انصاف کرنا، بروقت انصاف کرنا، جرأت اور دلیری سے انصاف کرنا مگر سب سے بڑھ کر خوفِ خدا کو پیش نظر رکھ کر انصاف کرنا ہی جج کی پہچان ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف حکمت و دانائی کا سرچشمہ ہے۔ ایک بہت ہی اہم معاملہ بار اور وکلاء کے طرز عمل اور ڈسپلن کا بھی ہے۔ نوجوان وکلاء کی مناسب ٹریننگ، عدالتی آداب سے آگاہی، ضابطہ اخلاق اور اس طرح کے دیگر عوامل میں بہتری بہرحال بار کونسل کی ذمّہ داری ہے۔ ان نوجوان وکلاء کے لیے مناسب stipend ایک خاص وقت تک ہر صورت میں یا حکومت وقت مقرر کرے یا اْ ن کے سینئر ادا کریں۔ پیشہ وکالت میں داخلہ کے لیے کسی سینئر کے چیمبر کے ساتھ منسلک ہونا ضروری قرار دیا جائے۔ جوڈیشل اکیڈمی میں ججز کی تربیت کے ساتھ نوجوان وکلاء کی ٹریننگ کا بھی بندوبست کیا جائے کہ اس وقت غالباً اہلیت، قابلیت اور معیار کا مسئلہ ججز اور وکلاء دونوں طرف پریشان کْن حد تک نظر آتا ہے جس سے انصاف کی بروقت ترسیل اور کوالٹی متاثر ہو رہی ہے۔ ججز اور وکلاء کی اہلیت اور استعدادِ کار بڑھانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ موثر، معنی خیز اور جدید تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قانون سازی، پروسیجر میں ترامیم اور ایسے عملی اقدامات اْٹھانے کی ضرورت ہے کہ بار اور بنچ اور عوام الناس انصاف پر سرشار نظر آئیں۔ جب ملزمان جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں تو ہمارا نظامِ کیوں ڈیڑھ سو سال پرانے ضابطہ فوجداری کو پوری یکسوئی سے اپنائے ہوئے ہے۔ اگر اس نظام کو اس مرحلہ پر نئے قوانین و ضوابط کا سہارا نہ دیا گیا تو نظام بیٹھتا نظر آ رہا ہے۔ پھر سارے فریق سوائے پشیمانی اور ذہنی قلق کے کچھ نہ کر سکیں گے۔ غیر ضروری التوا مقدمات میں تکلیف دہ تاخیر کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا آخری موقع برائے شہادت، پھر قطعی آخری موقع اور پھر حتمی آخری موقع کو کہیں بریک لگانا پڑے گی۔ تاکہ مقدمات کے جلد فیصلہ ہونے سے ادارہ کی نیک نامی میں اضافہ ہو۔ اسی طرح بحث سماعت کرنے کے بعد مقدمہ کو برائے مزید بحث و حکم اور پھر کسی طرح کا التوا نہ صرف مقدمات میں غیر ضروری تاخیر کا باعث بنتا ہے بلکہ عدالت کی قابلیت اور اہلیت پر کئی سوالیہ نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ مقدمات میں تاخیر کی کئی اہم وجوہات میں سے وکلاء مقدمہ کی عدم دستیابی یا دیگر مصروفیات، فریقین مقدمہ کی حیلہ بازیاں، پیچیدہ پروسیجر اور outdated ضابط فوجداری اور ضابطہ دیوانی سے چمٹے رہنا بھی ہیں۔ نئے قوانین اور نئے پروسیجر متعارف کرانے کیلئے ایک انقلابی سوچ کی ضرورت ہے۔ اسی طرح پنجاب میں تقریباً سات سو سول ججز کی کمی ہے اور گزشتہ تین چار سال سے ہر سال امتحان لینے کے باوجود کسی بھی امتحان میں تیس سے زائد سول جج منتخب نہیں ہو سکے ہیں جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اگر اسی رفتار سے سول ججز بھرتی ہوتے رہے تو یہ کمی پوری کرنے کے لیے پچاس سال کا عرصہ درکار ہو گا اور اْس وقت مقدمات کا backlog قابو سے باہر ہو چکا ہو گا۔ اس طرح کام کا بوجھ عدالتوں پر بڑھتا جا رہا ہے۔ بعض اوقات ہنگامی صورتحال سے نپٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات اْٹھانے پڑتے ہیں۔ احاطہ عدالت میں ہتھ کڑیوں میں جکڑے ملزمان پر فائرنگ کے پے در پے واقعات کے بعد قتل اور دیگر خطرناک جرائم میں ملوث قیدیوں کو جیلوں تک ہی محدود رکھ کر بذریعہ skype/ e-courts کاروائی مکمل کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح گواہان کی جان اور عزت محفوظ رکھنے کے لیے اْنہیں کسی محفوظ مقام پر بٹھا کر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے شہادت قلمبند کی جا سکتی ہے۔ جھوٹی مقدمہ بازی خواہ سول ہو یا فوجداری اْسکی حوصلہ شکنی ابتدائی مراحل پر کرنا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں جھوٹی مقدمہ بازی پر cost ڈالنے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ اسی طرح پرانے مقدمات کے فیصلوں کے لیے ہر ضلع میں دو تین عدالتیں مختص کر کے فیصلے ہو سکتے ہیں۔ بشرطیکہ اْن میں نئے مقدمات نہ بھجوائے جائیں۔ ان تمام قباحتوں کے باوجود ہماری عدالتوں کو اپنا کام تندہی، لگن اور جذبہ ایمانی سے کرتے رہنا چاہیے۔ انصاف اور justice with mercy کی طرف بڑھنے کے لیے روایتی طریقوں کی بجائے out of box حل کی طرف ایک انقلابی سوچ اور متحرک لائحہ عمل کے ساتھ گامزن رہنا چاہیے۔ اس نظام عدل کے سب سے اہم سٹیک ہولڈر فریقین مقدمہ اور وہ سا ئلین ہیں جو روزانہ ہزاروں کی تعداد میں موسم کی شدّت اور حدّت برداشت کرتے ہوئے عدالتوں کے باہر اپنے مقدمہ کی پکار سننے کے لیے اضطراب انگیز صورت حال میں بیٹھے جب پکار پر عدالت کے اندر جا کر صرف آئندہ تاریخ پیشی لے کر مایوسی اور بوجھل دل کے ساتھ گھروں کو واپس ہوتے ہیں تو اس نظام پر سوالیہ نشان اْٹھنا ایک فطری عمل ہے۔ لہٰذا ان سائلین کی نہ صرف بروقت حق رسی ضروری ہے بلکہ کچہری اور عدالتوں میں ان کی عزّت و توقیر بھی اس نظام عدل کے بقا کی ضامن ہو گی۔ حکومت وقت کی بھی ذمہ داری ہے کہ نظام عدل کی بہتری اور اصلاحات کے لیے آ گے بڑھے۔ ہماری پارلیمنٹ مناسب قانون سازی کر کے پروسیجر کو آسان بنائے۔ ایسے قوانین منظور کرے اور اس طرح کا سادہ اور سہل طریقہ کار کہ فیصلے سالوں کی بجائے دنوں میں ہوتے نظر آئیں۔ تب عام آدمی کا اس ادارہ پر دگرگوں اعتماد یقین محکم میں تبدیل ہو گا۔ جب عام آدمی خوف اور بے یقینی کی بجائے پورے یقین، عافیت اور اْمید کے ساتھ عدالتوں کا رْخ کرے گا تو ہمارا نظامِ انصاف مستحکم ہو گا، قابلِ اعتماد اور قابلِ بھروسہ ہو گا۔ اسی طرح پولیس کے طریقہ تفتیش میں بے شمار خامیاں اور نقائص ہیں۔ عدالتیں وقتاً فوقتاً ان کی نشاندہی کرتی رہتی ہیں۔ مگر بے سود۔ کوئی خاص لیول کا کام اس پر نہ ہوا۔ کئی کمیشن بیٹھے اور اْٹھے مگر تفتیش کی صورتحال وہی ہے۔ نا قص تفتیش کا فائدہ ہمیشہ ملزم اْٹھاتے ہیں اور جس سے معاشرہ میں افراتفری، عدم استحکام اور خوف وہراس پیدا ہوتا ہے اور نظام انصاف پر کئی سوال اٹھتے ہیں۔ جدید طریقہ ہائے تفتیش خصوصاً فرانزک سائنس سے آگاہی پولیس کے فرسودہ طریقہ تفتیش میں نئی کروٹ کا سبب بن سکتا ہے۔ (کالم نگار کی زیرِ طبع کتاب ‘‘عدل بیتی’’ سے لیا گیا ایک اقتباس)