مودی حکومت نے ہندوستانی مسلمان کے سر پر صرف این آر سی کی تلوار ہی نہیں لٹکا دی ہے بلکہ یہ بھی طے ہے کہ این آر سی اب سارے ملک گیر پیمانے پر نافذ بھی کیا جائے گا۔ اس کے پیچھے دو مقصد ہیں۔ اول یہ کہ اس طرح مسلمان کا شہری حقوق ختم کرا سکو، غلامی کے درجے پر پہنچا دو۔ دوئم بی جے پی اگلے لوک سبھا چناؤ سے قبل مسلم ووٹ بینک کی قوت بالکل ختم کرنا چاہتی ہے۔ اس عمل میں این آر سی بے حد کارگر ثابت ہوگا۔ وہ کیسے! دیکھیے بی جے پی نے آسام میں کیا کیا! این آر سی کے ذریعہ اگر کسی شخص کے کاغذات مشکوک نکلے تو اس شخص کو انھوں نے ڈی ووٹر لسٹ میں ڈال دیا۔ یہ ڈی ووٹر لسٹ کیا ہے! ڈی یعنی مشکوک ووٹر لسٹ۔ اب جب آپ مشکوک ووٹر لسٹ میں شامل ہو گئے تو ظاہر ہے کہ آپ اس وقت تک ووٹ نہیں ڈال سکتے جب تک کہ آپ یہ ثابت نہیں کر دیں گے کہ آپ اس ملک کے اصل باشندے ہیں۔ اب آپ کی سمجھ میں آیا کہ این آر سی کے ذریعہ اگلے چناؤ سے قبل بی جے پی کیا کرنے جا رہی ہے۔ سازش یہ ہے کہ مان لیجیے کسی حلقہ انتخاب میں مسلم ووٹر 20 فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہے تو اس حلقہ انتخاب کے مسلم اکثریتی ووٹر کو ڈی لسٹ یعنی مشکوک لسٹ میں ڈال دو تاکہ مسلم ووٹ بے معنی ہو جائے۔ پھر وہ اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے دوڑتا رہے۔ اس بیچ میں چناؤ ختم اور بی جے پی کا مقصد پورا ہو گیا۔ یہ کام بی جے پی اگلے لوک سبھا چناؤ سے ایک آدھ سال قبل کرے گی تاکہ مشکوک ووٹر کو اپنی شہریت ثابت کرنے کا وقت بھی نہیں مل پائے۔یہ تو ہے بی جے پی کا گیم پلان۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سازش سے بچنے کا کوئی طریقہ یا لائحہ عمل ممکن ہے کہ نہیں؟ کسی بھی سیاسی مسئلہ کے بچاؤ کی حکمت عملی تیار کرنے کا کام قوم کی قیادت کا کام ہے۔ بیچارا ہندوستانی مسلمان اس کی کوئی اپنی قیادت ہے ہی نہیں۔ شریعت، قرآن، تین طلاق اور بابری مسجد جیسے مسائل پر خود کو قائد بتانے والے جدید علما اور ان کے چیلے چپاٹی کا اب سرے سے کہیں پتہ نہیں ہے۔ جذباتی بیان اور سیاست کر بی جے پی کو قوت دینے والی یہ مسلم قیادت نہ اس لائق ہے کہ وہ کوئی حکمت عملی بنا سکے نہ ہی اس میں اب یہ جرات ہے کہ وہ بی جے پی کا سامنا کر سکے۔ یہ تمام افراد اس لیے خاموش ہیں کہ انھوں نے مسلم ٹھیکے داری کے نام پر کثیر مال جمع کیا ہے۔ ان بے ایمانوں کی فائلیں سی بی آئی اور حکومت کے پاس موجود ہیں۔ چنانچہ ، جماعت اور بورڈ و مشاورت جیسے بورڈ والی کسی قیادت سے قطعاً کوئی امید مت رکھیے۔ تو پھر کیا خود کو بی جے پی کے حوالے کر غلامی تسلیم کر لی جائے!ہرگز نہیں۔ ابھی ہندو۔مسلم نوجوانوں نے مل کر جو پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ تو جاری رہنا چاہیے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس ملک کی سیکولر قیادت کھل کر آپ کے ساتھ ہے۔ غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں کی تمام حکومتوں نے اس معاملے میں بی جے پی کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ آپ خود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ تو اب کیا ہونا چاہیے۔ پہلی بات یہ کہ اس مسئلہ میں پوری کوشش یہ ہو کہ ہندو-مسلم اتحاد قائم رہے۔ اس سلسلے میں محلے محلے پڑھے لکھے مسلم افراد کا ایک گروہ بننا چاہیے جو لوکل دلت اور پسماندہ ذاتوں کی لوکل لیڈرشپ کے ساتھ رابطہ قائم کرے اور ان کو یہ سمجھائے کہ این آر سی محض مسلم دشمن نہیں بلکہ غریب دشمن قانون ہے۔ کیونکہ کوئی بھی غریب اور ان پڑھ شخص نہ تو اپنی شہریت یا اپنے باپ دادا کی شہریت ثابت کرنے کو کاغذات پیش کر سکتا ہے جو حکومت مانگنے جا رہی ہے۔ کیونکہ آدھار کارڈ، راشن کارڈ یا ووٹر لسٹ کا کارڈ دیکھنے سے شہریت ثابت نہیں ہوگی۔ یعنی این آر سی مسلمان کے ساتھ ساتھ غریب اور جاہل کے لیے بھی خطرناک ہے۔ یہ بات جاہل ہندو تک پہنچنی ضروری ہے۔ اس کے لیے ایک شہری اور محلہ کمیٹی ہونی چاہیے جو ہندوؤں کے بیچ تک یہ کام کر سکے۔ یعنی این آر سی سے بچنے کی حکمت عملی کا پہلا جز ہندو-مسلم اتحاد ہے۔دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ وہ کون سے کاغذات ہیں جس کو دکھا کر آپ این آر سی کے قہر سے بچ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں راقم الحروف نے آسام سے جو معلومات حاصل کی وہ لسٹ پیش خدمت ہے۔ آسام میں شہری لسٹ یعنی این آر سی میں داخل ہونے کی کٹ آف تاریخ مارچ 24 سنہ 1971 ء تھی۔ اس بنیاد پر وہاں حکومت نے دو لسٹ یعنی لسٹ اے اور لسٹ بی بنائی تھی۔ لسٹ اے میں ہر شخص کو خود اپنے متعلق کاغذات داخل کرنے تھے اور لسٹ بی میں اپنے والدین سے متعلق کاغذات داخل کرنے لازمی تھے۔ پہلے لسٹ اے یعنی ہر فرد اپنے متعلق کم از کم ذیل کاغذ میں ایک کاغذ یا کیا دستاویز داخل کر سکتا تھا، وہ پیش خدمت ہے۔ اس لسٹ میں آسام میں 14 دستاویزات تھیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی دستاویز پیش کرنا لازمی تھی۔ وہ تمام لسٹ یہ تھی: 1. ووٹر لسٹ میں 24 مارچ 1971 تک نام کا ثبوت، 2. زمین یا جائیداد کے مالکان حقوق یا کرائے داری سے متعلق کاغذات، 3. شہریت سے متعلق کوئی سرکاری سرٹیفکیٹ، 4. پرماننٹ رہائشی سرٹیفکیٹ، 5. رفیوجی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ، 6. سرکار کے ذریعہ جاری کیا گیا آپ کے نام کا کوئی لائسنس یا سرٹیفکیٹ، 7. سرکاری نوکری سے متعلق کوئی سرٹیفکیٹ، 8. بینک یا پوسٹ آفس کے کاغذات، 9. سرکاری پیدائش سرٹیفکیٹ، 10. اسٹیٹ ایجوکیشنل بورڈ یا یونیورسٹی سرٹیفکیٹ، 11. عدالت کا کوئی ریکارڈ، 12. پاسپورٹ، 13. لائف انشورنس پالیسی۔ ہم کو یہ 13 کاغذات معلوم ہو سکے۔یہ تو رہے وہ کاغذات جن میں کوئی ایک دستاویز ہر شخص کو اپنے متعلق پیش کرنی ہوگی۔ پھر لسٹ بی میں والدین سے متعلق دستاویز دینی ہوگی جس کی لسٹ آسام میں یوں تھی: 1. والد/والدہ کا برتھ سرٹیفکیٹ، 2. ان کے جائیداد کے کاغذات، 3. بورڈ یا یونیورسٹی سرٹیفکیٹ، 4. بینک/لائف انشورنس/ پوسٹ آفس ریکارڈ، 5. سرکل آفیسر/ گاؤں پنچایت سکریٹری سرٹیفکیٹ شادی شدہ عورت کے متعلق، 6. ووٹر لسٹ میں نام، 7. راشن کارڈ اور 8. کوئی بھی قانونی دستاویز جس میں کٹ آف مدت سے قبل ان کے نام ہوں۔ اگر کوئی عورت کہیں باہر سے بیاہ کر آتی ہے تو اس کو ان تین میں سے ایک کاغذ داخل کرنا ہوگا: 1. سرکل افسر یا گاؤں پنچایت سکریٹری کا سرٹیفکیٹ یہ ثابت کرتے ہوئے کہ وہ باہر سے بیاہ کر آئی ہے۔ 2. راشن کارڈ میں اس کا نام جو کٹ آف مدت سے پہلے کا ہو۔ تو یہ ہے آسام کی لسٹ جن میں سے کوئی ایک دستاویز ہر شخص کو داخل کرنی ہوگی۔ ان کاغذات کی تلاش ابھی سے شروع ہو جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں محلہ کمیٹی کو وکیلوں کے ساتھ مل کر یہ کام فوراً شروع کر دینا چاہیے۔ قائدین ملت کا انتظار کیے بغیر خود عمل کرنا ہوگا۔ یہ کام آخر وقت کے لیے مت چھوڑیے کیونکہ اگر ان میں سے کم از کم ایک دستاویز عین وقت پر نہیں ملی تو این آر سی سے آپ باہر، یعنی پھر آپ غلام ہو گئے۔ ( بشکریہ روزنامہ سیاست بھارت)