لاہور؍ اسلام آباد(وقائع نگار؍ سپیشل رپورٹر) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کرپشن قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی علامت ہے اور ہمارے ملک کے تمام مسائل کا حل قانون کی حکمرانی میں ہے ، قانون کی حکمرانی جرائم پیشہ افراد کو آگے بڑھنے سے روکتی ہے ، دہشتگردی کے خلاف پاکستان نے 80 ہزار جانوں کی قربانی دی، اس کے باوجود ہمیں خطرناک ملک کہا گیا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام مارگلہ ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔وزیر اعظم نے کہا قوموں کے درمیان فرق ہی قانون کی حکمرانی کا ہے ، غریب ممالک میں وسائل کی کمی غربت کا سبب نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی سے ہی معاشرے میں میرٹ اور تہذیب پروان چڑھتی ہے ، جمہوریت وہیں مستحکم ہوتی ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہو، اگر قانون کی حکمرانی نہ ہو تو انتخابات میں طاقتور ،وار لارڈز اور جرائم پیشہ افراد آگے آ جاتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا پاکستان افغان جنگ میں امریکہ کا اتحادی بنا لیکن ناکامی کاسارا ملبہ پاکستان پر ہی ڈال دیاگیا، پچھلے 10، 12 سال کے دوران کسی مغربی ملک کے اخبار نے پاکستان کو اس کا کریڈٹ نہیں دیا،الٹا پاکستان کو ڈبل گیم کرنے کا الزام دیا جاتا رہا،غلطیاں وہ خود کررہے تھے اور مورد الزام پاکستان کو ٹھہرایا جا رہاتھا، ہم ان الزامات کا اس وجہ سے جواب نہیں دے پا رہے تھے کیونکہ ہمارے ملک کی قیادت کی رہنمائی کرنے کے لئے کوئی تھنک ٹینک موجوود نہیں تھا، مسائل کے حل کے لئے ہمیں لیڈر شپ کی کمی کا سامنا تھا۔۔ انہوں نے کہا اب بھی افغانستان میں اگر طویل خانہ جنگی ہو جاتی تو اس کا سارا الزام پاکستان پرآ جانا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے محفوظ رکھا۔وزیراعظم نے کہا پاکستان کے لئے یہ انتہائی سبکی کی بات تھی کہ ہم جن کا ساتھ دے رہے تھے ، وہ ہمیں اتحادی بھی قرار دے رہے تھے ، ہمارے اوپر بمباری بھی کررہے تھے ، ہمارے لوگوں کی جانیں بھی جا رہی تھیں لیکن الزام بھی ہم ہی پر لگ رہا تھا اور ساتھ ساتھ امداد دینے کی باتیں بھی کی جا رہی تھیں۔ وزیراعظم نے کہا ہمارا ملک بھی دو طبقات میں تقسیم ہو گیا تھا، ایک طبقہ امریکہ کا مخالف تھا اور دوسرا امریکہ کی حمایت میں آگے آ گیا جس کی وجہ سے ہم اپنا نکتہ نظر اس طریقے سے دنیا کے سامنے لا ہی نہ سکے ۔وزیراعظم نے کہا بھارت کشمیر میں جو کر رہاہے ، مغرب اس پرتنقید نہیں کرتا لیکن اگر کوئی اور ملک اس طرح کررہا ہوتا توبہت شور مچتا،ہندوستان میں نسل پرست حکومت بدقسمتی ہے ۔وزیراعظم نے کہا قومی سلامتی کا ایک وسیع تناظر ہے ، جب تک جامع ترقی نہ ہو قومی سلامتی یقینی نہیں ہو سکتی، اگر ایک چھوٹا ساطبقہ امیر ہوتا جائے اورکمزور لوگ کمزور تر ہوتے رہیں اور ایک علاقہ ترقی کرجائے یا د وتین شہر ترقی کر جائیں تو باقی ملک یاصوبہ پیچھے رہ جائے تو وہ ملک بھی محفوظ نہیں ہوتے ، غیر مساوی ترقی انتشار کا سبب بنتی ہے ۔وزیراعظم نے کہا ہمارا مضبوط خاندانی اور مہذب نظام ہے ، ہمارے ہاں بھی انتہا پسندی کی سوچ رکھنے والے لوگ ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے غیر منصفانہ نظام تعلیم کو ٹھیک نہیں کیا۔ وزیراعظم نے گورنر ہائوس میں نیا پاکستان صحت کارڈ پروگرام کا افتتاح بھی کیا۔ وزیراعظم نے کہا جنوری 2022سے تین ماہ کے اندر پنجاب کی آباد ی کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے فی خاندان دس لاکھ روپے کے فنڈز صحت کارڈز کے ذریعے فراہم کئے جائیں گے ۔پاکستان میں مدینہ کی ریاست قائم کرنے کے وژن کے حوالے سے انہوں نے کہا حضرت محمدﷺ نے محدود وسائل میں دنیا کی پہلی فلاحی ریاست قائم کی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فلاحی ریاست قائم کرنے کے لئے وسائل کی بجائے انسانیت زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔انہوں نے کہا 50ہزار سے کم آمدنی والے خاندانوں پر مہنگائی کے اثرات کم کرنے کے لئے احساس روشن سکیم شروع کی ،حکومت تعلیم کے شعبہ میں مستحق طلبہ کو 6 ارب 20کروڑ روپے کے وسائل فراہم کرے گی۔علاوہ ازیں وزیراعظم سے گورنر پنجاب چودھری سرور اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ملاقات کی۔ گورنر نے اپنے دورہ برطانیہ، وزیراعلیٰ نے سانحہ سیالکوٹ کی تحقیقات میں پیشرفت، نئے بلدیاتی نظام پر بریفنگ دی۔وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ آئندہ سانحہ سیالکوٹ جیسے واقعات کو سختی سے روکا جائے ، سیاسی اور انتظامی قیادت مشترکہ حکمت عملی طے کرے ۔ وزیر اعظم نے سراہتے ہوئے کہا کہ صحت کے شعبے میں حکومت پنجاب کے اقدامات قابل تعریف ہیں، فلاح عامہ پر مزید توجہ دی جائے اور زیر تعمیر ترقیاتی کاموں کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے ۔گور نر پنجاب نے بر یفنگ میں بتایا کہ بر طانیہ کے وزرا،ارکان پارلیمنٹ،لارڈز اور مختلف سیاسی جماعتوں کے 20سے زائد لوگ پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں اور رواں ماہ ہی ان ارکان کے دوروں کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا۔ وزیر اعظم نے ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان امن کے ساتھ کھڑا ہے ۔وزیراعظم سے صوبائی وزرا نے بھی ملاقات کی۔قبل ازیں وزیراعظم سرکاری دورے پر لاہور پہنچے تو گورنر محمد سرور اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ان کا استقبال کیا۔