ممتاز مفتی کی آٹھوں حِسیں پوری طرح بیدار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ دنیا داری اور دلداری ان کے ساتھ سائے کی طرح چلتی تھیں۔ فسادات کے زمانے میں بٹالہ سے احمد بشیر کے ہمراہ جان پہ کھیل کے اعزہ کو بھگا کے لے آنا بھی انھی کی دلیری ہے اور مفادات کے زمانے میں ایک شادی شدہ خاتون کو بھگا کے شادی کرنا بھی انھی کی دیدہ دلیری۔ چھیاسی سال کی عمر میں نوجوان محبوبہ کو سکوٹر پہ بٹھا کے سیر کرانا بھی ایک حقیقت ہے اور خانہ کعبہ میں اللہ سے نئی طرح کی معرفت جوڑنا بھی انھی کا نرالا وصف ہے۔ عکسی مفتی کو لوک ورثہ کا ڈائریکٹر بنوانے میں بھی ان کی حکمت استعمال ہوئی ہوگی اور ہم جیسے نئے لکھنے والوں کی انگلی پکڑ کے تخلیق کے اَوَلڑے ٹریک پہ چلانے میں بھی ان کی بھرپور توجہ شامل تھی۔ اپنے عہد کے لکھنے والوں میں ان کا تخلیقی وژن سب سے زیادہ متحرک اور متبرک تھا۔ وہ اپنے منفرد زاویۂ نگاہ سے عام سے موضوع کو چیزے دیگر بنا دیتے۔ ایک بار مَیں نے کہا: قدم قدم پہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ والا جملہ بہت تنگ کرتا ہے۔ فرمایا: اس کے لیے انگریزی کے دو لفظ سیکھ لو: ''So What!'' ان کے سمجھانے، دھمکانے، نبھانے، وَرانے کے پیمانے اپنے تھے۔ مَیں نے شروع میں انتہائی احترام والا صیغہ استعمال کیا تو فرمایا: ’’بڑے بوڑھوں نے احترام اس لیے رائج کیا تھا کہ چھوٹوں سے فاصلے قائم رہیں، کہیں محبت کی رسم نہ چل پڑے۔‘‘ جب ہمارے درمیان بے تکلفی کی رسم چل نکلی تو ان کا انداز کبھی کبھی ایسا ہوتا: ’’ورک! کیا بیہودہ ساؤنڈ ایفکٹ ہے…‘‘ ایک بار باتوں باتوں میں، مَیں نے اپنی کسی ناتمام محبت کا تذکرہ کیا۔ میرے بیانیے میں مایوسی اور اداسی کو محسوس کیا تو اگلے خط میں لکھا: ’’تمہاری زندگی میں دو خوش قسمتیاں ہوئیں: ۱۔ کہ وہ تمھیں ملی۔ ۲۔ کہ وہ تمھیں نہ ملی۔ اگر خدانخواستہ مل جاتی تو یہ دونوں واقعے عام واقعے ہو جاتے۔ futility of desire کا بھید کھل جائے تو باقی کچھ نہیں رہتا۔ قدرت آرٹسٹ بنانے کے لیے کیا کیا جتن کرتی ہے کہ وہ نہ مل سکی۔ ابھی تمھیں اس خوش قسمتی کا شعور نہیں ہوگا جوں جوں وقت گزرے گا ہوتا جائے گا۔ اب تم زندگی بھرخود دکھی رہو گے اور لوگوں کو خوشیاں بانٹو گے۔ یہی تمھارا رول ہے۔ یہی صوفی کا رول ہے۔ اگر چھوڑ جانے والی کے لیے آہیں بھرناتمھاری صلاحیت کو جِلا دے تو بسم اللہ! آہیں بھرو لیکن اگر وہ تخلیقی صلاحیت میں رکاوٹ بنے تو فوراً ایک نئی محبوبہ تلاش کرو۔ کتاب ضرور چھاپو۔ پیسے خرچ ہو جائیں گے۔ ہونے دو۔ تمھاری Birth واقع ہوگی۔ سُکھ بانٹنے کا عمل شروع ہوگا۔ تم کتاب کو بیچ نہیں سکو گے۔ مجھ جیسے مفت خورے بیچنے نہیں دیں گے۔ چلو مَیں نے حاتم کی قبر پر لات مار دی۔ پہلی کتاب چھاپنے کی اجازت ہے۔‘‘ اور جب الحمد پبلی کیشنز نے پہلی کتاب چھاپ دی، جس کے پیچھے میری مونچھوں والی رنگین تصویر تھی تو پھر مفتی کا خط آ گیا: ’’قلمی دشمنی : اتنی بڑی تصنیف کا تم نے ستیاناس کر دیا ہے۔ اپنی غلط تصویر چھاپی۔ یہ ایک سو فی صد جسمی آدمی ہے۔ فوٹو گرافر سے کہتے کہ تمھارے اندر کاوِرک باہر نکالے۔ گریٹ سبجیکٹ ہمیشہ بلیک اینڈ وہائٹ میں ہوتے ہیں۔ تصویر رنگ دار نہیں ہونی چاہیے تھی۔‘‘ مَیں شیخوپورہ میں مقیم تھا۔ دوستوں نے لاہور میںکتاب کی تقریب کرنا چاہی تو مَیں نے مفتی جی سے لاہور آکے تقریب کی صدارت کی درخواست کی، اس پر انکار کے ساتھ ساتھ پورا پروگرام جزئیات کے ساتھ وضع کر دیا: ’’لاہور نہیں آ سکتا اور اگر وعدہ بھی کرلوں تو تم مجھ پربھروسہ نہیں کر سکتے چونکہ دو دن ٹھیک رہتا ہوں، چار دن بیمار رہتا ہوں۔ تمھاری تحریر میں اتنی طاقت ہے کہ لوگوں کو متوجہ کر لے۔ لاہور میں میری دو مائیں ہیں (۱) بانو (۲) پروین… بانو اور پروین عاطف کے نام خط ملفوف ہیں۔ یہ خط موصول ہونے پر اطلاع دو۔ لفافوں میں ڈال لینا۔ لاہور جا کر انھیں خط دینا۔ ملنے سے پہلے فون کرو۔‘‘ مَیں نے اپنے لنگوٹیے دوست جمیل احمد عدیل کا مفتی جی سے تعارف کرایا تو اُس سے بھی خط کتابت شروع ہو گئی۔ بعض اوقات دونوں کے نام مشترکہ خط آتا۔ کبھی کبھی مجھے خوش اور مطمئن کرنے کی سازش میں عدیل کو بھی شامل کر لیتے۔ مثلاً ایک دفعہ لکھا: ’’عدیل، ورک! آج مَیں تم دونوں سے کڑوی باتیں کروں گا۔ تم مانو یا نہ مانو، تمھاری مرضی! یہ میرا سچ ہے۔ تم دونوں میری طرح شدت کے مارے ہوئے ہو۔ عدیل اور مَیںبڑبولے ہیں۔ شدت کا اظہار کر دیتے ہیں۔ ہلکے ہو جاتے ہیں۔ وِرک کی شدت Suppressed ہے۔ وِرک کا فن ہمارے فن سے افضل تر ہے۔ اِس لیے اِس دیے کو جلائے رکھنے کے لیے زیادہ گہرا دکھ ضروری ہے۔ وِرک کتنا ناشکرا ہے۔ وہ چپڑی مانگتا ہے اور دو مانگتا ہے۔ اللہ نے اس کی مانگ منظور کر لی۔ اس پر اسے خوش ہونا چاہیے تھا لیکن وہ سمجھتا ہے کہ وہ مظلوم ہے۔ کتنی بڑی خود فریبی ہے۔ وِرک نے چاہا کہ محبوبہ ملے۔ مل گئی۔ وِرک چاہتا ہے کہ محبوبہ کو بیوی بنا لے۔ اتنا بڑا فن کار ہے اوراتنا احمق ہے۔ اتنانہیں جانتا کہ محبوبہ بیوی بن جائے تو وہ محبوبہ نہیں رہتی۔وہ لوگ احمق ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بیوی ایک love relation ہے۔ حال آنکہ بیوی diplomaticریلیشن ہے ۔ اِسے خدمت گزار بیوی مل گئی اور محبوبہ بھی قائم رہی۔ یہ صورت ِ حال اس کے فن کے قیام کے لیے ضروری ہے۔ ورک میاں! محبوبائیں Bed duty دینے کیلئے نہیں ہوتیں، آلو گوشت پکانے کے لیے نہیں ہوتیں۔ وہ آگ سلگانے کے لیے ہوتی ہیں، بجھانے کے لیے نہیں۔ شکر کرو کہ محبوبہ نہیں ملی۔ ورنہ جو فن تمھیں اللہ نے بخشا ہے اس کا قیام ممکن نہ رہتا۔ فن کار بنانے کے لیے قدرت کو کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ برٹرینڈرسل سے کسی نے پوچھا: بول تو چاہتا کیا ہے؟ کہنے لگا: میں اللہ کی آنکھ چاہتا ہوں۔ منظر نظر آئے لیکن نہ لاگ ہو نہ لگاؤ… مَیں ایک عاجز بندہ ہوں، لاگ لگاؤ سے بھرپور۔ تم دونوں شہرت کی فکر نہ کرو۔ ملے گی، شدت سے ملے گی۔ اگر تم سمجھ دار ہوتے تو دعا کرتے کہ شد ت کی نہ ملے۔ بھانبھڑ لگ جائے تو مصیبت پڑ جاتی ہے۔ میں نے اشفاق احمد کا بھانبھڑ دیکھا ہے ۔ اب وہ راکھ کے ڈھیر پر بیٹھا ہے۔ شہاب کہتا تھا شہرت کے پیچھے مت دوڑو۔ ہاتھ نہیں آئے گی۔ آگے دوڑ و پیچھے پیچھے یوں چلی آئے گی جیسے Petdog۔ شہرت بھی عورت ہے۔ شہرت کے متعلق پنجابی میں ایک بول ہے: ’’نما نما نی میری جان! سُرمہ نما نما عدیل! تُو خط ایسے لکھتا ہے جیسے بطخ پانی میں تیرتی ہے۔ مَیںلمبا خط نہیں لکھ سکتا… وِرک نے مجھے اس خط کا جواب بھیج دیا ہے۔ لکھتا ہے۔ ہم ایسے ہی ہیں۔ ایسے ہی رہیں گے! کرلو جو ہمارا کرنا ہے۔ مَیں نے جواب میں لکھا: مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تم میں BeThyself جینے کا حوصلہ ہے۔ مفتی ۳/۷/ ۹۳ء