بزمیؔ صاحب سے ہمارے تعلُق کو برسوں بیت گئے لیکن آج تک بزمیؔ صاحب ہماری سمجھ میں آئے ہیں اور نہ اُن کے ساتھ ہمارے تعلُق کی وجہ۔کوئی شوق،کوئی دلچسپی ،کوئی پسند مشترک نہیں ،پھر بھی روزانہ گھنٹوں ملاقات رہتی ہے۔دفتر میں اور بھی ’ــکولیگز ‘ ہیں لیکن ہمارے ساتھ ان کا التفات زیادہ ہے۔صبح صبح ہی دفتری اُمور نمٹانے کے بعد وہ ہمارے پاس تشریف لے آتے ہیں۔ معمول یہ ہے کہ ہمارے کمرے میں آتے ہی وہ پہلے سیدھے واش روم جاتے ہیں ۔اور واپسی پر اپنے گیلے نُچڑتے ہاتھوں سے ہمارے ساتھ بڑا پُر تپاک مُصافحہ کرتے ہیں۔ ہم اس بھیگے ہاتھوں مصافحے سے لاکھ بھاگتے ہیں لیکن پکڑے جاتے ہیں اور یہ کوئی عام سا مُصافحہ نہیں ہوتا بلکہ ایک طویل اور گھمبیر مُصافحہ ہوتا ہے جس میںہمارے ہاتھوں سے تولیے کا کام لیا جاتا ہے۔ اس جبری مُصافحے پر ہی کیا موقوف ہے! بزمیؔ صاحب کا ہر عمل اسی ’’ محبت ‘‘ سے لبریز ہوتا ہے۔ گفتگو فرماتے وقت وہ مُخاطب کے بالکل قریب ہوجاتے ہیں۔اس پہ مستزاد یہ ہے کہ کسی مردم بیزار حکیم صاحب نے اُنہیںصُبح نہار منہ کچے لہسن کی چند ’’ تُریاں ‘‘ کھانے کا مشورہ دے رکھا ہے۔ہمارے خیال میں وہ روزانہ صُبح کوئی چھٹانک بھر لہسن نوشِ جاں کر کے د فتر تشریف لاتے ہیں۔اور پھر دفتر میں ’’ جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے ‘‘ کے مصداق پھرتے رہتے ہیں۔ اکثر فرماتے ہیں کہ وہ دفتروالوں کو مُنہ نہیں لگاتے۔۔۔اِدھر دفتر والے بھی اُن کے بارے میں یہی کہتے ہیں ۔ہمارے پاس تشریف لاتے ہیں تو اُن کی آمد کی خبر پہلے ہی ہو جاتی ہے۔۔کہ ’’ ’خوشبُو‘ بتا تی ہے کہ وہ سفر میں ہے ‘‘۔ جہاں تک اُن کے حکیم صاحب کا تعلُق ہے تو عرض ہے کہ ایک مرتبہ ایک معروف گلوکارہ پشاور میں سٹیج پر گا رہی تھی کہ اسی دوران ایک خاں صاحب نے اپنی کلاشنکوف کا ’ بولٹ‘ چڑھایا اور سٹیج پر آ گئے۔گلوکارہ گھبرا گئی تو اس پر خاں صاحب کہنے لگے، ’’ بہن! تُم گاتا رہو، تُم ہمارا میمان ہے، ہم تو اُسے ڈھونڈتا ہے جو تمہیں یہاں لے کر آیا ہے۔‘‘ہم بھی اُس حکیم کو ڈھونڈتے ہیں جس نے انہیں اس کا مشورہ دیا ہے۔ْ بزمیؔـؔصاحب کو غیبت سے نفرت ہے۔اس کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ اُن کی باتوں میں غیبت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ کسی کی انتہائی بُرائی مقصود ہو توکانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے آنکھیں پھاڑ کر سر گو شی کے انداز میں بات کرتے ہیں۔ ایک دن عرض کیا ، ’’ حضور! یہی تو غیبت ہے ‘‘۔اس پر باقاعدہ اُلجھ پڑے۔فرمانے لگے۔’’ میں محض لوگوں کے احترام و اکرام میں ان کی ناپسندیدہ باتیں اُن کی عدم موجودگی میں کرتا ہوں !! مقصد اُن کی دلآزاری سے بچتے ہوئے اُن کی اصلاح کرنا ہے۔ یوں تو بزمیؔصاحب کاکوئی قول و فعل کبھی بھی باعثِ سکون نہیں رہا لیکن اُن کے ساتھ کھانا پینا تو حد درجہ اذیّت ناک ہوتا ہے۔وہ کسی انجانے خوف کے پیشِ نظر بہت تیزی سے کھاتے ہیں۔مُنہ ابھی بھرا ہوتا ہے کہ اُس میں ایک اور نوالہ ٹھونس لیتے ہیں۔اس پر مستزاد تیز گفتگو حسبِ عادت جاری رہتی ہے ۔ خوراک کے اجزاء نیچے گرتے پڑ رہے ہوتے ہیں اور ’’ تبرکاً‘‘ ساتھ والوں کے کھانے کا حصّہ بنتے رہتے ہیں۔ایسے میں جب کبھی وہ قہقہہ لگاتے ہیں تو گویا کھانے کی میز پر ’’ خودکش دھماکہ‘‘ ہو جاتا ہے۔قہقہے کے’’ اثرات ‘‘سے بچنے کے لئے ہماری حتیٰ الوسع کوشش ہوتی ہے کہ کم از کم کھانے کے دوران کوئی ہنسی کی بات نہ ہو۔لیکن ستم یہ ہے کہ بزمیؔصاحب کا قہقہہ کسی مزاحیہ بات کا مُحتاج نہیں ، وہ اپنی ہی کسی ایسی بات پر زوردار قہقہہ لگائیں گے جس پہ،اُصولی طور پر، رونا چاہیے۔۔۔بخدا ! بزمیؔ صاحب کے متعلق ہماری رائے بھی باقی دفتر والوں سے چنداں مختلف نہیں اور کئی دفعہ سوچا بھی کہ اس کا اظہار کر دیں، لیکن یہ کم بخت مُروّت ہمیشہ آڑے آ جاتی ہے۔ایک دن فرمانے لگے،’’ آج دفتر کے بعدتیار رہیے گا ،زرا بازار تک چلیں گے‘‘ گھر پہنچے تو تھوڑی دیرمیںوہ حسبِ معمول اپنی بائیک پر تشریف لے آئے۔ میں نے اپنی گاڑی نکالی اور بازار روانہ ہو گئے۔ بزمیؔ صاحب کے ساتھ سفر گویا "suffer ' کرنا ہوتا ہے۔ وہ فرنٹ سیٹ پرآپ کی طرف رُخ کرتے ہوئے آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں گے اور آپ کا بایاں کندھا پکڑ کر باتیں شروع کر دیں گے۔بہرحال! اُس روز رات گئے تک انہوں نے ’’ وِنڈو شاپنگ‘‘ کی اور پھر ایک ریسٹورنٹ پہ رکتے ہوئے فرمانے لگے کہ بھوک لگی ہے۔اندر گئے تو انہوں نے حسبِ عادت آرڈر دے دیا۔یاد رہے کہ بزمیؔصاحب ہمیشہ صرف آرڈر دیتے ہیں،برسوں گزر گئے بِل وغیرہ دینے کا تکلّف کرتے کم از کم میں نے انہیں نہیں دیکھا۔ ریسٹورنٹ کا’ ہیڈ ویٹر‘ اتفاق سے میرا ’’گرائیں ‘ نکلا۔کھانے کے دوران مجھے ایک شرارت سوجھی۔موقع پا کر میں نے اپنے گرائیں سے کہا کہ بِل ’ صاحب‘ سے وصول کر لیجئے گا۔کھا نے کے بعد میں کسی بہانے باہر نکل گیااور موبائل بند کر لیا۔باہر اندھیرا تھا اور اند ر کا منظر نظر آ رہا تھا۔کافی انتظار کے بعد جب جناب اُٹھنے لگے تو ویٹر بِل لے کر آن دھمکا۔آپ نے ویٹر کو بڑا سمجھایا کہ بِل تو ساتھ والے نے دینا ہے ،انہیں تو یہ ’کام‘ آتا ہی نہیں۔اس دوران انہوں نے فون بھی کئے، مجھے دیکھنے باہر بھی آئے۔۔میں نے گویا ’’ سلیمانی ٹوپی ‘‘ پہن لی تھی۔خیر! انتہائی پریشانی کے عالم میں انہوں نے بِل ادا کیا۔ اُنکی کیفیت بالکل ایسی تھی جیسے کسی کی ’’ ہارٹ اٹیک‘ یا ’ برین ہیمرج‘ ہونے سے پہلے ہو تی ہے۔ واپسی پر اس گستاخی کیلئے میں نے کئی بہانے کئے لیکن وہ نہ مانے۔ اگلے دن دفتر میں وہ میرے پاس تشریف نہیں لائے۔ بڑا ’’ پُر اضطراب سکون ‘‘ محسوس ہو رہا تھا۔ڈر تھا کہیں آ نہ جائیں۔کسی کام سے باہر نکلا تو ایک دوسرے دفتر میں میری نظر پڑی،وہ ایک صاحب کے ساتھ بیٹھے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے سر گوشیاں کر رہے تھے۔یہ اندازہ لگانا مُشکل نہیں تھا کہ روئے سخن کس کی جانب تھا۔