اس بات میں تو اب کسی کو شبہ نہیں کہ رُوئے ارض پہ جتنی تبدیلیاں گزشتہ بیس سالوں میں وارد یا مسلط ہوئیں، اتنی تو بیس صدیوں میں بھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔ ایک چھوٹا سا شریر پرزہ جسے عرفِ عام میں ’’موبائل‘‘ کہا جاتا ہے، اس نے انسانی اوقات اور انسان کے اوقات پہ ایسا غضب کا ڈاکا مارا ہے کہ جس کا رونا رویا جا سکتا ہے، نہ کہیں رپٹ درج کرائی جا سکتی ہے۔ اس کی گفتار، مفتار، رفتار ایسی بے ڈھنگی ہے کہ جس کے آگے کوئی بند باندھا جا سکتا ہے، نہ سپیڈ بریکر بنایا جا سکتا ہے، حتیٰ کہ کوئی قوما، ندائیہ، استعجابیہ یا فُل سٹاپ بھی اس کے آڑے آنے کو تیار نہیں۔ اس عزیزی نے لوگوں کے رویوں، رواجوں، مزاجوں، سماجوں کو ایسا تہ و بالا کیا ہے کہ نئی اور پرانی نسل کے ہوش و حواس و ترجیحات، ایک دوسرے سے قلمی یا قلبی دوستی کرنے کو تیار نہیں۔ اسی کی شر انگیزیوں کی چھتر چھاؤں میں تیزی سے تبدیل ہوتی اس دنیا کے نئے سال کی ابتدائی تاریخوں میں ایک حیرت انگیز بلکہ عجلت آمیز مزید بلکہ عبرت انگیز اشتہار نظر سے گزرا، جس کا مفہوم و مدعا کچھ یوں ہے: ’’ تین جنوری کو ایک اعلیٰ عہدے دار فلاں ابنِ فلاں کی اہلیہ وفات پا گئی ہیں۔ اُن کی ملکیت میں ڈی ایچ اے میں واقع ایک کنال کا قیمتی پلاٹ ہے، جو ہم مرحومہ کے حقیقی وارثان فلاں ابنِ فلاں کے نام منتقل کروا رہے ہیں، کسی بہن بھائی کو کوئی اعتراض ہو تو وہ کل ختم اور دعا کے فوراً بعد رجوع کر سکتا ہے۔‘‘ اللہ اکبر! … اس اشتہار کو پڑھ کے ہمارے ذہن میں ایک ایسے گھر کا نقشہ آ رہا ہے جس میں ایک بوڑھی خاتون (جس کے پاؤں کے نیچے جنت بھی بیان کی جاتی ہے) کی لاش پڑی ہے اور گھر میں موجود چار جوان بیٹے یعنی (حقیقی وارثان) تجہیز و تکفین کا انتظار کیے بغیر اخبار میں اشاعت کے لیے اشتہار تیار کر رہے ہیں۔ اس معجل اشتہار کی اشاعت سے جائیداد سے وابستہ متعدد کہانیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک شگفتہ میگزین میں چھپا اس بیوہ کاقصہ بھی یاد آ گیا، جسے کسی زمانے میں ہم لطیفے کے طور پر سنا کرتے تھے۔ قصہ کچھ یوں تھا: ’’ میرے خاوند اسلم علیم، جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہو گیا تھا ، ان کے افسوس کے لیے آنے والے… اس نمبر پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ منجانب: شائستہ اسلم، عمر ستائیس سال، رنگ گورا،دیکھنے میں جاذبِ نظر، مکان ذاتی، اولاد کوئی نہیں۔ گلی نمبر 4، مکان نمبر 14 وغیرہ،وغیرہ۔‘‘ ہمارے خیال میں اب تیزی سے وہی نسل تیار ہو رہی ہے، جسے ہر کام میں بہت جلدی ہے اور جس کی پیش گوئی ایک صدی قبل لسان العصر اکبر الٰہ آبادی نے کر دی تھی: مصیبت میں بھی اب یادِ خدا آتی نہیں اُن کو دعا منھ سے نہ نکلی پاکٹوں سے عرضیاں نکلیں ہمارے ایک کھال شناس (Skin Specialist) ڈاکٹر دوست بتاتے ہیں کہ انھیں نئے زمانے میں نئے نئے کسٹمرز سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ایک شام کسی لڑکی کا فون آیا کہ ڈاکٹر صاحب! میری عمر اس وقت بیس سال ہے، رنگ انتہائی گورا ، ہونٹ گلابی، آنکھیں شربتی، بال لمبے اور سیاہ، قد ساڑھے پانچ فٹ، گردن لمبی اور شفاف، مَیں کیا لگا کے سویا کروں؟ مَیں نے جواب دیا: ’’کمرے کو اندر سے کُنڈی‘‘ ہم نے کسی زمانے میں لکھا تھا کہ نئی نسل کو وقت سے پہلے بالغ کرنے میں تین چیزوں کا ہاتھ ہے: گرمی، غربت اور پروین شاکر…لیکن اب ان تینوں الفاظ کو نہایت سہولت سے ’’موبائل، موبائل اور موبائل‘‘ میں بدلا جا سکتا ہے۔ اوپر سے ستم یہ کہ یہ فتنہ پرداز آلہ نئی نسل کو محض وقت سے پہلے بالغ ہی نہیں، ضرورت سے زیادہ خود سر، خود کر، خود اعتماد، خودناشادبنانے کا فریضہ بھی نہایت سرعت سے انجام دے رہا ہے۔ انھوں نے تو اپنے مزاج اور ضرورت کے مطابق نیوٹن کا ایک نیا لاء بھی دریافت کر لیا ہے، جسے یہ ’’سٹوڈنٹ۔ٹالوجی‘‘ کہتے ہیں، اس کا لبِ لباب یہ ہے کہ: سلیبس کی ہر کتاب کو کسی گرد آلود اور آرام دہ گوشے میں استراحت فرمانی چاہیے، یہاں تک کہ تمھارا مڈٹرم یا فائنل آ جائے۔ ایسے میں امتحان کی صورتِ حال اور اس کے بعد والدین کی جانب سے بننے والی دُرگت کے پیشِ نظر یہی ’’ہر فن ہَولا‘‘ طلبہ اس طرح کی دعائیں مانگتے دکھائی دیتے ہیں: ’’اے اللہ! ان تمام طلبہ کو امتحان میں کامیابی عطا فرما، جنھیں ٹِک ٹاک کی بنا پر بُک باک کی طرف سال بھر توجہ کرنے کی فرصت نہیں ملی… ان معصوم ہاتھوں کی لاج رکھ لے، جنھوں نے اَن لمیٹڈ SMS پیکجز کو ضائع نہیں ہونے دیا… خدایا! اُن آنکھوں کو روشنی عطا کر ، جو نیٹ اور ٹی وی کے سامنے بیٹھ بیٹھ کر کتاب دیکھنے کے قابل نہیں رہیں… ان غریب بچوں کی مدد فرما جن کی گرل فرینڈز نے ڈھائی روپے والے پیکج کے بل بوتے پر ساری ساری رات انھیں پڑھائی سے غافل رکھا!!‘‘ پھر جب حسبِ توقع گریڈ یا سی جی پی اے کی باری آتی ہے تو ان کا حال اس بچے کی طرح ہوتا ہے جو اپنے ہی جیسے کسی غم گسار دوست سے کہہ رہا تھا: ’’جب کبھی ہم روتے ہیں، کوئی آنسو پونچھنے نہیں آتا… جب ہم پریشان ہوتے ہیں، کوئی درد بٹانے نہیں آتا… حتیٰ کہ جب ہم خوش ہوتے ہیں تو بھی کوئی رشتے دار اس میں شریک ہونے نہیں آتا… لیکن جیسے ہی رزلٹ آتا ہے، خاندان کا ایک ایک فرد، پاکستان کا ذمہ دار شہری بن کے اس کی تفصیلات جاننے پہ جُت جاتا ہے۔‘‘ ٹی وی اشتہاروں کے سائے میں پل کر جوان ہونے والی اسی نئی نسل کے ایک پانچ سالہ بچے کو سکول ٹیچر نے گال پہ بوسہ دیا تو لپ سٹک کا واضح نشان پڑ گیا۔ ٹیچر تھوڑی سی کھسیانی ہو کر بولی: سوری! بچے نے تَڑ سے جواب دیا: کوئی بات نہیں مِس! کچھ اچھا کرنے میں اگر داغ لگ جائے تو داغ تو اچھے ہوئے ناں! ایسے ہی ایک سکول میں پرنسپل خطاب کرتے ہوئے نہایت غصے سے بچوں کو تنبیہ کر رہا تھا: ’’اگر کوئی لڑکا گرلز سیکشن کی طرف گیا تو پہلی دفعہ اسے سو روپے جرمانہ ہوگا، دوسری دفعہ دو سَو اور تیسری دفعہ تین سَو… ‘‘ کلاس سے آواز آئی: ’’کوئی منتھلی پیکج نہیں ہے سر!‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ نئی سے نئی ایجادات نے زندگی کو بہت سی آسانیوں سے ہم کنار کر دیا ہے۔ وہ بزنس سے لے کے تعلیم اور بلنگ سے لے کے نوکری کے حصول تک کے کام گھر بیٹھاانجام دے لیتا ہے…ایسے ہی ایک ٹیکنالوجی یافتہ نوجوان نے دوسرے شہر میں مقیم اپنی منگیتر کو بائیسویں سالگرہ پر کسی مانوس کمپنی کے ذریعے آن لائن بائیس پھولوں کا آرڈر دیا۔ ساتھ ہی پیغام ارسال کر دیا کہ جانِ من اپنی عمر کے حساب سے پھولوں کا یہ تحفہ قبول کرو! ادھر کمپنی والوں نے سوچا کہ تحفہ بھجوانے والا ہمارا مستقل گاہک ہے، لہٰذا آٹھ دس پھول زیادہ ڈال دیے۔ وہ تیز طرار عاشق آج تک نہیں جان پایا کہ اس کے بریک اپ کا اصل سبب کیا ہے؟