اسلام آباد(لیڈی رپورٹر)اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں وفاقی وزیر غلام سرور اور معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ،فردوس عاشق اعوان نے ایک بارپھر غیرمشروط معافی کی استدعا کی،عدالت نے وفاقی وزیرغلام سرور سے جمعرات تک جواب طلب کرلیا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت اپنے میڈیکل بورڈ پرعدم اعتماد کا اظہارکررہی ہے ؟ زیرسماعت کیسزپربات کرنے سے تمام سائلین پراثرآئے گا ۔ تفصیل کے مطابق چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ اطہرمن اللہ نے وفاقی وزیرغلام سرور کیخلاف توہین عدالت درخواست پرسماعت کی ، درخواست گزارنے موقف اپنایاکہ وفاقی وزیرنے نوازشریف کی رہائی کو ڈیل کا حصہ قراردیا اور زیرسماعت کیس پراثراندازہونے کی کوشش کی ، چیف جسٹس نے معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کو روسٹرم پربلایا اور کہاکہ ایک وفاقی وزیرجھوٹی میڈیکل رپورٹ پیش کرنے کا کیسے کہہ سکتا ہے ،حکومت اپنے بنائے ہوئے میڈیکل بورڈ سے متعلق ایسی بات کررہی ہے ، فردوس عاشق اعوان نے کہاکہ یہ حکومتی پالیسی نہیں، وزیر کی ذاتی رائے ہوسکتی ہے ، معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں لایا جائیگا،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جب زیرسماعت کیسزپربات کریں گے تواس کا اثرتمام سائلین پرآئیگا ۔عدالت نے وفاقی وزیرغلام سرور سے 14نومبرتک جواب طلب کرلیا اور فردوس عاشق اعوان کے توہین عدالت نوٹس کی سماعت بھی اسی روزرکھنے کی ہدایت کی جس پرمعاون خصوصی نے دونوں نوٹس نتھی نہ کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہاکہ غلام سرور کا بیان انکا انفرادی فعل ، انکا کیس الگ رکھیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دئیے کہ فردوس عاشق نے سرکاری سطح پرپریس کانفرنس کی، غلام سرور نے بھی بیان دیا اسلئے اکٹھا کیس سنیں گے ۔وزیر نے بیان دیکر تاثر دیا کہ نواز شریف کی جعلی رپورٹ پیش کر کے عدالت کو گمراہ کیا گیا،وزرا کے بیانات عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے ، جعلی میڈیکل رپورٹ کے بیانات سنگین ہیں، بیانات سے میڈیکل رپورٹ پر خدشات پیدا ہو گئے ،وزرا کا مبینہ ڈیل کا تاثر دینا خود حکومت کیلئے فرد جرم ہے ۔ادھراسلام آباد ہائیکورٹ نے ایڈووکیٹ طارق اسد کی آئی جی اسلام آباد کیخلاف توہین عدالت سے متعلق درخواست نمٹا دی ۔