پھر چشم نیم وا سے ترا خواب دیکھنا اور اس کے بعد خود کو تہہ آب دیکھنا ٹوٹا ہے دل کا آئینہ اپنی نگاہ سے اب کیا شکست ذات کے اسباب دیکھنا چلیے جی اب نئے پاکستان سے ایک مرتبہ پھر قائد کے پاکستان کی طرف سفر شروع جس میں صنعتوں اور عوام کو سستی بجلی مہیا کی جائیگی۔ ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان چھوٹ جانا۔ کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ پاور کمپنیوں سے معاہدہ ہو گیا۔ ہدف بجلی کی ترسیل اور نظام کے لئے اصلاحات ہیں۔ کورونا کا مقابلہ ہو چکا اور ان کے بقول معیشت کی صورت حال بہتر ہو چکی اور انہوں نے یعنی وزیر اعظم نے قوم کو تین اکٹھی مبارکبادیں دے ڈالیں۔ سب خوش ہو جائیں اور تالیاں پیٹیں۔ جلیل عالی نے کہا تھا: لوگوں نے احتجاج کی خاطر دکھائے ہاتھ اس نے کہا کہ فیصلہ منظور ہو گیا قبلہ!اس سے پہلے بھی آپ عوام کو ریلیف دے چکے۔ نوٹسز لے چکے۔ اگر آپ برا نہ منائیں اور اگر منا بھی لیں تو کوئی حرج نہیں۔ میں ایک چھوٹا سا مگر نہایت دلچسپ واقعہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے قارئین بھی صبح صبح محظوظ ہو جائیں۔ ایک بے چارہ کمی کمین چودھری کے پاس گیا کہ اس کو اس کی رقم واپس کی جائے کہ چودھری کے پاس نے امانتاً رکھوائی تھی۔ چودھری کو اس غریب کی جرات پر غصہ آ گیا اس نے اس کمی کو حویلی کا چکر لگانے کو کہا۔ اس کا پیسہ ادا کرنے کا ایک مجرب منصوبہ پیش کر دیا کہ حویلی کے باہر سے کپاس کی ٹرالیاں گزرتی ہیں تو کچھ کپاس حویلی کے درختوں کی ٹہنیوں سے چمٹ جاتی ہے۔ اس کپاس کو اکٹھا کر کے بیچا جائے گا اور یوں کمی کے پیسے ادا ہو جائیں گے۔ اس فضول منصوبے پر کمی کی ہنسی نکل گئی کہ کیا احمقانہ بات ہے۔ چودھری بولا دیکھا یہ کتنا خوش ہو رہا ہے کہ ڈوبی ہوئی رقم مل گئی۔ آپ نے اب تک جس بھی شے کے سستا کرنے کا اشارہ کیا اس چیز کی قیمتوں کو آگ لگ گئی خدا کے لئے لوگ ڈرے ہوئے ہیں۔ پیٹرول کا تماشا تو سامنے کا ہے۔ آٹا اور چینی تو آپ کی چھیڑ بن چکی ہے۔ میرا بجلی کا بل اس مرتبہ 20400روپے آیا اور پچھلی مرتبہ 18000تھا۔ گیس کا بھی ہزاروں میں آتا ہے تو دم گھٹنے لگتا ہے۔ بہرحال آپ کی یہ باتیں قابل عمل ہیں کہ بار بار ہاتھ دھوئیں ماسک پہنیں اور سماجی فاصلے رکھیں۔ آپ یہ کوشش جاری رکھیے کہ سکول کھلنے نہ پائیں۔ ظاہر ہے ایک سال اگر برباد نہ ہوا تو اس کا اثر آگے تک پڑے گا۔ نوکریاں انہیں کہاں سے ملیں گی۔ بے روزگاری آپ بڑھا چکے۔ اگر میں غلط لکھ رہا ہوں تو میں بددیانت اور قلم کی آبرو نہیں رکھ رہا۔لیکن اس کے باوجود میں جواز جعفری کی طرح یہ بددعا تو نہیں کر سکتا کہ: جھوٹ بولوں تو چپک جائے زباں تالو سے جھوٹ لکھوں تو مرا ہاتھ ہنر کو ترسے بہرحال کیا لکھیں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ امید کا دامن تو خیر کسی صورت میں نہیں چھوڑنا چاہیے مگر نہ جانے یہ شعر کیوں ذہن میں آتا ہے کہ کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری۔ اب لئے پھرتا ہے دریا ہم کو۔ اساس میں ٹیڑھی اینٹ لگے توبقول سعدی کے آسمان تک دیوار ٹیڑھی ہی جائے گی۔۔ خان صاحب میری گزارش ہے کہ بنیادی کمی تعلیم کی ہے جس کی طرف ذرا سی بھی توجہ نہیں دے رہے۔ نوجوان بددل ہو رہے ہیں۔آپ یقین کیجیے مجھے بھارتی وزیر تعلیم جو کہ میٹرک پاس ہیں کہ یہ بات اچھی لگی کہ انہوں نے اپوزیشن کے طعنوں سے تنگ آ کر فسٹ ایئر میں داخلہ لے لیا۔ ان کا مذاق اڑانے والے سوچیں کہ انہوں نے کیا غلط کیا کیا ہمارا کوئی وزیر یہ جرات کر سکتا ہے۔ ہمارے پاس تو ایسے ایسے بھی رہے جو میٹرک بھی نہیں۔ جعلی ڈگریوں والے اور پھر اسلم رئیسانی کے جملہ کو کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا نقلی کو گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ ملنی چاہیے اور تو اور ہمارے ملک کے دانشور نہیں جانتے کہ ان کی اکیڈمی آف لیٹرز کا چیئرمین ایک چار جماعت پڑھا صحافی رہا۔ ہم تو ڈوب کر نہیںمرے۔ بڑے بڑے مفکر اور شاعر اگلی قطار میں جا کر بیٹھے تھے۔ خدا کے لئے تعلیم کا کچھ کریں سب بچے تو آن لائن نہیں پڑھ سکتے اکثریت زنگ زدہ ہو چکی ہے۔ اب آخر میں لاک ڈائون ختم ہونے کے بعد پہلے ڈنر کا تذکرہ۔ یہ بڑے مزے کی بات تھی کہ ملتان سے آئے ہوئے معروف کالم نگار اور دانشور عامر شہزاد صدیقی کا فون آیا کہ لندن سے معروف سماجی اور ادبی شخصیت طلحٰہ قریشی تشریف لائے ہیں اور ان کے ساتھ پانچ ستارہ ہوٹل میں ایک ڈنر ہے جس میں ہماری شرکت ازبس ضروری ہے۔ میں تو یہی سمجھا کہ یہ ڈنر بھی آن لائن ہی ہو گا انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ ہوٹل کھل گئے ہیں اور ہم لابی میں بیٹھیں گے۔ خیر میں ہوٹل پہنچا تو آپ یقین کریں سچ مچ وہاں تو ہو کا عالم تھا۔ پہلے تو میں مال روڈ پر ہی سمجھا کہ ہوٹل کہیں پیچھے رہ گیا ہے کہ عام طور پر وہاں گاڑیوں کی قطاریں ہوتی تھیں۔ ایک کشادہ گیٹ پر میں نے پوچھا کہ یہی ہوٹل ہے سکیورٹی والے بھی ایک دو تھے اندر آیا تو منیر نیازی کا شعر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا: آنکھوںمیں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول عبرت سرائے شہر ہے اور ہم ہیں دوستوں ہم چند لوگ وہاں پہنچے ڈاکٹر صغریٰ صدف اور ایک سعدیہ شاہ خواتین میں تھیں یعنی تین پوری نہیں تھیں طلحٰہ قریشی کے ساتھ ڈاکٹر رفیق خاں‘ صابر بخاری‘ مظفر شاہ طاہر قریشی اور عرفان ۔محمودبرق تھے۔ بات بتانے والی یہ ہے کہ طلحٰہ قریشی نے یہ بتا کر تشویش میں مبتلا کر دیا کہ برطانیہ میں قادیانی پاکستان کے خلاف بہت متحرک ہیں اور وہ پارلیمنٹ تک بھی ساری رپورٹیں اپنے حوالے سے پہنچاتے ہیں وہ ساری دستاویزات دکھا رہے تھے وہ اس حوالے سے کام کر رہے ہیں وہاں عرفان محمود برق نے ہمیں اپنی کتاب ’’قادیانیت‘‘اسلام اور سائنس کٹہرے میں پیش کی۔ ان کا اختصاص یہ کہ وہ قادیانی سے مسلمان ہوئے۔خیر یہ الگ کام کا متقاضی موضوع ہے رات گئے ہم وہاں سے لوٹے۔ ملتان سے آئے عامر شہزاد کا شکریہ ایک شعر کے ساتھ اجازت: اے سعدؔ محمدؐ سے لازم ہے محبت یوں ہر شخص کہے تجھ کو دیوانہ ہے دیوانہ