اضافہ نہیں کرسکتے؟کیا اس پانی کے منظم استعمال سے ہم کاشت کاری میں اضافہ نہیں کرسکتے؟ کیا بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنا ناممکن ہے؟ یقین جانئے یہ سب ممکن ہے۔ اس کے لئے حکومتی زعماء کی سنجیدگی اور ملک و عوام سے محبت کی شر ط لازم ہے۔حکمران اور دیگر حکومتی محکمہ جات سچے دل سے ایماندار ہوجائیں تو ہمارے ملک کی قسمت بدل سکتی ہے۔ لیکن شومئی ِقسمت ہمارے حکمرانوں کو اقتدار کی رسہ کشی سے فرصت ملے تو وہ دریاکنارے بیٹھے اْس شخص کا دکھ سمجھیں جس کے بچے دریا برد ہوچکے ہیں۔