’’یہ کائنات ایٹم کے ذرّوں سے نہیں۔ کہانیوں سے تخلیق ہوئی ہے‘‘نیو یارک پبلک لائبریری کے عین سامنے فٹ پاتھ پر یہ فقرہ ثبت ہے اور دیکھا جائے تو یہ کسی حد تک درست بھی ہے کہ اس کائنات میں زندگی بسر کرنے والے بیشتر لوگ کسی نہ کسی مذہب کے پیرو کار ہیں اور تمام مذاہب کی آسمانی کتابوں میں کہانیاں ہی تو ہیں۔ قرآن پاک کے قصّے تورات اور بائبل کی کہانیاں۔ مہاتما بدھ کی جاتک کہانیاں’’مہا بھارت‘‘ میں قدیم جنگوں کے قصّے۔ یہاں تک کہ تصوّف کی بڑی کتابوں میں بھی حکائتوں اور کہانیوں کے ذریعے انسان کی داخلی دنیا میں نور کے چراغ روشن کئے جاتے ہیں۔ آج بھی کتابوں کے جہانوں کی سیر کریں گے۔ آوارگی میں زمانوں کی سیر کریں گے۔ کس کو سنائیں حال دل زار اے ادا آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی اور زمانوں کی سیر آوارگی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ کتابیں بھی تو زمانے ہوتی ہیں‘ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ کتاب کیا شاندار جادو ہے۔ آپ کسی کلاسیک ادیب کا ناول پڑھتے ہیں تو گویا ایک ٹائم مشین میں سوار ہو کر پچھلے زمانوں میں سفر کر جاتے ہیں۔ اس کے مصنف کی ذاتی زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ٹالسٹائی کے ماسکو۔ دوستووسکی کے سینٹ پیٹرز برگ۔ کافکا کے پراگ۔ ہارڈی کے انگلستان۔ ڈکنز کے لندن ۔ جیمز جوائس کے ڈبلن۔ ایمل زولد کے پیرس یا پھر نجیب محفوظ کے قاہرہ کے زمانوں میں اتر جاتے ہیں اور یہ مصنف آپ کے دوست اور راہبر ہوتے ہیں۔ آج کے کالم کے اختتام پر میں ٹیلی ویژن اینکر اور صحافی محترمہ نسیم زہرہ کی نہائت نایاب تحقیق ’’فرام کارگل ٹو دے کُو‘‘ کا تفصیلی جائزہ لوں گا کہ بقول کسے اس کی اشاعت سے مقتدر حلقوں میں کچھ لہروں نے جنم لیاہے لیکن اس سے پیشتر میں ایک بار پھر چند نہائت اہم ناولوں کی جانب دھیان کرتا ہوں میں نے نائجیریا کے عظیم ناول نگار بن اوکری کے بارے میں بہت توصیفی کلمات سن رکھے تھے بلکہ ایک مقامی مصنف نے کہا تھا کہ اردو میں آج تک جتنے بھی ناول لکھے گئے ہیں وہ اس کے 1991ء میں بکر پرائز حاصل کرنے والے ناول ’’دے فیمشڈ روڈ‘ کے سامنے ہیچ ہیں۔ بن اوکری اگرچہ نائجیریا میں پیدا ہوا لیکن اس نے انگلستان آباد ہونے کو ترجیح دی۔ ملکہ برطانیہ نے اسے او بی ای کے شاہی انعام سے نوازا۔ یہ ناول بھوک سے مرتی سڑک۔افریقی اوہام۔ جادوگری۔ ٹونے ٹوٹکے ۔ تواہمات‘ افریقی مذاہب وغیرہ کی ایک ایسی کاک ٹیل ہے کہ آپ ایک گھونٹ بھرئیے تو چکرا جائیں گے کہ کیا ناول اس انداز میں بھی لکھا جا سکتا ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ میں اس کا کچھ حصہ ترجمہ کر کے اس کالم میں شامل کروں لیکن کون سا حصہ اس کا فیصلہ کرنا ممکن نہ تھا کہ ہر جانب ایک ناقابل یقین جادوگری تھی۔ ایک پر ہول فضا تھی۔ موت تھی اور فنا تھی۔ بن اوکری نے اپنے ناول کے پچیسویں ایڈیشن کے لیے ایک خصوصی دیباچہ لکھا۔ کچھ کتابوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ خواب کی کتابیں ہیں۔ وہ اس دنیا میں ایک خواب کی صورت نازل ہوتی ہیں اور جب نازل ہوتی ہیں تو ان کا مصنف حیران ہو جاتا ہے کہ یہ کیا ہے گویا کسی پرانی بوتل کا ڈھکن کھولا تو اس میں سے ایک جن نمودار ہو گیا۔ یہ ایک سپرٹ چائلڈ یا ’’ایک روح بچے‘‘ کی کہانی ہے۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں آج تک بن اوکری کے طلسم سے آشنا نہ ہو سکا۔ ’’دی فیمشڈروڈ‘‘ اگر آپ نے نہیں پڑھی تو آپ آگاہ ہی نہیں ہیں کہ فکشن کی سحر طرازی کیا ہوتی ہے۔ اگر آپ اسے پڑھیں گے تو میں آپ کو وارننگ دیتا ہوں کہ کچھ پاگل ہو جائیں گے جیسا کہ میں بھی ہو گیا۔ 2013ء میں کسی ناول کو نہیں مختصر کہانیوں کی ایک کتاب’’کانٹ اینڈ وونٹ‘‘ کو بکر پرائز کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ جسے لِڈیا ڈیوس نام کی ایک خاتون نے تصنیف کیا۔ لڈیا ڈیوس امریکی ہیں۔ زیادہ تر کہانیاں لکھتی ہیں۔ جو زیادہ تر بہت مختصر ہوتی ہیں۔ اگر طویل ہوں تو بھی دو تین صفوں سے تجاوز نہیں کرتیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی مختصر ترین کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا کہ کیا تم بھوتوں پر یقین رکھتے ہو؟ تو دوسرے نے کہا ’’نہیں‘‘ اور غائب ہو گیا۔ اردو ادب میں بھی مختصر کہانیاں لکھنے کے کچھ تجربے ایسے لوگوں نے کئے جو باقاعدہ کہانی لکھنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے چنانچہ انہوں نے شارٹ کٹ اختیار کیا۔ کبھی اسے پاپ کہانی کا نام دیا گیا اور کبھی مختصر کہانی کا۔ لیکن ان کی تحریر میں حماقت کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا۔ لڈیا ڈیوس کی کہانیوں میں بڑی تخلیقی صلاحیت کے سوا کچھ بھی نہیں اس کی کچھ کہانیوں کے عنوان ملاحظہ کیجئے۔ ’’اس مچھلی کی کہانی جو چوری ہو گئی ایک کتے کا بال‘ برا ناول‘ دندان ساز کے پاس جانا‘ لاس اینجلس کا آسمان‘‘ وغیرہ۔ کتا چلا گیا ہے۔ ہم اس کو یاد کرتے ہیں‘ جب دروازے کی گھنٹی بجتی ہے تو کوئی بھونکتا ہی نہیں۔ البتہ یہاں وہاں صوفے پر اور ہمارے کپڑوں پر اس کے سفید بال موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ہم ان بالوں کو پھینکتے نہیں۔ ہمارے اندر ایک وحشی امید ہے کہ اگر ہم ان بالوں کو جمع کر لیں تو ان سے ہمارا کتا پھر سے وجود میں آ جائے گا۔ڈیوس کی بہت سی کہانیوں نے مجھے مسحور کیا۔ لیکن ایک کہانی’’بچہ‘‘ نے مجھے برباد کر ڈالا۔ ’’وہ اپنی بچی کے اوپر جھکی ہوتی ہے۔ وہ اسے چھوڑ کر جا نہیں سکتی‘ وہ بچی ایک میز پر لٹا دی گئی ہے۔وہ چاہتی ہے کہ اپنی بچی کی ایک اور تصویر اتارے‘ شاید آخری …یہ بچی کبھی بھی تصویر اترواتے ہوئے ٹک کر نہیں بیٹھتی تھی۔ وہ اپنے آپ سے کہتی ہے میں کیمرہ لینے جا رہی ہوں اور پھر بچی سے کہتی ہے …حرکت نہیں کرنا۔ میں کسی اور کالم میں لڈیا ڈیوس کی مختصر کہانیوں کے کچھ مزید ترجمے آپ تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ اس برس ایک آئرش خاتون کے ناول کو بکر پرائز ملا ہے اور یہ ناول میں نے ظاہر ہے ابھی تک نہیں پڑھا لیکن پچھلی بار ناول کے میدان میں نہ یورپ اور نہ ہی امریکہ حقدار ٹھہرا۔ کوریا کی ایک خاتون ہان کانگ کا ناول ’’سبزی خور‘‘ اس بین الاقوامی ایوارڈ میں سب سے افضل ٹھہرا۔ بکر پرائز کے تاج کا وارث ہوا۔ ’’سبزی خور‘‘ ایک ڈسٹربنگ ناول ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے انسان کچھ مجرم سا محسوس کرتا ہے۔ اسے اطمینان نصیب نہیں ہوتا۔ کوریا میں ایک شخص کی بیوی جو بہت معمولی ہے یکدم گوشت وغیرہ ترک کر کے سبزی خور ہو جاتی ہے اور کورین اتنے گوشت خور ہیں کہ کتے بھی کھا جاتے ہیں اس کا جابر باپ اسے گوشت کھلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے زدو کوب بھی کرتا ہے پر وہ گوشت نہیں کھاتی۔ اس کا خاوند اسے طلاق دے دیتا ہے کہ ایسی سبزی خور بیوی کے ساتھ کیسے گزر اوقات ہو کہ اگر ہمسائیوں کے گھر میں گوشت ہانڈی پر چڑھا ہو تو اسے قے آنے لگے۔ ’’سبزی خور‘‘ ایک بڑا ناول تو نہیں لیکن آپ کے سکون کو غارت کرنے والا ایک ناول ضرور ہے۔ لاہور کے بارے میں ایک ہندوستانی خاتون ڈاکٹر فاطمہ حسین کی ایک کتاب’’لاہور ’’دی سٹی آف لَو‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے اور ہم اس کی تحسین کر سکتے ہیں کہ وہ دلی کی ہیں اور انہوں نے لاہور کے گلی کوچوں کو اوراق مصور ٹھہرایا ہے۔ وہ میرے قدیمی یار فخر زمان کی اہلیہ بھی ہیں تو بھابھی ہونے کے ناتے ہی زیادہ تنقید نہیں کر سکتا۔ لاہور کے بارے میں یہ ایک بہت اہم دستاویز ہے۔ اگرچہ کچھ تصویریں کچھ تحریریں شائد قندِ مقرر کے طور پر دوبارہ چھپ گئی ہیں۔ اب میں نسیم زہرہ کی نہایت عرق ریزی سے تحریر کردہ تحقیق ’’فرام کارگل ٹودی کُو‘‘ کی جانب آتا ہوں۔ وہ ایک فضول سا فلمی گانا ہے کہ جہاں میں جاتی ہوں تم چلے آتے ہو۔ تو یہ ایک حسین نہیں ہولناک اتفاق ہے کہ جہاں میں جاتا تھا جنگ چلی آتی تھی یا جہاں جنگ جاتی تھی میں اس کے پیچھے چلا جاتا تھا۔1970ء میں بیروت گیا تو وہاں خانہ جنگی چھڑ گئی اور پھر اسی ایک برس شمال میں گیا تو عین اس لمحے دیوسائی کے میدان سے پرے۔ گمتری کے قصبے سے کچھ دور کارگل کی ایک سو بیس چوٹیوں پر ہمارے جوان قابض ہو چکے تھے۔ تقریباً سات سو مربع کلو میٹر کے انڈین کشمیر کو فتح کر چکے تھے ۔تب واخانی قصبے میں مجھ سے ملنے کے لیے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے کہا ’’تارڑ صاحب‘‘ کارگل کیلئے ہمارے بے شمار نوجوان شہید ہوئے۔ آپ لوگ وعدہ کریں کہ آپ ہندوستان سے صلح نہیں کریں گے۔ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم کارگل کی بلندیوں سے کبھی نہ اتریں گے‘ میں پاکستانی شمال میں تب موجود تھا جب کارگل کی جنگ عروج پر تھی اور میں بارود کی بو سونگھ سکتا تھا۔نسیم زہرہ کی اس ہنگامہ خیز تحقیق میں بہت سی ناگوار حقیقتیں بھی سامنے آتی ہیں جن کے بارے میں ہم آج تک لاعلم تھے جیسے مشرقی پاکستان میں جو ہوا وہ ہم سے چھپایا گیا۔ فوج میں وہ کون گروہ تھا جس نے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی اور کارگل پر یلغار کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا۔ (جاری ہے) یہاں تک کہ نواز شریف بھی بے خبر رہے۔ سری پائے نوش کرتے رہے یا مری کے محل میں بھیگے ہوئے موسموں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس کتاب میں بہت سے سوالوں کے واضح نہیں مبہم جواب ہیں۔ کیا کارگل مہم جوئی سے پیشتر وزیر اعظم کو اعتماد میں لیا گیا؟ ہماری حکومت مسلسل اصرار کرتی رہی کہ کارگل کی چوٹیوں پر مجاہدین کا قبضہ ہے‘ پاکستانی فوج کا نہیں۔ ہندوستان جب سینکڑوں بھاری توپوں کے ساتھ چوٹیوں پر براجمان ہمارے مجاہدین نہیں فوجیوں پر گولے برسا رہے تھے اور ہندوستان فضائیہ ان پر بمباری کر رہی تھیں تب بھی ہم انکاری ہو گئے لیکن اوپر سے ایک حکم آیا کارگل کے سانحے کے بعد کہ ایک گرینڈ شو کا اہتمام کیا جائے جس میں شہیدوں کی بیوائوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔ مجھے قطعی طور پر اس شو کی میزبانی کی مسرت نہ تھی۔ کراچی سے معین اختر بلایا گیا اور اس نے کم از کم دو بار اعلان کیا کہ ’’خواتین و حضرات‘‘ شہید کی بیوہ تشریف لا رہی ہیں ان کے لیے بہت سی تالیاں! کیسے نواز شریف بن بلائے بل کلنٹن کو ملنے کے لیے اپنے بال بچوں سمیت واشنگٹن پہنچ گئے۔ کارگل سے پسپائی کا وعدہ کیا اور پھر شاپنگ میں مشغول ہو گئے۔ کیا ’’فرام کارگل ٹُودے کُو‘‘ پاکستانی فوج کی چھپر چھائوں تلے لکھی گئی ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ جابر سلطان کے سامنے اگر کلمہ حق کہا جائے تو بہتر ہے کہ پوچھ کر کہا جائے۔ بہر طور۔ اپنی کچھ خامیوں کے باوجود کہ بہت سی عبارتیں شائد پروف ریڈنگ کی شکار ہو کر دوبارہ دوبارہ نازل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ کارگل اے کارگل!