یہ ایک سنگین انسانی المیے کا احاطہ کرتی کتاب ہے جو کچھ روز سے میرے زیر مطالعہ ہے جسے پڑھتے ہوئے میں کبھی کبھی خود تھوڑی سی روہنگیا ہو نے لگتی ہوں ۔دنیا کی اس مظلوم ترین مسلم اقلیت پر ڈھائے جانے والے ظلم ستم کی تکلیف محسوس کرتی ہوں میں بھی روہنگیا پناہ گزین بچوں کے ساتھ اپنے گھر کی حسرت میں اور پیٹ بھر روٹی کی مسلسل بھوک لیے نحیف نزار وجود کے ساتھ حسرتوں کے جہان اپنی آنکھوں میں لیے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی طرف دیکھتی ہوں کہ کوئی ہے جو مجھے انسان سمجھ کے مجھ پر ہونے والے ظلم و ستم کو روکے۔۔۔! کبھی میں ایک روہنگیا ستم کشیدہ ماں ہوجاتی ہوں اور اپنے وجود میں لامحدود اذیت کا صحرا اٹھائے خامشی کی زبان میں چیخ وپکار کرتی ہوں کہ کوئی ہے۔۔ارے کوئی ہے جو مجھے مجھے بے گھر کرنے والوں سے حساب لے میرے خاندان کو روندنے ،میرے بچوں کی قسمت میں بھوک حسرت اور اپنی ہی دھرتی پر بے گھری کا عذاب لکھ دینے والو ں سے ظلم کا حساب مانگے۔۔؟ اور یہ کمال ڈاکٹر فرحت نسیم علوی کا ہے جنہوں نے اس ہمہ جہت ہردرد مگر نظر انداز کیے جانے والے انسانی المیے پر بڑی جانفشانی سے تحقیق کی، ماں کے سے حساس دل کے ساتھ اس انسانی المیے پر قلم اٹھایا اس کے ہر پہلو کو کھنگالا اور تمام حقائق ایک کتاب کی صورت مرتب کردیے۔میرا گمان ہے اس سے پہلے روہنگیائی مسلمانوں کے المیے پر اتنی جامع معلومات ایک جگہ اردو زبان میں اکٹھی نہیں ہوئیں۔کتاب کا نام ہے" بدھ کا نظریہ امن اور لہو لہو روہنگیا " جسے قلم فاؤنڈیشن کے عبد الستار عاصم نے شائع کیا ہے ڈاکٹر فرحت علوی کینیڈا میں تعلیم کے سلسلے میں مقیم رہیں جہاں ان کی ملاقات نارتھ ویسٹ اسلامک سنٹر میں مسلم اقلیتوں سے وابستہ خواتین اور پناہ گزین خواتین سے ہوئی۔ لکھتی ہیں کہ ان کے چہروں اور آنکھوں سے جھلکتا درد دیکھ کر جی چاہتا تھا کہ ان کا درد بانٹوں۔روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور ظلم وستم وقت دور جدید میں بہت بڑا انسانی المیہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ایسا انسانی المیہ ہے جسے دنیا کی طرف سے نظرانداز کیا گیا۔انہیں مسلم امہ کی طرف سے بھی عملی ہمدردی نصیب نہیں ہوئی، انسانی حقوق کے عالمی فورموں پر بھی روہنگیا کا مسئلہ اس طرح اجاگر نہیں ہوا۔یہی وجہ ہے کہ دنیا اس بارے میں بہت کم جانتی ہے کہ روہنگیا مسلمان کون ہیں یہ کہاں سے آئے ہیں ان کے مسائل کیا ہیں روہنگیا کی ثقافت کیا ہے اور روہنگیا مسئلے کی ابتدا کیسے ہوئی اس کا ارتقاء کیسے ہوا اور آج یہ کس سطح پر کھڑا ہے۔یہ کتا ب اسی لیے اتنی دل چسپ ہے کہ اس میں ان تمام موضوعات پر حوالہ جات کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے میانمار یعنی برما جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے کم ترقی یافتہ ملک ہے۔ تاریخی طور پر یہ ملک مختلف ادوار سے گزرا یہ مختلف ملکوں کا حصہ رہا ہے۔1989یونین آف برما کا نام تبدیل کر کے سرکاری طور پر یونین آف میانمار رکھ دیا گیا۔برما ایک کثیر القومی کثیر المذہبی ،کثیرالثقافتی ملک ہے جو کہ مختلف قوموں اور نسلوں کی آماجگاہ ہے یہاں مسلمان سب سے زیادہ کمزور اور مظلوم شہری ہیں۔ اراکان میں رہنے والے روہنگیا مسلمان سب سے بڑا اقلیتی گروہ ہے۔ برمی بدھست انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔یہ بات میرے لیے حیران کن تھی کہ برما میںاور پس منظر رکھنے والے مسلمان بھی ہیں مگر کم نصیب روہنگیا مسلمان سب سے زیادہ قابل نفرت ہیں جبکہ چینی پس منظر سے تعلق رکھنے والے مسلمان یہاں کے مقامی بدھسٹ میں قابل قبول ہیں۔ چینی مسلمان ملک کے شمالی حصے میں چینی سرحد پر رہتے ہیں انہیں پینتھے کہا جاتا ہے یہ خوشحال تعلیم یافتہ اور تاجر ہیں ۔میانمار کی ریاست ان مسلمانوں کو مکمل شہری تسلیم کرتی ہیاور انہیں تمام شہری حقوق حاصل ہیں بعض لوگ انہیں چینی مسلمانوں کا سب سے قدیم گروہ خیال کرتے ہیں۔ہندوستانی مسلمان بھی یہاں آباد ہیں یہ جنوبی ایشیائی نسل کے مسلمان ہیں ۔مسلمانوں کی ایک اور قسم بزبادی ہے یہ بنیادی طور پر مسلم باپ اور برمی ماں کی مخلوط شادیوں کی اولادہیں۔ ریاست رکھائین سے تعلق رکھنے والے مسلمان روہنگیا کہلاتے ہیں اور وہ روہنگیا زبان بولتے ہیں ۔اس زبان میں عربی ،اردو ،بنگالی زبانوں کا مرکب موجود ہے ،روہنگیا زبان بولنے والوں کی تعداد 30 لاکھ ہے۔ روہنگیا مسلما ن ہمسایہ ملک بنگلہ دیش دوسرے ممالک میں ہجرت کر چکے ہیں کیونکہ برما میں انہیں جبر اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔میانمار کی 85 فیصد آبادی بدھ مت کی پیروکار ہے جب کہ باقی آبادی مسلمانوں،ہندوؤں اور عیسائیوں پر مشتمل ہے ۔برمی مسلمانوں کے دعوے کے مطابق برما کی پندرہ سے بیس فیصد آبادی مسلمان ہے۔برما کا شمال مغربی صوبہ جہاں روہنگیا آباد ہیں اسے اراکان کہا جاتا ہے جو آجکل راکھائن کہلاتا ہے۔روہنگیا مسلمان کی طرح کی مالی معاشی سماجی پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ان کی مسجدوں کو تباہ کر دیا جاتا ہے، ان پر تشدد کیا جاتا ہے، ان کے مکان جلا دیے جاتے ہیں، انہیں گھروں سے بے دخل کر دیا جاتا ہے، ان سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے، ان کے شادی بیاہ پر پابندی لگا دی جاتی ہے اور ان پر زندگی اس قدر تنگ کر دی جاتی ہے کہ انہیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ روہنگیا پناہ گزین بنگلہ دیش میں منتقل ہو چکے ہیں اور برما میں روہنگیا مسلمانوں کو حکومت شہریت دینے سے انکاری ہے۔روہنگیا کے حوالے سے جو معلومات اس کتاب میں ہیں اس سے پہلے نظر سے نہیں گزریں۔ روہنگیا کی اصطلاح عربی زبان کے لفظ رحم سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں رحمت۔ روہنگیا روہائی سے نکلا ہے اس مراد وہ اقوام جو زمانہ قدیم سے اراکان میں آباد ہیں۔ ایک گمان یہ بھی ہے کہ عربی کے لفظ رحم یا ریحام میں یہ لفظ روہائی بنا جس کے معنی خدا کی نعمتوں کی سرزمین ہیں۔ (جاری)