ہم صبح دَم رزق کی تلاش میں گھرسے باہر جوں ہی قدم دھرتے ہیں مسائل کی چیونٹیاں بدن سے چمٹنا شروع ہوجاتی ہیں۔گلی میں موجود گاڑی کے آگے پیچھے اس فاصلے پر گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں کہ گاڑی آگے جاسکتی ہے نہ ہی پیچھے۔دونوں گاڑیوں کے مالکان کے گھروں کے دورازے بجا بجا جب تھک جاتے ہیں تو اُن میں سے کوئی ایک آنکھیں ملتا،باہر نکلتا ہے ،ناگوار ی سے صورتِ حال پر نظر ڈال کر اندر سے چابی لینے جاتا ہے تو واش روم سے ہو کر آتا ہے ،پھر گاڑی کو سٹارٹ کرنے میں ایک مخصوص وقت لگاتا ہے ،گاڑی سٹارٹ ہو جاتی ہے تو تھوڑی دیر سٹارٹ رکھ کر گرم کرتا ہے ،پھر آہستہ بہ آہستہ اپنی جگہ سے ہٹا کر ہماری گاڑی گزرنے کی جگہ بناتا ہے۔اس دوران ہم بار بار گھڑی پر نظر دوڑاتے بے چینی سے وقت گزارتے اورزیرِ لب بُڑ بُڑاتے رہتے ہیں۔گلی سے نکل کر سروس روڈ تک پہنچتے ہیں تو گاڑیوں کی لمبی قطار پاتے ہیں۔یہ سروس روڈ سال میں دوچار بار کھُدی پاتے ہیں ۔ گاڑیاں رینگ رینگ کر آگے کو بڑھ رہی ہوتی ہیں۔اس کے باوجود کہ لمبی لائن ہے ،پیچھے کی گاڑیاں لگاتار ہارن بجاتی رہتی ہیں۔مرکزی سڑک تک پہنچتے پہنچتے ایک مُدت لگتی ہے ۔وہاں پہلے ہی سے گاڑیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔اگر سڑک دورویہ نہ ہوتوسامنے سے آنے والی یا اس طرف سے جانی والی گاڑیوں میں سے کوئی آمنے سامنے آجائے تو اُدھر ہی ٹریفک رُک سی جاتی ہے۔پھر مزیدہارن بجنا شروع ہوجاتے ہیں ،وہ گھمسان کا رَن پڑتا ہے کہ جس کا بیان ممکن نہیں۔اور اگر سڑک دورویہ ہے تو اِدھر سے جانے والی گاڑیاں ایک دوسرے کے آگے پیچھے جانے کے بجائے دودوتین لائنوں میں بٹ جاتی ہیں ،نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہائو تھم ساجاتا ہے اور ایک دوسرے سے ٹکرانے کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔یوں ہارن بجاتے ،ایک دوسرے کو گھورتے گھورتے بیچ میں سگنل آجائے تو وہاں پیر ودھائی کے بس اڈے کا منظر جنم لے اُٹھتا ہے ،ہر طرف دھواں چھوڑتی ،ہارن بجاتی گاڑیاں ہی گاڑیاں…ابھی ہماری گاڑی رُکتی ہی ہے کہ مانگنے والے کہیں سے نمودار ہوکر شیشوں سے چمٹ جاتے ہیں۔سگنل کھل جاتا ہے کہ مانگنے والا لنگڑا بندہ یا بندی گاڑی کے آگے موجود ،اُن کے اِدھر اُدھرکھسکنے تک سگنل پھر سے بند ہوجاتا ہے اور پیچھے کی گاڑیوں والے گالیوں پر اُتر آتے ہیں۔ہم گاڑی میں بیٹھے بیٹھے پیچھے والوں کو اشاروں اور زبان سے بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جناب!مانگنے والوں نے راستہ روک رکھا تھا ،مگر وہ کہاں سنتے ہیں۔مانگنے والے منصوبہ بندی کے تحت آپ کا راستہ روکتے ہیں۔جب دوبارہ ایک طویل وقفے کے بعدسگنل کھل جاتا ہے تو گزرنے کا موقع میسر آجاتا ہے مگر ویگن والاپیچھے زور سے ہارن بجاتا اور گاڑی کی لائٹس جلاتا ،راستہ مانگتا پایا جاتا ہے۔ا ب بندہ ایک لائن سے دوسری لائن میں بھی نہیں جاسکتا کہ اُس طرف بھی گاڑیوں کا سیلاب سا ہوتا ہے ،ویگن والایہ سب جاننے کے باوجود بھی آپ کی گاڑی کے اُوپر چڑھا رہتا ہے۔یہ وہ لمحہ ہوتا ہے،جب بندہ خود کو شدید پھنسا ہوا محسوس کرتا ہے،کہیں کوئی راستہ نکلنے کا نہیں ہوتا۔ آپ اپنی منزل کی اُور بڑھتے جارہے ہیں ،راستے میں جتنے سگنل آئیں گے ،وہاں بھکاریوں کی بڑی تعداد پہلے سے ہی استقبال کے لیے کھڑی ہوتی ہے۔مزید براںآپ گاڑی میں بیٹھے سگنل کے سبز ہونے کا انتظار کھینچ رہے ہوتے ہیں کہ گاڑی کا شیشہ بجتا ہوامحسوس ہوتا ہے،اُدھر کو دیکھیں گے تو کوئی بوڑھانماشخص گاڑی کی صفائی والا کپڑا بیچتا حتیٰ کہ جوتے پالش کرنے ولا کھڑا ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ ایک بار ایسا ہی ہوا کہ سگنل پر پٹھان لڑکے نے گاڑی کا شیشہ بجایا ،ہم نے شیشہ نیچے کیا تو اُس نے اندر منہ ڈالا کر ہمارے جوتوں پر نظر ڈالی اور کہا کہ جوتے پالش کروالیں۔اب بندہ ایسی صورت میں اُس سے کیا کہے؟ہم نے کہا کہ بھئی!یہ کوئی موقع ہے جوتے پالش کرنے اور کروانے کا ؟تو وہ آگے سے بولا کہ پھر کوئی موقع بتادیں؟سگنل کھل جاتا ہے ،آپ کو اگر آگے بڑھنے میں لمحہ بھر کی تاخیر بھی ہوجائے تو پیچھے سے ہارن چیخ پڑتے ہیں ،آپ آگے بڑھتے ہیں،پیچھے سے کراس کرنے والا ناگواری سے گھورتا گزرجائے گا۔سب کو اپنے اپنے گھروں اور دفتروں کو جانے کی بہت عجلت ہوتی ہے ،حالانکہ جس کی گھر میں جتنی عزت ہوتی ہے ،وہ اُس کو بہ خوبی پتا ہوتا ہے اور دفتر وں میں جو ،جتنا کام کرتا ہے ،اُس بابت بھی علم ہوتا ہے۔ آپ خداخدا کرکے دفتر پہنچ جاتے ہیں ،وہاں گاڑی کھڑی کرنا ایک مسئلہ ہوتا ہے۔جگہ ہی کوئی نہیں ہوتی۔آپ کہیں دُور گاڑی کھڑی کرکے ،دفتر میں اپنی سیٹ پر بیٹھ تو جاتے ہیں ،مگردُور گاڑی کھڑی کرنے کی وجہ سے اُس کے چوری ہونے کا دھڑکا سالگا رہتا ہے۔ہمارے ایک دوست نے ایک روز گاڑی ذرا دُور فاصلے پر کھڑی کی ،واپسی پر جب وہاں پہنچا تو گاڑی کے پچھلے ٹائر کی جگہ پر اینٹیں رکھی ہوئی تھیں،کوئی نشئی قسم کا بندہ ٹائر ہی کھول کر لے گیا تھا۔یہ اسلام آبا د ہے۔یہ روشن دماغ ڈاکٹر رامش فاطمہ کا ملتان نہیں ،جہاں اُن کے لیے اپنی ہی گلیاں اجنبی اور خوف کی دہشت ہوچکی ہیں ،جہاں کے سترہ اَٹھارہ سال کے لڑکے اُن کی گاڑی کے آگے پیچھے منڈلاتے ہوئے آوازہ کستے ہیں اور جہاں کی سڑکوں کے بیچوں بیچوںاُبھرے ہوئے گٹروں کے ڈھکن حادثے اور اُلجھن کا باعث بنتے ہیں اور چنگ چی رکشوں کا طوفان سڑکوں پر قبضہ جمائے رہتا ہے۔ایک خاتون ڈاکٹر ہسپتال جاتے اور گھر لوٹتے سمے اذیت سے گزرتی ہے اور پھر وہ فیصلہ کرتی ہے کہ جہنم سے نکلنا ہے۔مگر اسلام آباد اور ملتان میں کوئی زیادہ فرق نہیں ۔یہاں کے ہر شہر کا ملبہ اس قدر زیادہ ہوچکا ہے کہ شہر اپنے ملبے کے نیچے دفن ہوتے جارہے ہیں۔مگر کسی کو احساس ہی نہیں۔ایک دِن آئے گااور وہ دِن دُور نہیں کہ ہم صبح دَم گھروں سے نکلیں گے تو اپنی اپنی گلیوں میں ہی پھنس کر رہ جائیں گے کہ گلیوں میں پھیلی دہشت کا ملبہ اِن کو ڈھانپ چکا ہوگا۔کوئی بتاناچاہے گا کہ ایسے میں ہم کیا کریں گے؟