اگرچہ آج خبریں بڑی گرما گرم ہیں اور ان پر تبصرہ کرنے کو دل مچل رہا ہے مگر آج پاسبان عقل کا کہنا ہے کہ سیاست سے ذرا ہٹ کے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ سان فرانسسکو میں کرائے کے ایک فلیٹ میں رہتا ہے۔ وہ کسی برانڈ کے نہیں عام سے کپڑے پہنتا ہے۔ اس کے چہرے پر جو عینک لگی ہے وہ پرانی اور معمولی سی ہے۔ وہ سستی سی ایک دو گھڑیاں استعمال کرتا ہے۔ اسکے پاس کوئی کار نہیں وہ پبلک بس سے سفر کرتا ہے۔ وہ دفتر جاتے ہوئے جو ہینڈ بیگ لیکر جاتا ہے وہ عام سا پلاسٹک بیگ ہے مگر انتہائی حیرت ناک بات یہ ہے کہ اس ’’معمولی‘‘ شخص نے خیر کے کاموں کے لیے 8 بلین ڈالر عطیہ کئے ہیں۔اس شخص کا نام چک فینی ہے۔ اسے نمودونمائش سے نفرت تھی۔ بالآخر اخبار نویسوں اور ٹی وی رپورٹروں نے اس کا کھوج لگایا اور اسے میڈیا کا سامنا کرنے پر آمادہ کرلیا۔ جب ایک اخبار نویس نے اس سے پوچھا کہ تم اپنی ذات کی نفی کر کے دوسروں کی بھلائی پر اربوں ڈالر کیوں خرچ کرتے ہو تو چک فینی نے بلاتامل جو جواب دیا ویسا جواب تو کوئی سینٹ یا صوفی ہی دے سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ ہر انسان دنیا میں خالی ہاتھ آتا ہے اور اسے اس دنیا سے خالی ہاتھ ہی لوٹنا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ مجھے اپنی ذات سے زیادہ دوسروں پر خرچ کر کے دلی سکون حاصل ہوتا ہے۔ 25 دسمبر کو غریب خانے پر بیرون ملک سے آنے والے چند مہمانوں اور لاہور کے کچھ احباب کو دعوت طعام دی مگر یہ محفل رونق اور معنویت کے اعتبار سے ایک ’’بین الاقوامی کانفرنس‘‘ بن گئی۔ ڈیلس میں پاکستان سوسائٹی آف نارتھ ٹیکساس کی سابق صدر مسز انجم انور پشاور میں ویلفیئر کا ایک بڑا منصوبہ چلا رہی ہیں۔ انہوں نے اہل محفل کو بتایا کہ اللہ نے ان پر بڑا فضل و کرم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی بہتر مستقبل کے لیے ملک سے باہر چلا جاتا ہے مگر اس کا دل ہمیشہ پاکستان میں اٹکا رہتا ہے۔ مسز انجم نے کہا کہ پہلے وہ پاکستان سوسائٹی کے ذریعے 2014ء میں بہت بڑا فنڈ لائیں اور انہوں نے شمالی وزیرستان کے بے گھر لوگوں کی آبادکاری کے لیے خدمات انجام دیں۔ اب انہوں نے پشاور میں معذور لوگوں کے علاج اور انہیں دوبارہ زندگی کی دوڑ میں شامل کرنے کے لیے ایک مرکز قائم کر رکھا ہے۔ اس مرکز میں فزیو تھراپی‘ مصنوعی اعضاء کی پیوندکاری اور معذور لوگوں کے نفسیاتی علاج اور شگفتہ بیانی سے معذوروں کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کیا جاتا ہے۔ مسز انجم نے بتایا کہ معذور خواتین کو سلائی کڑھائی‘ کشیدہ کاری‘ قالین بافی اور بیوٹیشن جبکہ مردوں کو پلمبنگ‘ ویلڈنگ‘ قالین بافی اور سلائی وغیرہ کی تربیت دی جاتی ہے۔ مسز انجم نے بتایا کہ ہم اگلے مرحلے پر پہلے پشاور کی سطح پر اور پھر پورے صوبے میں چائلڈ لیبر کے خاتمے اور سٹریٹ چلڈرن کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں گے اور انہیں ہنرمند بنائیں گے۔ حاضرین محفل نے سمندر پار بسنے والی خاتون کی اپنے ہم وطنوں کے لیے درد مندی اور ہمدردی کو بہت سراہا۔ اس موقع پر ممتاز کالم نگار یاسر پیرزادہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آج معلوم ہوا کہ محفل میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر سعید اختر بھی موجود تھے۔ انہوں نے یہ کہہ کر لب کشائی سے اجتناب کیا کہ ان کے انسٹیٹیوٹ کا معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ وہ اسی فیصد غریب مریضوں کوٹرانسپلانٹ کی مہنگی ترین سہولت دینے کے عہد پر قائم ہیں۔ ڈاکٹر بلال نے اپنا آئیڈیا سمجھانے کے لیے بتایا کہ وہ ’’اُبر اور کریم‘‘ جیسی آئی ٹی ایپ سے ایمبولینسوں اور ہسپتالوں کو جوڑ دیں گے اور ایمبولینس کی سکرین پر آ جائے گا کہ فلاں قریب ترین ایمرجنسی ہے۔ نوجوان ڈاکٹر نے بتایا کہ ہم پنجاب کے کسی ایک شہر سے پائلٹ پراجیکٹ شروع کریں گے۔ ہم فنڈ بھی خود اوورسیز پاکستانیوں سے لائیں گے۔ اس فنڈ سے سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی کی جدید سہولتوں کو بڑھایا جائے گا۔ ہم امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں کی مدد سے سسٹر سٹی بنائیں گے۔ اس پراجیکٹ کی کامیابی کے لیے اس کے تین ستون ہوں گے۔ ایک اوورسیز پاکستانی‘ دوسرے شہر کی انتظامیہ اور تیسرے عوامی نمائندے۔ لوئی ول کینٹکی امریکہ سے آئے ہوئے ڈاکٹر اسد اسماعیل بھی لاہور میں نیورالوجی کا ایک مرکز قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جرمنی سے آئے ہوئے ایک اور نوجوان بزنس مین یاسر حیات پراچہ نے بتایا کہ فرینکفرٹ جرمنی کے ریجن میں 90 ہسپتالوں کا ایک نیٹ ورک اسی طرح کام کررہا ہے۔ اس نیٹ ورک میں حکومت معززین علاقہ اور مخیر حضرات شامل ہیں۔ جرمنی سے آئے ہوئے بزنس مین شوکت حیات پراچہ پاکستان میں کئی فلاحی کاموں پر فراخدلی سے خرچ کر رہے ہیں۔ یہ ہماری خوش بختی تھی کہ ہم فقیروں کی ’’دال روٹی‘‘ کے لیے شہر کے چیدہ چیدہ اہل علم و فضل‘ اہل خیر اور ممتاز صحافی اور دانشور موجود تھے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی‘ اخوت کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب‘ مجیب الرحمن شامی‘ ارشاد احمد عارف‘ سہیل وڑائچ‘ سجاد میر‘ یاسر پیرزادہ‘ حفیظ اللہ نیازی‘ گل نوخیز اختر‘ سیاست دانوں میں لیاقت بلوچ‘ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ‘ منیر احمد خان اور امیرالعظیم بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ جدہ سے نوجوان بزنس کنسلٹنٹ عامر خورشید‘ انجینئر احمد سرفراز اور لندن سے چودھری طاہر بھی رونق افروز تھے۔ ان خوش حال اور مختلف شعبوں کے ماہر سمندر پار پاکستانی خواتین و حضرات کے جذبوں کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے ان پاکستانیوں کا بس چلے تو یہ محض چند سالوں میں پاکستان کی کایا بدل دیں‘ ان کو فری ہینڈ دیا جائے او سرخ فیتے کے ابلیسی چکر سے بچایا جائے اور ان کے اخلاص کی قدر کی جائے تو وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ وہ معاشی حالات‘ صحت‘ تعلیم اور روزگار کے وسیع تر مواقع کی فراہمی وغیرہ میںانقلابی و تعمیری تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ تبدیلی‘ نغمے الاپنے اور نعرے لگانے سے نہیں غوروفکر‘ منصوبہ بندی اور باہمی مفاہمت سے آئے گی۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان جب یہ کہتے ہیں کہ سمندر پار پاکستانی بہت بڑا سرمایہ اور بہت بڑا خزانہ ہیں تو بالکل درست کہتے ہیں مگر وزیراعظم یا ان کے وزیروں اور مشیروں کو یہ معلوم نہیں کہ ان اوورسیز پاکستانیوں کے جذبوں اور علمی و مالی خزانوں کو کیسے کام میں لانا ہے‘ اس کا انہیں کماحقہ ادراک نہیں۔ وزیراعظم کے محض یہ کہنے سے کہ ہر اوورسیز پاکستانی ایک ہزار ڈالر بھیجے تو پردیسیوں کو شرح صدر حاصل نہیں ہوتا۔ آپ انہیں دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح سے اپنے ساتھ شامل کریں گے تو وہ بہت کچھ اپنے وطن پر نچھاور کردیں گے۔ محفل میں موجود عمائدین شہر نے اوورسیز پاکستانیوں کے فلاحی کاموں کو بہت سراہا اور ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ پاکستانی دنیا کے کسی ملک میں چلے جائیں اور وہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اونچی اڑانوں اور پروازوں میں کیوں نہ مگن ہو جائیں مگر ہر وقت ان کا دھیان اپنے پیارے پاکستان کی طرف رہتا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے بالکل برحق کہا ہے کہ آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
هفته 29 دسمبر 2018ء
اگرچہ آج خبریں بڑی گرما گرم ہیں اور ان پر تبصرہ کرنے کو دل مچل رہا ہے مگر آج پاسبان عقل کا کہنا ہے کہ سیاست سے ذرا ہٹ کے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ سان فرانسسکو میں کرائے کے ایک فلیٹ میں رہتا ہے۔ وہ کسی برانڈ کے نہیں عام سے کپڑے پہنتا ہے۔ اس کے چہرے پر جو عینک لگی ہے وہ پرانی اور معمولی سی ہے۔ وہ سستی سی ایک دو گھڑیاں استعمال کرتا ہے۔ اسکے پاس کوئی کار نہیں وہ پبلک بس سے سفر کرتا ہے۔ وہ دفتر جاتے ہوئے جو ہینڈ بیگ لیکر جاتا ہے وہ عام سا پلاسٹک بیگ ہے مگر انتہائی حیرت ناک بات یہ ہے کہ اس ’’معمولی‘‘ شخص نے خیر کے کاموں کے لیے 8 بلین ڈالر عطیہ کئے ہیں۔اس شخص کا نام چک فینی ہے۔ اسے نمودونمائش سے نفرت تھی۔ بالآخر اخبار نویسوں اور ٹی وی رپورٹروں نے اس کا کھوج لگایا اور اسے میڈیا کا سامنا کرنے پر آمادہ کرلیا۔ جب ایک اخبار نویس نے اس سے پوچھا کہ تم اپنی ذات کی نفی کر کے دوسروں کی بھلائی پر اربوں ڈالر کیوں خرچ کرتے ہو تو چک فینی نے بلاتامل جو جواب دیا ویسا جواب تو کوئی سینٹ یا صوفی ہی دے سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ ہر انسان دنیا میں خالی ہاتھ آتا ہے اور اسے اس دنیا سے خالی ہاتھ ہی لوٹنا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ مجھے اپنی ذات سے زیادہ دوسروں پر خرچ کر کے دلی سکون حاصل ہوتا ہے۔ 25 دسمبر کو غریب خانے پر بیرون ملک سے آنے والے چند مہمانوں اور لاہور کے کچھ احباب کو دعوت طعام دی مگر یہ محفل رونق اور معنویت کے اعتبار سے ایک ’’بین الاقوامی کانفرنس‘‘ بن گئی۔ ڈیلس میں پاکستان سوسائٹی آف نارتھ ٹیکساس کی سابق صدر مسز انجم انور پشاور میں ویلفیئر کا ایک بڑا منصوبہ چلا رہی ہیں۔ انہوں نے اہل محفل کو بتایا کہ اللہ نے ان پر بڑا فضل و کرم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی بہتر مستقبل کے لیے ملک سے باہر چلا جاتا ہے مگر اس کا دل ہمیشہ پاکستان میں اٹکا رہتا ہے۔ مسز انجم نے کہا کہ پہلے وہ پاکستان سوسائٹی کے ذریعے 2014ء میں بہت بڑا فنڈ لائیں اور انہوں نے شمالی وزیرستان کے بے گھر لوگوں کی آبادکاری کے لیے خدمات انجام دیں۔ اب انہوں نے پشاور میں معذور لوگوں کے علاج اور انہیں دوبارہ زندگی کی دوڑ میں شامل کرنے کے لیے ایک مرکز قائم کر رکھا ہے۔ اس مرکز میں فزیو تھراپی‘ مصنوعی اعضاء کی پیوندکاری اور معذور لوگوں کے نفسیاتی علاج اور شگفتہ بیانی سے معذوروں کی حوصلہ افزائی کر کے انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کیا جاتا ہے۔ مسز انجم نے بتایا کہ معذور خواتین کو سلائی کڑھائی‘ کشیدہ کاری‘ قالین بافی اور بیوٹیشن جبکہ مردوں کو پلمبنگ‘ ویلڈنگ‘ قالین بافی اور سلائی وغیرہ کی تربیت دی جاتی ہے۔ مسز انجم نے بتایا کہ ہم اگلے مرحلے پر پہلے پشاور کی سطح پر اور پھر پورے صوبے میں چائلڈ لیبر کے خاتمے اور سٹریٹ چلڈرن کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں گے اور انہیں ہنرمند بنائیں گے۔ حاضرین محفل نے سمندر پار بسنے والی خاتون کی اپنے ہم وطنوں کے لیے درد مندی اور ہمدردی کو بہت سراہا۔ اس موقع پر ممتاز کالم نگار یاسر پیرزادہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آج معلوم ہوا کہ محفل میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر سعید اختر بھی موجود تھے۔ انہوں نے یہ کہہ کر لب کشائی سے اجتناب کیا کہ ان کے انسٹیٹیوٹ کا معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ وہ اسی فیصد غریب مریضوں کوٹرانسپلانٹ کی مہنگی ترین سہولت دینے کے عہد پر قائم ہیں۔ ڈاکٹر بلال نے اپنا آئیڈیا سمجھانے کے لیے بتایا کہ وہ ’’اُبر اور کریم‘‘ جیسی آئی ٹی ایپ سے ایمبولینسوں اور ہسپتالوں کو جوڑ دیں گے اور ایمبولینس کی سکرین پر آ جائے گا کہ فلاں قریب ترین ایمرجنسی ہے۔ نوجوان ڈاکٹر نے بتایا کہ ہم پنجاب کے کسی ایک شہر سے پائلٹ پراجیکٹ شروع کریں گے۔ ہم فنڈ بھی خود اوورسیز پاکستانیوں سے لائیں گے۔ اس فنڈ سے سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی کی جدید سہولتوں کو بڑھایا جائے گا۔ ہم امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں کی مدد سے سسٹر سٹی بنائیں گے۔ اس پراجیکٹ کی کامیابی کے لیے اس کے تین ستون ہوں گے۔ ایک اوورسیز پاکستانی‘ دوسرے شہر کی انتظامیہ اور تیسرے عوامی نمائندے۔ لوئی ول کینٹکی امریکہ سے آئے ہوئے ڈاکٹر اسد اسماعیل بھی لاہور میں نیورالوجی کا ایک مرکز قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جرمنی سے آئے ہوئے ایک اور نوجوان بزنس مین یاسر حیات پراچہ نے بتایا کہ فرینکفرٹ جرمنی کے ریجن میں 90 ہسپتالوں کا ایک نیٹ ورک اسی طرح کام کررہا ہے۔ اس نیٹ ورک میں حکومت معززین علاقہ اور مخیر حضرات شامل ہیں۔ جرمنی سے آئے ہوئے بزنس مین شوکت حیات پراچہ پاکستان میں کئی فلاحی کاموں پر فراخدلی سے خرچ کر رہے ہیں۔ یہ ہماری خوش بختی تھی کہ ہم فقیروں کی ’’دال روٹی‘‘ کے لیے شہر کے چیدہ چیدہ اہل علم و فضل‘ اہل خیر اور ممتاز صحافی اور دانشور موجود تھے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی‘ اخوت کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب‘ مجیب الرحمن شامی‘ ارشاد احمد عارف‘ سہیل وڑائچ‘ سجاد میر‘ یاسر پیرزادہ‘ حفیظ اللہ نیازی‘ گل نوخیز اختر‘ سیاست دانوں میں لیاقت بلوچ‘ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ‘ منیر احمد خان اور امیرالعظیم بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ جدہ سے نوجوان بزنس کنسلٹنٹ عامر خورشید‘ انجینئر احمد سرفراز اور لندن سے چودھری طاہر بھی رونق افروز تھے۔ ان خوش حال اور مختلف شعبوں کے ماہر سمندر پار پاکستانی خواتین و حضرات کے جذبوں کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے ان پاکستانیوں کا بس چلے تو یہ محض چند سالوں میں پاکستان کی کایا بدل دیں‘ ان کو فری ہینڈ دیا جائے او سرخ فیتے کے ابلیسی چکر سے بچایا جائے اور ان کے اخلاص کی قدر کی جائے تو وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ وہ معاشی حالات‘ صحت‘ تعلیم اور روزگار کے وسیع تر مواقع کی فراہمی وغیرہ میںانقلابی و تعمیری تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ تبدیلی‘ نغمے الاپنے اور نعرے لگانے سے نہیں غوروفکر‘ منصوبہ بندی اور باہمی مفاہمت سے آئے گی۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان جب یہ کہتے ہیں کہ سمندر پار پاکستانی بہت بڑا سرمایہ اور بہت بڑا خزانہ ہیں تو بالکل درست کہتے ہیں مگر وزیراعظم یا ان کے وزیروں اور مشیروں کو یہ معلوم نہیں کہ ان اوورسیز پاکستانیوں کے جذبوں اور علمی و مالی خزانوں کو کیسے کام میں لانا ہے‘ اس کا انہیں کماحقہ ادراک نہیں۔ وزیراعظم کے محض یہ کہنے سے کہ ہر اوورسیز پاکستانی ایک ہزار ڈالر بھیجے تو پردیسیوں کو شرح صدر حاصل نہیں ہوتا۔ آپ انہیں دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح سے اپنے ساتھ شامل کریں گے تو وہ بہت کچھ اپنے وطن پر نچھاور کردیں گے۔ محفل میں موجود عمائدین شہر نے اوورسیز پاکستانیوں کے فلاحی کاموں کو بہت سراہا اور ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ پاکستانی دنیا کے کسی ملک میں چلے جائیں اور وہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اونچی اڑانوں اور پروازوں میں کیوں نہ مگن ہو جائیں مگر ہر وقت ان کا دھیان اپنے پیارے پاکستان کی طرف رہتا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے بالکل برحق کہا ہے کہ آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز لاہور میں هفته 29 دسمبر 2018ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں