بیک وقت اتنے محاذ کھول دیئے گئے ہیں جن سے لگتا ہے کہ وطن عزیز اپنے ساتھ ہی برسر پیکار ہے۔ ایک طرف اعلیٰ عدلیہ کو زیر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو دوسری طرف پشتون تحفظ محاذ کے ساتھ نیا فرنٹ کھول دیا گیا ہے اور میڈیا کی بھی خیر نہیں، اس پر بھی دبائو بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود کہ پیمرا نے قریباً تمام چیدہ چیدہ نیوز چینلز کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنس کا ذکر تک کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی لیکن سپریم کورٹ کے جج صاحب جن کے خلاف حکومت نے ریفرنس دائر کر رکھا ہے جس کی 14 جون کو سماعت ہو گی‘ کی کردارکشی کیلئے میڈیا اور سوشل میڈیا پر مہم بھی جاری تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف میڈیا کو لیک کئے گئے مواد میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ اور بچوں کے بیرون ملک اثاثے ظاہر نہیں کئے لیکن ابھی تک جج صاحب کو باقاعدہ چارج شیٹ نہیں دی گئی۔ واضح رہے جسٹس قاضی فائز کا تعلق بلوچستان کے مشہور عیسیٰ خاندان سے ہے جس نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا ان کے والد قاضی عیسیٰ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے دست راست تھے۔ نامور سفارت کار اشرف جہانگیر قاضی بھی ان کے کزن ہیں۔ بعض حلقے الزام عائد کرتے ہیں کہ جسٹس فائز سپریم کورٹ کے اس دو رکنی بینچ کے رکن تھے جس نے فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کی تھی اور اس فیصلے کی وجہ سے ان پر یہ افتاد گری ہے۔ واضح رہے کہ نومبر 2017ء میں تحریک لبیک کے دھرنے کی وجہ سے اسلام آباد میں دو ہفتے تک کاروبار زندگی معطل رہا۔ اس سوموٹو کیس میں جسٹس فائز نے اپنے تفصیلی فیصلے میں سفارش کی تھی کہ حکومت پاکستان اور وزارت دفاع فوج‘ نیوی اور ایئرفورس کو ہدایت کرے کہ وہ ان افسروں اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی تھی۔ یہ بھی واضح رہے میڈیا رپورٹس میں انکشاف کیا گیا تھا ۔جب فیض آباد میں دھرنا ختم ہوا تو ایک فوجی افسر ہزار ہزار کے نوٹ بانٹتے دیکھا گیا تھا۔ ادھر جسٹس قاضی فائز نے صدر مملکت کے نام مختصر عرصے میں لکھے گئے دو خطوط میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ان کے خلاف الزامات بتائے بغیر ان کا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے، ان کے مطابق ان کی اہلیہ اور بچے خود مختار ہیں اور اپنا اپنا کام کرتے ہیں لہٰذا ان کیلئے اپنے اہل خانہ کے اثاثے ظاہر کرنا ضروری نہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے ترکی بہ ترکی سوال کیا کہ انہوں نے اپنے بچوں اور بیویوں (سابق اور موجودہ) کے اثاثے کیوں ظاہر نہیں کئے۔ واضح رہے کہ وفاقی کابینہ عید سے پہلے اپنے اجلاس میں‘ احتساب سب کے لئے برابر ہے،کے مصداق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کے فیصلے کی توثیق کر چکی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے 14 جون کو یوم سیاہ منانے اور ملک گیر احتجاج کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کراچی بار کونسل نے وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل انور منصور خان کی رکنیت بھی معطل کر دی ہے، سپریم کورٹ بار کے صدر کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ نے ججوں کے کوڈ آف کنڈکٹ کی گیارہ شقوں میں سے کسی ایک کی بھی خلاف ورزی نہیں کی۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے کہ اعلیٰ عدالتیں جو جمہوریت کا طرہ امتیاز ہوتی ہیں جنرل پرویز مشرف کے دور میں چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کی کامیاب وکلاء تحریک کے بعد اپنے فیصلوں کے حوالے سے نسبتاً آزاد نظر آ رہی تھیں اب قانونی اور جمہوری حلقوں کے مطابق ان کی یہ آزادی خطرے میں ہے ۔دیکھنا پڑے گا کہ سپریم جوڈیشل کونسل جو چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین جج صاحبان اور ہائیکورٹس کے دو سینئر چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل ہے اس ضمن میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ یہ جسٹس قاضی فائز سے زیادہ خود عدلیہ کا اپنا امتحان ہے کہ وہ اپنی آزادی کی آبیاری کس طرح کرتی ہے۔ جہاں تک پختون تحفظ محاذ کا تعلق ہے، سیاسی حلقے دیکھ رہے ہیں کہ ان کے دو زیرحراست ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کو کب قومی اسمبلی میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان پرالزام ہے کہ انہوں نے 26 مئی کو جنوبی وزیرستان میں ایک فوجی چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا جس میں کچھ لوگ جاں بحق اور کچھ فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کچھ عرصہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی ایم کا وقت ختم ہو چکا ہے‘ یہ لوگ بھارت اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے رابطے میں ہیں۔ اس پس منظر میں بلاول بھٹو کا سپیکر قومی اسمبلی کو یہ خط کہ دونوں ارکان کو ایوان میں پیش کیا جائے سراسر جائز ہے تاکہ پی ٹی ایم کے یہ لیڈر اپنے خلاف الزامات کا جواب دے سکیں‘ ہنوز قوم کو ایک طرف کی کہانی پتہ ہے۔ محسن داوڑ کو تو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا اور اب انہیں جوڈیشل کر دیا گیا ہے بہتر ہوتا کہ انہیں عام عدالتوں میں پیش کیا جاتا۔ اُدھر اس عذر لنگ کے پیچھے چھپنے کی بجائے کہ ہمیں تو بلاول کا خط ہی نہیں ملا سپیکر قومی اسمبلی ان ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کریں۔ عمران خان نے جو پہلے کہتے رہے ہیں کہ پی ٹی ایم کے مطالبات ٹھیک ہیں لیکن ان کا طریقہ کار غلط ہے اس معاملے میں معنی خیز خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ مراد سعید اور شہریار آفریدی سمیت ان کے بعض چونیئرزکے منہ سے جھاگ نکل رہی ہے۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو وزیرستان جیسے قبائلی علاقوں میں طالبان سمیت متحارب گروپوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے حامی تھے اور ڈرون حملوں ، طاقت کے استعمال کے بھی سخت مخالف تھے‘ لیکن اب وہ حکومت میں ہیں۔ نہ جانے ہم تاریخ سے سبق سیکھنے سے کیوں عاری ہیں۔ بنگالی قیادت کو غدار‘ غدار کہتے کہتے ہم نے 1971ء میں آدھا ملک گنوا دیا ،پھر دو سال بعد بلوچستان میں فوج کشی کی گئی ،ماضی قریب میں پرویز مشرف نے جاتے جاتے اکبر بگٹی جو میانہ رو سیاستدان تھے بعد میں ہارڈ لائنر بن گئے‘ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جمہوری دور ہونے کے باوجود ناراض بلوچ عناصر سرگرم عمل ہیں اور ان میں سے کچھ دشمن کی پشت پناہی سے کُھل کھیل رہے ہیں حتیٰ کہ سردار عطاء اللہ مینگل کے صاحبزادے اختر مینگل جن کی بلوچستان نیشنل پارٹی تحریک انصاف کی حکومت کی حلیف ہے حکومتی پالیسیوں بالخصوص بلوچستان پالیسی کے سخت ناقد ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں قومی اسمبلی میں اپنی تقریر اور میڈیا گفتگو میں کہا کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے،ان کے مطابق پاکستان میں شروع سے ہی غدار غدار کی فیکٹریاں لگ گئیں،فاطمہ جناح کو بھی غدار کہا گیا، اگر اس طرح اعداد وشمار دیکھیں تو ملک کی اسی فیصد آبادی ’’غدار‘‘ ہے۔ سردار اختر مینگل نے کہا بلوچستان میں اگر بیرونی قوتیں ہیں تو انہیں سامنے لایا جائے، غداری کے القابات وہ لاٹھی ہے جس سے ضمیروں کو ہانکنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس میں بے ضمیر ہانک لئے جاتے ہیں اور باضمیر ڈٹ جاتے ہیں۔ ان کے مطابق بلوچ بھائی قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف مخصوص مقاصد کے تحت ریفرنس دائر کیا گیا،وہ حلیف ہونے کے باوجود حکومت گرانے میں متحدہ اپوزیشن اور حکومتی اراکین کا ساتھ دینگے۔ عین عید سے اگلے روز شمالی وزیرستان میں بارودی سرنگ دھماکے میں فوج کے تین افسر اور ایک اہلکار شہید ہو گئے۔معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے بلا سوچے سمجھے اس انتہائی سفاک کارروائی کا سارا ملبہ پی ٹی ایم پر ڈال دیا۔گویا کہ ایک نادان ترجمان کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے خود ہی یہ عندیہ دے دیا کہ پشتون عناصر نے خیبر پختونخوا کے سابق قبائلی علاقوں میں طبل جنگ بجا دیا ہے یعنی ان کے مطابق یک نہ شد دو شد ۔بلوچوں کے بعد اب پختون۔حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور جیسا کہ عمران خان اپوزیشن میں کہتے رہے ہیںان معاملات کا حل مذاکرات ہیں نہ کہ گولی۔ اس وقت وطن عزیز کو گورننس‘ اقتصادیات اور سکیورٹی کے حوالے سے پہلے ہی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہم نہ جانے کیوں اپنا گھر سنوارنے کے بجائے نئے نئے محاذ کھول رہے ہیں۔