ہرجرم کے بعد جوعرش ہلادینے والی چیخ سنائی دتی ہے اس میں اہل پاکستان کے لئے ایک عظیم سبق پنہاں ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے نام بننے والے ملک پاکستان میں اسلامی نظام اورشرعی قوانین نافذ کئے جائیں تاکہ یہاں رہنے بسنے والے انسانوںکومحفوظ بنیایاجاسکے۔ اسلامی شریعت میں جو احکام وقوانین مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو دیے گئے ہیں،بس وہی انسانیت کو (protection) دے سکتے ہیں۔کسی بھی مسلم ریاست میںشرعی احکام وقوانین کانفاذ ہوجائے تو سنگین جرائم سے معاشرے کوپاک رکھا جا سکتا ہے۔ اسلامی احکامات کے مطابق شرعی سزائیں نافذ کرناہی اصل انصاف اورحقیقی معنوں میں عدل کہلاتاہے۔اس لئے کسی بھی مسلمان ملک میں تب تک انصاف اورعدل ممکن نہیں جب تک مجرموں پراسلامی اورشرعی سزائوں کانفاذ نہ ہو۔ جب تک مسلم ریاستوں میںاسلامی اورشرعی سزائوں کانفاذ نہیں ہوتاتب تک قتل وغارت گری ، زنا ، بدکاری ،جنسی بے راہ روی ،بدمعاشی ،چوری، اغواکاری، تخریب کاری اور ہرنوعیت کے فساد فی الارض سے بچانہیں جاسکتااوریہ طے ہے کہ مجرموں کو شرعی احکام کے مطابق سزا مل جائے تومسلم ریاستوں میںانسانیت بچائی جاسکتی ہے۔ دیگرشرعی سزائوں کی طرح رجم بھی ایک شرعی سزاہے جوشادی شدہ زانی کیلئے مقرر ہے۔ رجم ایک عربی اصطلاح ہے جس کے معنی پتھر پھینکنے (stoning) کے آتے ہیں اور اس اصطلاح سے مراد ایک ایسی سزا کی لی جاتی ہے جس میں جرم کے مرتکب شخض کا دھڑ سینے تک زمین میں گاڑ کر اس پر پتھر برسائے جائیں یہاں تک کے اسکی موت واقع ہو جائے۔یہ کارروائی امام اورمسلمانوں کی ایک جماعت کے سامنے کی جائے۔ فرمان الہی ہے :۔ترجمہ !اور ان کی سزا کے وقت ایمان والوں کی ایک جماعت حا ضر ہونی چاہیے۔رجم کے بارے میں عورت اور مرد کا حکم برابر ہے۔ البتہ عورت کے کپڑے باندھ دیے جائیں تاکہ وہ بے پردہ نہ ہو ۔ رجم کا حکم احادیث میں آتا ہے اورعہدنبوی اورپھرخلفائے راشدین المھدیین کے مبارک اورمقدس دورمیںیہ شرعی سزانافذ ہوئی ۔ یہ کوئی کم وقت نہیں کہ 73برس سے کلمہ طیبہ کے نام پرمعرض وجود میں آنے والی ریاست پاکستان میں جواجتماعی جرم لگاتار سرزد ہورہاہے وہ ہے اسلامی نظام اور شرعی قوانین سے مسلسل انحراف ۔مملکت میںآج تک وڈھیرانہ ،جاگیردانہ نظام نافذ ہے اور دین سے نابلدلوگ صریرآرائے اقتدار ہوتے رہے انہوں نے جان بوجھ کر مملکت پاکستان میں اسلامی نظام اورشرعی قوانین کانفاذ ہونے نہیں دیااورنہ خودکیا۔اس طرح وہ جان بوجھ کریہ جرم کرتے رہے وہ مجرم توتھے ہی لیکن مملکت کے عوام بھی اس گناہ میں برابرکے شریک ہیں کہ جنہوں نے انہیں کبھی یہ نہیں کہاکہ ہمیں اسلامی نظام اورشرعی قوانین چاہئے ۔اب اسی جرم کاخمیازہ اس طرح بھی اٹھاناپڑھ رہاہے کہ مملکت میں انسانی لبادہ اوڑھے درندے اوربھیڑیئے فرشتہ صفت معصوم اورپھول جیسے بچے وبچیوں کے ساتھ درندگی کاارتکاب کرتے ہیں کہ جو جنگلی درندے بھی نہیں کرتے مگرافسوس یہ انسانی درندے۔ یہ درندے غیرشادی شدہ بالغ لڑکیوں اور شادی شدہ خواتین کو نوچ نوچ کرانہیں موت کی نیندسلارہے ہیں لیکن افسوس کہ مملکت کے وڈھیرانہ، جاگیردانہ نظام نافذ اور دین سے نابلد حکمران اس درندگی پرچنددن جزع وفزع کرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں لیکن اصل مرض کاحقیقی علاج کرنے سے کتراتے ہیں۔مملکت کے حکمران کیوں نہیں شرعی قوانین نافذ کئے جاتے ہیں کیاان حکمرانوں کوڈرہے کہ پھران کااقتدارقائم نہیں رہ سکے گا۔ واللہ اقتدار تمہارے پاس ہی رہے گالیکن مملکت کے عوام کواسلامی نظام اورشرعی قوانین چاہئیں۔ یہ قوانین نافذ کرنے والا زید ہو یا بکراسے مملکت کے عوام کوکوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ معاملہ انتہائی سنگین ہے اورمملکت پاکستان بھرمیں جنسی درندوںکی ہڑبونک کے حالیہ واقعات کودیکھ کرنہیں لگ رہاکہ اب اس ملک میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔اس لئے فوری طورپرمملکت میں اسلامی نظام اورشرعی قوانین نافذ کردیئے جائیں۔ سعودی عرب میں سرعام شرعی سزائوں کا نفاذ ہوتا ہے اس لیے وہاں لوگ قتل وغارت تودور کوئی بھی غلط قدم اٹھانے سے پہلے ہزاربارسوچتے ہیں۔اس ملک میں اگرکسی ایک چورکے ہاتھ کاٹے جاتے توکیایہ ملک پھر آج اس طرح چوروں سے بھرا ہوتا؟یہاں اگر کسی ایک شادی شدہ زانی یازانیہ کو سنگسار کیا جاتا اورغیر شادی شدہ زانی یازانیہ یا شرابی کو کوڑے پڑتے تو کیا اس ملک میں حواکی بیٹیوں کی عزتیں اور عصمتیں پھراس طرح نیلام اور تار تار ہوتیں؟ کسی معصوم بچی بچے اورخاتون کوہوس کانشانہ بنانے والے کسی درندے کو اگراس ملک میںشرعی سزا دی جاتی تونہ قصورکی زینب کی خون آلود اور تشددزدہ نعش دیکھنے کی نوبت آتی اورنہ ہی اسلام آبادکے فرشتے کی ہڈیاں گننے کاکوئی موقع ملتا۔ والدین اور اقربا کے آنسو بہاتے بہاتے آنکھیں بھی مکمل خشک اورضبط وصبرکی تمام زنجیریں ٹوٹ چکی ہیں۔سانحے کے وقت لوگ دعائیں بہت کرتے مگردوا کے بارے میں اہل پاکستان نے کبھی سوچابھی نہیں۔سینہ کوبی اورآہ وزاری بہت کرتے، معصوم کلیوں کی نعشوں کوسامنے رکھ کر آہیں بہت بھرتے،آنسو بہت بہائے۔لیکن درندوں کے آگے حصاراوردیوار کوئی نہیں بنائی۔ درندوں کی سرعام شرعی سزائیں وہ حصار اور دیوار ہے جس کے ذریعے ہم اس چمن اورباغ کوان درندوں سے بچاسکتے ہیں ۔ان وحشی درندوں کو انجام تک پہنچانے کاواحد نسخہ شرعی سزائوں کانفاذ ہے ،باقی سب جھوٹ ،دجل ،فریب اوردھوکہ۔ شرعی سزائوں کانفاذ ملک،قوم اورمعاشرے کو اس طرح کے درندوں اورسوروں سے بچانے کے لئے مجرب نسخہ ہے ۔ہم جس دین کے نام لیواہیں ۔ ہم اس دین کے احکامات اوراس کے دیئے ہوئے قوانین سے آخربھاگ کیوں جاتے یہ اس دین کی تعلیمات ہیں کہ مجرم جتنابڑااورجرم جتنابھاری ہو سزا بھی پھراتنی ہی سخت دی جائے۔ چوری پرچورکے ہاتھ کاٹنے اورزناپرکوڑے مارنے اورسنگسارکرنے کی سزائیں صرف اس لیے مقررکی گئی ہیں کہ مجرم کونہ صرف دنیامیںاس کے کئے کی سزاملے بلکہ دیگرلوگ اس سے عبرت بھی حاصل کریں۔