گلیور کی مہمات اور جانوروں کا باڑہ انگریزی فکشن کے دو ایسے شاہکار ہیں جن کی سیاسی‘ نظری اور سماجی معنویت ابھی تک برقرار ہے۔ اپنے سادہ اسلوب اور گہرے تاریخی اور سماجی شعور کے باعث آج بھی یہ دنیا بھر کے قارئین کو لبھاتے ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دنیا میں جہاں جہاں آمریت کی سیاہی پھیلی ہے اظہار رائے پر قدغنیں لگی ہیں۔ جبر کا کہرا گہرا ہوا ہے تب تب ان ادب یاروں کے معنی نکھر کر سامنے آئے ہیں۔ اندازہ ہے کہ جبر اور خوف کے موسم میں حریت فکر رکھنے والے تجزیہ کاروں، رائے سازوں، صحافیوں اور دانش وروں نے ان فن پاروں سے سب سے زیادہ اکتساب کیا ہے اور ان کی تفہیم کے عمل کے ذریعے اپنی رائے کے لیے راہ نکالی ہے۔ البتہ پاکستان کے سیاسی اور نظری پس منظر میں ان کی افادیت پر دو رائے ہیں۔دنیا بھر کے تعلیمی نصاب میں شامل یہ فن پارے نہ تو علامتوں میں بات کرتے ہیں اور نہ ہی استعارہ بازی سے قارئین سے کھیلتے ہیں۔ سیدھے سادھے بیانیے میں یہ جِنوں‘ بُونوں‘ خنزیروں اور دیگر جانوروں کی کہانیاں بیان کرتے ہیں اور قارئین اپنے ذوق سیاسی اور سماجی حالات کے مطابق ان کا اطلاق کرتے جاتے ہیں۔ جونا تھین سوئفٹ کا گلیور کی مہمات (Gullivers travels)چار حصوں پر مشتمل ہے، جو مہم جو گلیور کی چار مہمات کا احاطہ کرتا ہے پہلے سفر میں وہ ایسے جزیرے پر پہنچتا ہے جہاں بونوں کی حکومت ہے اور یہ اپنے اعلیٰ انسانی اوصاف اور شرافت سے ان بونوں کو متاثر کرتا ہے اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے اجتناب برتنے کادرس دیتا ہے۔ دوسری مہم میں یہ ایسے جزیرے پر جا پہنچتا ہے جہاں یہ خود بونا ہے اور اپنا قد اونچا کرنے کے لیے انگلینڈ کی تہذیبی قدروں‘ فتوحات اور مذہب کی شان میں ایسے قلابے ملاتا ہے کہ اس سے بڑی مخلوق اس پر ترس کھاتی ہے اور اس کے بھائی بندوں کو زمین کا بوجھ قرار دیتی ہے، ظاہر ہے بڑی مخلوق کی اقدار اور اخلاقیات کے پیمانے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ اس سادہ سی کہانی کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے لیکن بھوٹان کے تجزیہ کار اس کا موازنہ ریاستی اداروں کے درمیان غیر متوازن تعلقات سے کرتے ہیں اور یہ کہ مضبوط اور بڑے ادارے کی اخلاقی اجارہ داری اس کا حق ہے جسے بونے سمجھ نہیں پاتے اسے سمجھنے کے لیے گلیور جیسا مہم جو ہونا چاہیے۔ جو یہ بتا سکے کہ جب وہ چھوٹا ہوتا ہے تو کیسا محسوس کرتا ہے اور بڑے ہو کر کیسے اس کے احساسات اور محسوسات بدل جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر پارلیمنٹ بونی ہے تو وہ دیو ہیکل مخلوق کے وژن اور شعور کا اندازہ کیسے لگا سکتی ہے؟ سوائے اس کے زور اور طاقت سے مرعوب ہونے کے افریقہ کے رائے سازوں نے بھی گلیور کی مہمات پر خوب ہاتھ صاف کیے ہیں اور عقلمند گھوڑوں اور جاہل گھوڑوں والے حصے سے اپنے سیاسی نظام پر طنز کے نشتر چلائے ہیں۔ ہوہینز عقلمند گھوڑے اور یاہوز(yahoo) جاہل بے لگام گھوڑے دو طبقات کی ہی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ یہ ووٹروں کی دو اقسام بھی ظاہر کرتے ہیں وہ عقلمند ووٹر جو ووٹ نہیں ڈالتے لیکن حکومت کرتے ہیں جاہل ووٹر‘ جو ووٹ ڈالتے ہیں لیکن حکومت نہیں کرتے ایسا وہ یا ہوز پر ایک ہائیبرڈ جنگ hybrid warkerنافذ کر کے کرتے ہیں۔ گلیور کی مہمات ‘ سند باد کی مہمات سے مختلف نہیں ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ گلیور سند باد کا انگریزی چربہ ہے لیکن دونوں میں ایک فرق ہے۔ گلیور کا جنوں بونوں گھوڑوں اور خلائی مخلوق سے تعلق ایک ایسی سطح پر ہے جہاں وہ ان سے مکالمہ کرتا ہے ان سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اس سے انسانوں کے متعلق جاننے کی جستجو میں ہیں۔ جبکہ سند باد پاکستان کا سیاست دان ہے جو دیوئوں اور جنوں سے لڑتا ہے اور آخر میں اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے ان کے چنگل سے نکل آتا ہے۔ سند باد کی کہانیوں میں لگتا ہے کہ دیوئوں کو سند باد کے ساتھ آنکھ مچولی میں دلچسپی ہے اور انہیں ایک کے بعد ایک سند باد مل جاتا ہے۔ لیکن دیو چونکہ دیو ہے اور وہ صرف ایک سیدھ میں دیکھ سکتا ہے اس لیے سند باد ہاتھ کرا جاتا ہے۔ کہتے ہیں گلیور کی مہمات کا اطلاق افریقہ پر ہوتا ہے تو سند باد کا پاکستان پر۔ جہاں ایک سند باد دیو کو چکر دینے کی کوشش میں ہے اور دوسرا سند باد کی آمد آمد ہے۔ بہرحال جارج آرویل کا جانوروں کا باڑہ (animals framسوشلسٹ سماج پر طنز تھا اور اس کی معنویت پاکستان کے تناظر میں بہت محدود ہے مسٹر جونز کے باڑے میں سنو بال نور نپولین کی بغاوت کامیاب ہو جاتی ہے۔ یہ دونوں طاقتور ہیں۔ اس لیے آہستہ آہستہ باقی جانور ان کی پالیسی اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ بغاوت مساوی حقوق کے لیے ہوتی ہے۔ جس کا نعرہ ہے کہ ’’تمام جانور برابر ہیں‘‘ اور پھر یہ نعرہ تبدیل ہوتا رہتا ہے اور کچھ جانور زیادہ برابر‘‘ کے مدارج بھی طے کر جاتے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں کسی سوشلسٹ انقلاب کا دور دور تک امکان نہیں ہے اور بنجمن اور باکسر (گھوٹے اور گدھے) یہاں ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ اس لیے جانوروں کے باڑے کا پاکستان پر اطلاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ جب ان دونوں فن پاروں کا مکمل اطلاق پاکستان پر نہیں ہوتا محض تھوڑا تھوڑا کہیں کہیں مطابقت کا گمان ہوتا ہے تو یہ ہمارے نصاب کا حصہ کیوں ہیں؟ اس سے طلباء میں یقینا پاکستان کے مقتدر طبقات اور سماج کے متعلق غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہونگی۔ کوئی اپنے آپ کو جن سمجھتا ہو گا اور باقی سب بونے یا پھر چند ایک عقلمند گھوڑے اور باقی یاہوز۔ یہ جو منظور پشتن جیسی تحریکیں پاکستان میں سر اٹھانے لگی ہیں ان کی فکری اور سیاسی تربیت کہیں ایسے ہی ادب پارے پڑھ کر تو نہیں ہو رہی؟ اگر ایسا ہے تو پاکستان کے تناظر میں ایسے ادب پاروں کا مقام انتہا پسند لٹریچر سے کم نہیں ہے اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس کے خلاف آپریشن ردالفساد ہونا چاہیے۔ممکن ہے یہ کسی ہائبرڈ جنگ کا حصہ ہو جس کا مقصد عقلمند گھوڑوں پر احمق گھوڑوں کو مسلط کرنا ہو۔ جہاں تک پاکستان کے حقیقی جنوں اور بونوں کی بات ہے تو یہ روحانیات اور جینیات(Genetic)کا مسئلہ ہے اس سے سیاسی اور ادارتی طنز تراشنا مناسب رویہ نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ پرائیویسی کا معاملہ ہے جیسا کہ گزشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل پر ایک تجزیہ کار ایک رہنما کی نئی اہلیہ کے متعلق دعویٰ کر رہے تھے کہ وہ اپنے موکلوں کے ذریعے اگلے پچھلے سارے حساب معلوم کر لیتی ہیں ظاہر ہے موکل مقامی زبان میں جن کو کہتے ہیں جس کا عدالت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ منیر نیازی کا یہ شعر بھی گلیور کی مہمات اور جانوروں کے باڑے سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے اور شاید اسی لیے ہر تیسرا کالم نگار اس کا سیاق و سباق جانے بغیر اس کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے ؎ منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ ظاہر ہے یہ حرکت جنوں کی وجہ سے تیز ہے اور سفر کی آہستہ رفتار بونوں کی وجہ سے ہے جو جنوں کی تیز رفتاری کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ کچھ لوگ بونوں کے وجود کے ہی منکر ہیں انہیں ملک کی آہستہ رفتار کے ساتھ ساتھ ان خبروں کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو انٹرنیٹ پر بکثرت موجود ہیں ایک خبر کے مطابق اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والی ایک سڑک پراکثر بونے نظر آتے رہے ہیں اور اس خبر نے سارے ملک میں ہلچل مچا دی تھی اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ پورا پورا دن بونوں کو دیکھنے کے چکر میں گزار دیتے تھے۔ جس کی وجہ سے ٹریفک جام معمول بن گیا تھا اور انتظامیہ کو دفعہ 144بھی نافذ کرنی پڑی تھی۔ اگر کوئی جوناتھین سوئفٹ پاکستان میں ہوتا تو وہ ان سے مکالمہ کرتا تو ہم جان پاتے جانوروں کے باڑے کے اصول کون مرتب کر رہا ہے اور ان کے نمایاں نکات کیا ہیں۔ چونکہ ہائبرڈ جنگوں کا زمانہ ہے اس لیے اس طرح کے سوالات سے اجتناب ضروری ہے کہیں اسے بونوں کی جنوں کے خلاف سازش سمجھ لیا جائے۔