تفصیلی فیصلہ اور اس پر رد عمل ،اکبر آباد کے میر صاحب یاد آ گئے: لکھتے ر قعہ، لکھے گئے دفتر شوق نے بات کیا بڑھائی ہے اصولی بحث اب پس منظر میں جا چکی ہے اور خلط مبحث پر دفتر لکھے جا رہے ہیں۔ اس لیے میں اس کے سماجی پہلو پر ایک رقعہ لکھنا چاہتا ہوں۔سوال یہ ہے معاشرہ آئین کے باب میں کتنا حساس ہے اور دستور کی حرمت کا تصور جو آئین میں تو پوری شدت کے ساتھ درج ہے کیا سماج میں بھی اسی طرح اپنا وجود رکھتا ہے؟یہ سوال ہتھیلی پر رکھ کر کبھی سماج میں اتر کر دیکھیے معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے نالے حسرتوں کا غبار کیوں بن جاتے ہیں۔ آئین کیا ہے؟ کسی یخ بستہ سیاسی رہنما سے نہیں ، زندگی کی دھوپ میں جھلسنے والے کسی عام آدمی سے پوچھیے رنجِ حیات کھینچ کھینچ کر جس کی کمر کمان ہو چکی ہو۔اس کی زندگی میں آئین نام کے کسی ابر رحمت کا کبھی گزر نہیں ہوا۔ اسے کچھ خبر نہیں آ ئین کی افادیت اورحرمت کیا ہوتی ہے۔ایک عام آدمی اس لعلِ ا حمر سے کوئی راہ و رسم نہیں رکھتا۔سوال اب یہ ہے کہ آئین سے آگہی اور وابستگی کے بغیر سماج اس کی حرمت پر کیسے حساس ہو سکتا ہے؟اگر آپ سمجھتے ہیں محض آئین کی کتاب میں آرٹیکل چھ شامل کر کے یہ ہو سکتا ہے تو ، معافی چاہتا ہوں ، آپ غلطی پر ہیں۔ پہلا مرحلہ آئین سے آگہی کا ہوتا، اس کے بعد وابستگی پیدا ہوتی ہے ۔ ہمارا سماج آگہی کے اس تکلف سے بے نیاز ہی رہا۔ نصاب میں آج تک آئین کی اہمیت پر ایک باب درج نہیں ہو سکا۔ آئین کبھی کسی مسجد میں خطبہ جمعہ کا موضوع نہیں بن سکا۔ ایک آدمی کو آئین نے جو بنیادی حقوق دے رکھے ہیں وہ کبھی اسے ملے نہ کبھی زیر بحث آئے۔ کسی طالب علم کو ایک دن بھی کسی کتاب میں یہ سبق پڑھنے کو نہیں ملا کہ آئین میں ایک عام انسان کو کون کون سے حقوق دیے گئے ہیں۔لاتعلقی اور بے گانگی کے اس ماحول میں کوئی سمجھتا ہے آئین کے بارے میں آگہی پیدا ہو جائے گی تو اس خوش فہمی سے پانی تو تبرک کیاجا سکتا ہے ، سوچنے کا انداز نہیں بدلا جا سکتا۔ آگہی کا دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا تھا کہ بھلے کسی نے گھر میں ، مسجد میں ، مکتب میں ، سکول میں آئین کا ایک باب بھی نہ پڑھا ہو اور اسے کچھ معلوم نہ ہو یہ عفیفہ کون ہے لیکن عملی زندگی میں اس کی چند محرومیاں اور مسائل حل کرتے وقت کسی ادارے ، کسی افسر اور کسی رہنما نے انہیں بتایا ہو کہ جائیے صاحب آپ کا یہ مسئلہ حل ہوا کیونکہ یہ آپ کا آئینی حق تھا۔ اس صورت میں وہ سوچتے کہ اچھا آئین نام کا ایک شجر سایہ دار ان پر چھائوں کیے ہوئے ہے اور وہ اس کے لیے دعا گو بھی ہوتے اور اس کی حفاظت پر کمر بستہ بھی ہو جاتے۔ یہ بھی نہیں ہو سکا۔ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق صرف آئین کی کتاب میں ہی جگمگاتے رہے وہ اپنی چمک سے سماج کے اندھیرے ختم نہ کر سکے۔ آئین میں بنیادی حقوق کی بات تو کی گئی لیکن معاف کیجیے ، ادھوری بات کی گئی ۔ایسے ہی جیسے کسی مقطع میں کوئی سخن گسترانہ بات آ جائے۔اہل دانش کی تاویلات اپنی جگہ لیکن عوام کے لیے اس دستاویز میں ایسا کچھ بھی نہیں جو انہیں اس کی حرمت کا قائل کر سکے اور جو ان کے دل میں اس کا احترام ڈال سکے۔صحت اور تعلیم دو بنیادی چیزیں تھیں ، سولہ سال تک مفت تعلیم کی آئین نے بات کی لیکن اہل اقتدار نے اس پر عمل کرنا ضروری نہ سمجھا ۔ ہمارے آئین میں آج بھی صحت اور علاج بنیادی انسانی حقوق میں شا مل نہیں۔اہل اقتدار اپنے علاج کے لیے ملک سے باہر جانا پسند فرماتے ہیں اور عوام کے لیے صحت کارڈ کی بھیک ہے تا کہ غلام اس سخاوت کو یاد رکھیں اور الیکشن میں ووٹ دے کر شکر گزاری کو ثابت کریں۔ہاں ، جان کی سلامتی اور مال کی اقوال زریں کے کچھ اقوال زریں ہیں جنہیں کسی حکومت نے قابل توجہ نہیں سمجھا۔ عوام کبھی رائو انوار کو روتی ہے کبھی بلدیہ ٹائون فیکٹری کو، کبھی ساہیوال کے مقتولین کو اور کبھی ماڈل ٹائون کے لاشوں کو ۔ عوام کی زندگی کے صحرا میں آئین کی وجہ سے ایک دو نخلستان ہی آباد ہو ئے ہوتے تو عوام اور آئین میں ایک رشتہ، ایک قلبی تعلق پیدا ہوتا۔اہل سیاست کے ہاں جب بھی آئین کی بالادستی کی غزل چھڑی اس کا مطلع صرف یہ ہوتا تھا کہ اقتدار پر ہمارے چند خاندانوں کا حق ہے اور کسی کو اس حق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں۔ یہ مطلع بھلے درست تھا لیکن مقطع تک کہیں بھی عوام کا ذکر نہیں تھا۔ اس سارے بیانیے میں کبھی یہ زیر بحث نہیں آیا کہ فلاں چیز عوام کا آئینی حق ہے۔چنانچہ عوام لا تعلق ہوتے گئے۔آئین کی بالادستی کی جدوجہد ان کے لیے پریوں کی ایک کہانی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ گلی چوراہوں میں جائیے اور دیکھ لیجیے ، عوام جب ضیاء الحق اور بھٹو کا تقابل کرتے ہیں یا پر ویز مشرف اور نواز شریف کا تقابل کرتے ہیں تو انہیںآئینی اور غیر آئینی کی کسوٹی پر کم ہی پرکھتے ہیں۔ ان کا پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ کس حکمران نے عوام کے لیے کیا کیا تھا؟حکمران حکومت میں کیسے آیا اور اس کے پاس اقتدار میں آنے کا جواز تھا یا نہیں اس سے زیادہ اس حکمران کی کارکردگی زیر بحث ہوتی ہے۔چنانچہ عوام کے ہاں پر ویز مشرف کی نا پسندیدگی کی وجوہات میں بھی ان کی آئین شکنی سر فہرست نہیں ہے۔ کبھی آپ غور فرمائیں تو آپ کو معلوم ہو کہ یہ وجوہات کچھ اور ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں غدار قرار دیے جانے پر اعتراض اٹھتا ہے لیکن آئین شکن قرار دیے جانے پر راوی چین لکھتا ہے۔جس روز آئین شکنی کے حوالے سے بھی معاشرے میں ایسی ہی حساسیت پیدا ہو گئی اس روز یہ دروازہ بند ہو جائے گا۔ ورنہ آپ بھلے دروازوں پر قفل ڈال لیجیے ، دیوار سے در نکل آئیں گے۔