آپ کویہ جان کرحیرت ہو گی کہ نکاسی ء آب کا قدیم ترین نظام تقریبا ٰ۴۰۰۰ قبل مسیح میں موجود تھا۔ اس کے آثار عراق میں پائے جاتے تھے، جسے سلطنت ِ میسوپوٹیمیا نے اپنے دورِ حکومت میں تخلیق کیا۔ اس میں ہائیڈروالیکٹرک سسٹم کا استعمال نظر آتا ہے۔ جس کے ذریعے پانی کے انتقال کو ممکن بنایا جاتا تھا۔ دوسرا قدیم ترین نکاسی ِ آب کا نظام ہمیں ۲۰۰۰ قبل مسیح میں دیکھنے کو میسر آتا ہے، جسے تہذیب ِ بیبلون نے اپنے شہروں کے لیے بنایا ۔ اِن کے ہاں مٹی کے بنے پائیپوں کے ذریعے پانی کا نکاس کیا جاتا تھا۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ اس تہذیب کے ہاں بڑے بڑے گھروں کی تعمیرات کا رجحان تھا۔ چنانچہ ہر گھر کو پانی کے نکالنے کا نظام مہیا کیاجاتا ۔اسی ضمن میں تیسری قدیم ترین روایت ہمیں ہڑپہ اور موہنجوداڑو سے ملتی ہے۔ یہاں ایک مرکزی (centralised) نظام کے تحت ہر گلی ، محلے اور گھر سے نکاس کو ممکن بنایا جاتا تھا۔ یہاں مٹی کی اینٹوں ، لکڑی کے بنے تختوں اور پتھروں کو بروئے کار لاتے ہوئے، اس نظام کو تخلیق کیا گیا۔ زمانہئبعد از مسیح میں دیکھا جائے، تو سلطنتِ بیزنٹین میں باقاعدہ پائیپوں کا استعمال کرتے ہوئے ، پانی کا نکاس شہر سے باہر تک کیا جاتا تھا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ مسلمانوں کا دور جب اپنے عروج پر تھا تو مملکتِ اندلس میں ہر گھر اور عمارت کو نکاس کی سہولت فراہم کی جاتی۔ حتی کہ ہرتعمیر پرلازم تھا کہ وہاں رہنے والے ، سلطنت کو ایک خاص رقم ادا کریں، جس کا استعمال اِس نظام کی مرمت کے لیے ہو، تاکہ نکاس کو ممکن اور شہروں کو سیلاب سے بچایا جا سکے۔ یہ ساری باتیں حالیہ بارشوں کے مناظر اور ان کے مابعد مظاہر دیکھ کر ذہن میں ابھریں۔ مون سون اپنے جوبن پر ہے، ہر طرف چوک چوراہے تالاب نما نظر آرہے ہیں، روشنیوں کے شہر کراچی سے لیکر ،باغوں کے شہر لاہور تک ندی نالے عام ہیں۔ شہروں کا یہ عالم ہے۔ تو دیہاتی علاقوں کی حالت کیا ہوگی۔۔۔؟ واللہ عالم! سڑکوں پر قوانین کی خلاف ورزی اپنی جگہ۔ اخلاقی ضوابط کی پاسداری نہ ہونے کے برابر محسوس ہو رہی ہے۔ گاڑی پر سوار موٹر سائکل سواروں اور موٹر سائیکل سوار پیدل چلنے والوں پر پانی کی بوچھاڑ کرتے عام نظر آتے ہیں۔ بارش کے دوران موٹر سائیکل سوار کسی نہ کسی پل کے نیچے اپنی سواریاں روک لیتے ہیں۔وہ اپنے آپ کو تو بارش سے بچا لیتے ہیںلیکن ٹریفک کی روانی کا ستیا ناس کر چھوڑتے ہیں۔ گِلا پل کے نیچے رکنے کا نہیں۔ صرف ایک قطار میں نہ رہنے کا ہے، کہ ٹریفک کی روانی متاثر نہ ہو۔خیر! اس سب پر پھر سہی۔ آج سوال زیر ِ بحث یہ ہے کہ آیا نکاسیِ آب کوئی نئی اصطلاح ہے؟ کیا پانی کے نکاس اور منتقلی کا نظام کوئی نیا تصورہے؟ یا یہ کوئی انتظامی ناکامی ہے جس کے باعث ہم ایسے نظام اور اس کے نفاذ کو ممکن نہیں بنا سکے۔ آیا ہمارے پاس دماغ کم ہے اور ہمارے پُرکھوں کے پاس زیادہ تھا؟ ہمارے پاس آلات اور تکنیکی وسائل موجود نہیں ؟یا یہ تمام تر مسائل صرف بد انتظامی اور بد عملی کی وجہ سے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث دیہی علاقے شہروں کا حصہ بنتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ماحول بڑی تیزی سے زوال کا شکار ہو رہا ہے۔ ڈرینیج کے نظام کو پچھلے ستر سال سے وقت کے بدلتے تقاضوں کے پیش نظر بہتر نہیں کیاگیا۔ پانی کا ضیاع عام ہے۔ ڈیمز موجود نہیں۔ سیلابی ریلے ہر سال سینکڑوں ایکڑ زمین نگل جاتے ہیں۔ دوسری بات درختوں کی کٹائی۔ جس کی وجہ سے موسمی تبدیلیاں نئے نئے طوفانوں کو ہمارے سامنے لا کھڑا کرتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کی جنگلوں کی حفاظت کیلئے طویل المیعاد حل ضرور ہے ۔ البتہ ریاست کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیلاب سے بچنے کا فوری حل تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ لگ بھگ چھ ہزار سال سے انسان نکاس کے مسائل کا حل کسی نہ کسی صورت تلاش کرتا رہا ہے۔ کیوں کہ یہ ہر معاشرہ کی بنیادی ضرورت ہی نہیں بنیادی ذمہ داری بھی ہے۔ عجب نہیں کہ ہڑپہ کے باسی ، سندھ کی موجودہ انتظامیہ سے اس حوالے سے زیادہ ہوش مند تھے۔ انہیں صفائی، نفاست اور صحت مند معاشرے کی تشکیل کا زیادہ خیال تھا۔اب ایک بات تو طے ہے۔ یہ تمام تر سہولیات وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہیں۔ پچھلے روز لاہور میں بارش کے باعث سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک نے دماغ خراب کیے رکھا۔ اسی دوران نظر ایک گاڑی پر پڑی ۔ شیشہ نیچے تھا۔ ماں اپنے بیٹے کو گود میں لیے لاڈ لڑا رہی تھی۔بچہ بارش کے قطروں کو اپنے چہرہ پر محسوس کرکے کھلکھلا رہا تھا۔ اچانک سے ماں نے اپنے بیٹے کے کان میں کچھ کہا۔اگلے ہی لمحہ بچے نے اپنی ماں کے ساتھ اپنے ہاتھ بھی دعا ئیہ انداز میں بلندکیے۔ یہ منظر بڑا مسحور کن تھا۔ میری جگہ خواہ کوئی بھی ہوتا۔چاہے ٹریفک نے کتنا ہی سکون خراب کیوں نہ کیا ہوتا، میری ہی طرح ضرور مسکرا پڑتا۔ خیر! امید ہے کہ بچہ ڈرینیج کے انتظام کی بہتری کے لیے ہی دعا گو ہوگا۔