آن لائن تعلیم کے مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور حکومت آف لائن ہو چکی ہے۔ کیا نوجوانوں نے تحریک انصاف کا رومان اسی لیے پالا تھا کہ اول نوجوانوں کے امور کے نام پر انتخابات میں شکست کھانے والے ایک غیر منتخب کو مشیر بنا لیا جائے اور اس کے بعد نوجوانوں کے مسائل کی طرف بھول کر بھی توجہ نہ دی جائے۔کیا نوجوانوں کی افادیت اب صرف یہ رہ گئی ہے کہ ان کے جذبوں کا استحصال کیا جائے اور انہیں سیاست کی بھٹی میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا جائے؟ کورونا سے پیدا ہونے والے چیلنجز میں زندگی اور روزگار کے بعد سب سے بڑا چیلنج تعلیم کا تھا۔ اب آن لائن تعلیم کا روزن کھل رہا تھا۔ حکومت چاہتی تو اس موقع پر امکانات کا ایسا جہان آباد ہو سکتا تھا جو ہمارے تعلیمی ڈھانچے کا حلیہ بدل دیتا ۔لیکن حکومت مسلسل آف لائن رہی ، دوردراز کے شہروں کے اے ٹی ایم کی طرح اس کا ’’ ایشیور لنک ڈائون ‘‘ ہی پایا گیا۔ آن لائن تعلیم سے جڑے دو بڑے چیلنج ہیں ۔ ہر شخص کے لیے اپنے بچوں کو انڈرائڈ فون یا ٹیب لے کر دینا آسان کام نہ تھا۔ حکومت چاہتی تو ہنگامی بنیادوں پر ملک میں ان کی کم قیمت پر فراہمی کا کوئی منصوبہ بنا سکتی تھی۔چین سے بات کر کے کوئی ایسا سستا انڈرائڈ یا لیپ ٹاپ مارکیٹ میں لایا جا سکتا تھا ، معاشی بحران کے اس دور میں جس کی خریداری لوگوں کی جیب پر بھاری نہ پڑتی۔پاکستان میں اس وقت قریبا 60 کروڑ لوگ موبائل فون استعمال کر رہے ہیں۔ ہماری حکومتوں کی بے نیازی دیکھیے کہ اتنی بڑی مارکیٹ ہے لیکن کسی نے مقامی سطح پر موبائل تیار کرنے کا نہیں سوچا۔ کسی کو پرواہ نہیں کتنا پیسہ باہر جا رہا ہے؟ ہماری مارکیٹ بس صرف اس کی خرید و فروخت تک محدود ہے۔اب ایک نیا چیلنج سامنے آیا تھا تو اسے تھوڑے سے ویژن اور منصوبہ بندی سے دیکھا جاتا تو نہ صرف آن لائن تعلیم کے معاملات میں فائدہ ہوتا بلکہ معاشی طور پر بھی ملک کے لیے سود مند ہوتا۔ لیکن جب ٹوئٹر پر فتوحات کا سلسلہ جاری ہو تو زمین کی حقیقتوں کو کون دیکھتا ہے۔یہیاں غریبوں سے کہا جاتا ہے احساس پروگرام ایپ پررجسٹرڈ ہو جائیں۔گویا غریب اور حاجت مند کے پاس موبائل اور انٹر نیٹ تو پیدائش سے ہی موجود ہے، اب صرف رجسٹرڈ ہونا باقی ہے۔ آن لائن تعلیم سے جڑا دوسرا بڑا چیلنج ملک بھر میں سستے اور معیاری انٹر نیٹ کی فراہمی تھا۔ موبائل ، ٹیب یا لیپ ٹاپ تو والدین کسی طرح خرید کر بچوں کو دے ہی دیں گے لیکن وہ ایسا انٹرنیٹ کہاں سے لائیں گے جہاں زوم یا واٹس ایپ پر ویڈیو لیکچرز سنیں جا سکیں؟ چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر ملک میں انٹر نیٹ کی سہولت کا معیار انتہائی پست اور قابل رحم ہے۔ بڑے شہروں کے طلباء تو آن لائن کلاسز لے رہے ہیں باقی کے لوگ کس عالم میں ہیں؟کیا باقی شہر وں کے طلباء کا تعلیم پر کوئی حق نہیں؟ ڈیجیٹل پاکستان نامی ایک عدد ویژن کی سوشل میڈیا پر دھوم مچی رہی لیکن یہ ویژن زمین پر ابھی تک کہیں نظر نہیں آ رہا۔ موبائل کمپنیوں کو کوئی روکنے والا نہیں ، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ غیر معیاری سروس ، غیر معیاری انٹر نیٹ۔ سم ایشو کرتے وقت سیکیورٹی کی رقم ایک منٹ میں وصول کر لیتے ہیں سیکیورٹی کی واپسی کا عمل اتنا طویل اور پیچیدہ رکھا گیا ہے کہ لوگ چند ہزار کے لیے اس تردد میں ہی نہ پڑیں۔ پی ٹی سی ایل یا دیگر نجی کمپنیوں کے نیٹ پیکجز عام آدمی کے لیے خاصے مہنگے ہیں۔حکومت یہ بھی نہیں کر سکی کہ آن لائن تعلیم میں سہولت دینے کے لیے سستے پیکجز ہی متعارف کرا دیتی یا کم از کم اس میں ٹیکسز ہی کو معاف کر دیتی یا کم کر دیتی۔اچھا انٹر نیٹ عام ہو تو نہ صرف آن لائن لیکچر میں معاون ہو سکتا ہے بلکہ آپ اس سے اپنی لائبریریز کو بھی ڈیجٹلائز کر کے کتب کے آن لائن مطالعے کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ تھوڑا سا ویژن بروئے کار لایا جاتا تو اس موقع سے فائدہی اٹھاتے ہوئے نظام تعلیم کا حلیہ بدل دیا جاتا۔ یونیورسٹیوں ، کالجوں اور دیگر اداروں میں جب کلاسز نہیں ہو رہیں تو ان کے بہت سے ایسے اخراجات بھی نہیں ہو رہے جو عام دنوں میں ہوتے تھے۔ بجلی استعمال نہیں ہو رہی اور بجلی کافی مہنگی ہے۔ ٹرانسپورٹ استعمال نہیں ہو رہی اور ایندھن اور مینٹیننس کے اخراجات بھی بچ رہے ہیں۔ ان اخراجات کی فہرست مرتب کی جائے جو عام حالات میں ہوتے تھے اور اب نہیں ہو رہے تو یہ ایک طویل فہرست بن سکتی ہے۔ بے شک کچھ اخراجات اب بھی ہو رہے ہوں گے لیکن بچت بھی معمولی نہیں۔ سوال یہ ہے اس کے باوجود یونیورسٹیوں نے طلباء سے پوری فیسیں کیوں لی ہیں؟ طلباء فیسیں بھی دیں اور آن لائن تعلیم کے لیے موبائل اور نیٹ کے اخراجات بھی اٹھائیں۔یہ کیسا انصاف ہے؟یونیورسٹی سطح پر تو یقینا طلباء کے پاس موبائل وغیرہ ہوں گے لیکن کالج اور بالخصوص سکولوں کی سطح پر یہ صورت حال نہیں ہے۔ معاشی بحران میں والدین پر یہ اضافی اخراجات ڈال دیے گئے ہیں اور حکومت آف لائن ہے۔تعلیم کی دنیا میں اب سب کچھ آن لائن ہے ، وزیر تعلیم مگر ابھی تک آف لائن ہیں۔ ان کاکام غالبا اب یہی بتانا رہ گیا ہے کہ سکول کالج کب تک بند رہیں گے اور کب کھلیں گے۔ حالانکہ کسی دبائو پر سکول کھول کر بچوں کی زندگی اور والدین کے اعصاب سے کھیلنے کی بجائے آن لائن تعلیم کے معاملات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر طاہر ملک جیسے صاحب دانش تو ان معاملات پر آوز اٹھا رہے ہیں ، پارلیمان کہاں ہے ، حکومت کہاں ہے ، وزیر تعلیم کہاں ہیں؟ ہماری بے نیازی دیکھیے ، قومی بیانیے میں تعلیم کے مسائل کہیں زیر بحث ہی نہیں۔ سوال وہی ہے: کیا نوجوانوں نے تحریک انصاف کا رومان اسی لیے پالا تھا کہ اول نوجوانوں کے امور کے نام پر انتخابات میں شکست کھانے والے ایک غیر منتخب کو مشیر بنا کر ’’ اکاموڈیٹ‘‘ فرما لیا جائے اور اس کے بعد نوجوانوں کے مسائل کی طرف بھول کر بھی توجہ نہ دی جائے۔کیا نوجوانوں کی افادیت اب صرف یہ رہی گئی ہے کہ ان کے جذبوں کا استحصال کیا جائے اور انہیں سیاست کی بھٹی میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا جائے؟